نیا وزیراعظم

July 30, 2017

میں نے نون لیگ کے اہم کارکن سے سوال کیا کہ ’’نون لیگ میں سب سے زیادہ شریف آدمی کون ہے جو شریف فیملی کا دلی طور پرہمدرد بھی ہو‘‘ تو اس نے خاصی دیر سوچا اور پھر بولا ’’پیر امین الحسنات شاہ ‘‘۔ میں نے حیرت سے کہا’’انہیں تو نواز شریف نے فل وفاقی وزیر بھی نہیں بنایا تھا۔ وزیر مملکت بنایا ہوا تھا۔ حالانکہ دنیا بھر میں ان کے لاکھوں چاہنے والے ہیں۔ میں نےبڑے بڑے لوگوں کو ان کے پائوں میں بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ وہ کہنے لگا ’’ شریف آدمی ہونے کے نقصان بھی توہوتےہیں ‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’ ممکن ہے وہ نواز شریف سے زیادہ شہباز شریف کے قریب ہوں ‘‘۔ تو اس نے کہا۔ ’’تمہارا خیال درست ہے۔ پیر امین الحسنات شاہ شہباز شریف کے بارے میں زیادہ اچھے خیالات رکھتے ہیں۔ ویسے یہ جوعبوری حکومت کےلئے وزیر اعظم بنانا ہے اسکےلئے ان سے بہتر کوئی اور آدمی شہباز شریف اور نواز شریف کے پاس نہیں مگر میں فیملی میں اختلافات کے سبب توقع نہیں رکھتا کہ وہ کوئی بہتر فیصلہ کر سکیں گے۔ جو لوگ چاہتےکہ عبوری وزیر اعظم خرم دستگیر،شاہد خاقان عباسی یا اسی قبیل کا کوئی اور شخص ہونا چاہئےوہ دراصل اس امکان کو رد نہیں کرنا چاہتے کہ ممکن ہے پینتالیس دنوں کے بعد بھی وہ شخصیت وزیراعظم کے طور پربرقرار رہے۔ بے شک ابھی تک اِس فیملی نے اپنے کپڑے سڑک پر نہیں دھوئے مگرمسائل بہت ہیں۔ ‘‘
اس جملے نے دماغ کی کچھ کھڑکیاں اور کھول دیں۔ میں سوچنے لگا کہ پانامہ کیس توابھی ختم نہیں ہوا صرف نیب کی طرف منتقل کیا گیا ہے۔ چاہے الیکشن دوہزار اٹھارہ میں ہوں یا اس سے پہلے،شریف کےلئے دوبارہ اقتدار میں آناممکن نہیں رہا۔ اگلے پانچ سال پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہو گی۔ ہاںشریف فیملی اپنے آپ کوسیاسی طور پر زندہ رکھنے کی بھرپورکوشش کر سکتی ہے اوراس کے نتیجے میں وہ 2023میںدوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوسکتی ہے مگر اس وقت عمران خان فتح یاب ہو چکے ہیں شریف فیملی شکست سے دوچار ہو چکی ہے۔ کل کی سیاست کےلئے شریف فیملی کے پاس دو فرد رہ گئے ہیں۔ حمزہ شریف اور سلیمان شریف۔ مجھے یقین ہے کہ شریف فیملی کے باقی تمام ارکان رفتہ رفتہ مستقبل قریب میں انہی ریفرنس میں نااہل قرار دے دئیے جائیں گے۔ جو نیب کو بھیجے گئے ہیں جس کی نگرانی سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کریں گے۔
میں نےاپنے کالم میں لکھا تھا۔ ’’پانامہ کیس کا فیصلہ اگرشریف خاندان کیخلاف آگیا تو اس کا مفہوم یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ کوئی جمہوریت کے خلاف فیصلہ آیا ہے۔ ان شاءاللہ جمہوریت اسی طرح رواں دواں رہے گی۔ دوماہ کے بعدنواز شریف کی جگہ شہباز شریف آجائیں گے۔ ہاں اگر شہباز شریف نے نون لیگ کی قیادت نہ سنبھالی تو پھر ممکن ہے کہ انتخابات وقت سے پہلے ہو جائیں وگرنہ انتخابات اپنے وقت پر ہونگے۔ ممکن ہے کہ چوہدری نثار علی خان کسی وقت بھی اسمبلی سیٹ چھوڑ دیں مگر یہ طے ہےجس روز شہباز شریف وزیر اعظم بنیں گے۔ اُس روز چوہدری نثار پاکستان کےوزیر خارجہ ہونگے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بے پناہ محنت کے باوجودطلال چوہدری، دانیال عزیزاور ان کے ہمنوائوں کے حصے میں کوئی وزارت نہیں آئے گی‘‘بارہ جولائی کے میرے کالم کا عنوان ہی یہی تھا۔ ’’وزیر اعظم شہباز شر یف ‘‘اور اس وقت وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے آئندہ وزیر اعظم بنانے کا اعلان ہو چکا ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حمزہ شریف کیوں نہیں۔ شہباز شریف کیوں وزیر اعلیٰ شپ چھوڑیں۔ اپنی ایم پی اے کی سیٹ سے مستعفی ہوں اور ایم این اے کےلئے الیکشن لڑیں۔ یہ ضروری تو نہیں کہ پنجاب کے مقبول وزیراعلیٰ شہباز شریف موجودہ صورت حال میں این اے ایک سو بیس پرکامیاب ہوجائیں۔ انتخابات میں کئی طرح کی صورت حال پیدا ہوجایا کرتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شہباز شریف جب اپنے کاغذات ِ نامزدگی جمع کرائیں توایسے اعتراضات سامنے آ جائیں جن کے سبب عدلیہ کو ان کے کاغذات مسترد کرنے پڑ جائیں۔ ان کے خلاف بھی نیب میں سپریم کورٹ ریفرنس بھیج چکی ہے۔ سوال بڑا واضح اور سیدھا سادہ ہے کہ حمزہ شریف وزیر اعظم کیوں نہیں ہوسکتا۔ وہ شہباز شریف کابیٹا ہی نہیں نواز شریف کا سابقہ سیاسی جانشین بھی ہے اور ایم این اے بھی ہے۔ اسے کسی الیکشن کی ضرورت نہیں۔ کہیں یہ شہباز شریف کے خلاف کوئی سازش تو نہیں۔ سپریم کورٹ حدیبیہ پیپرز ملز کا کیس سرسبز کرچکی ہے۔ اصغر خان کیس پرعملدر آمد کےلئے عدلیہ سےایف آئی اے کوحکم ملنے والا ہے۔ شریف خاندان کے جتنے ریفرنس سپریم کورٹ نے بھیجے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے معروف ماہر قانون فروغ نسیم کہا ہے سابق وزیراعظم نواز شریف اور باقی فیملی کو بھی ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لینی چاہئے کیونکہ جن دفعات کے تحت یہ ریفرنس بھیجے گئے ہیں ان میں گرفتاری ضروری سمجھی جاتی ہے۔ میرے خیال میں نواز شریف کو چاہئے کہ نون لیگ کی قیادت شہباز شریف کو دیں اور حمزہ شریف کو وزیر اعظم بنا دیں تو ممکن ہے کہ کسی حد تک ان کے برباد شدہ مستقبل میں کچھ بہتری آجائے۔
یہ تو طے ہے کہ نون لیگ کےلئے اب آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت روکنا ممکن نہیں نظر آرہا۔ فتح کا تاج عمران خان کے سر پر سج چکا ہے۔ عوامی مقبولیت توہمیشہ عمران خان کی بہت زیادہ رہی ہے۔ نون لیگ کے سابق وزراء بشمول جاوید ہاشمی ان پر اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت عمران اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارہ بھی ہے ایسی صورت میں انہیں اقتدار تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔