فرینکفرٹ کی رات

August 02, 2017

جہاز کے پہیوں نے ابوظہبی کے ہوائی اڈوں کو چھوا تو میری جان میں جان آئی، لاہور سے اڑان بھرتے وقت جہاز کے انجن سے ایک عجیب و غریب آواز آنی شروع ہوئی تو مجھے یوں لگا جیسے کسی گاڑی کا سائلنسر آواز دے رہا ہو، دل کو تسلی دی کہ جہاز میں ایسا کچھ نہیں ہوتا اور پھر یہ تسلی ابوظہبی کے ہوائی اڈے پر اترنے تک ساتھ رہی۔ ہم جیسے ملکوں کے مقابلے میں تو ابوظہبی کا ہوائی اڈہ بھی دیکھنے کی چیز ہے مگر دبئی ایئر پورٹ سے یہ چھوٹا اور نسبتاً کم مصروف ہے کیونکہ امارات ایئر کی تمام ٹریفک دبئی کے پاس ہے اور یوں دبئی کو ہرانا ممکن نہیں۔ ہاں اگر آپ امریکہ جانے کے لئے ابوظہبی سے ہو کر جائیں تو فائدہ یہ ہے کہ امریکی امیگریشن کاؤنٹر آپ کو یہیں کلیئر کر دے گا (یا نہیں کرے گا) اور یوں امریکہ پہنچ کر آپ بغیر کسی جھنجھٹ کے ہوائی اڈے سے باہر نکل جائیں گے۔ قارئین پر رعب ڈالنے کے علاوہ کالم میں سفری روداد لکھنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ موضوع کے چناؤ میں وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا۔ اگر سفر یورپ کا ہو تو کیا کہنے، چھوٹے بڑے شہروں کے عجیب و غریب نام لکھیں جنہیں عام آدمی بس فلموں میں ہی دیکھ پاتا ہے، اپنی فلائٹوں کا ذکر کریں، ترقی یافتہ ممالک کے سسٹم کی اعلیٰ مثالیں دے کر پاکستانیوں کو رلائیں اور دوچار دلچسپ قسم کے ’’حسین‘‘ اتفاقات بھی اگر ڈال دیں تو سونے پہ سہاگہ، بیٹھے بٹھائے سفر نامہ نگار کا عہدہ بھی مل جائے گا۔ میں بھی کچھ اسی قسم کا فارمولا آزمانے لگا ہوں۔
پاکستانی ہوائی اڈوں کے اب دو کام ہیں، حج پروازیں اور مسافروں کو دبئی اور ابوظہبی پہنچانا تاکہ وہاں سے وہ آگے یورپ اور امریکہ کی پروازیں پکڑ سکیں۔ کسی زمانے میں تمام بڑی ایئر لائنز پاکستان آیا کرتی تھیں، اب یہ تمام کاروبار امارات کے پاس ہے، پاکستانی مسافر نے کم ازکم مغرب میں کہیں بھی سفر کرنا ہو لامحالہ اسے دبئی، ابوظہبی یا گستاخی معاف قطر سے ہو کر جانا پڑتا ہے اور یوں نہ صرف ہمیں وقت بھی زیادہ لگتا ہے، پیسے بھی اضافی اور مصیبت مفت کی۔ سو پیر کی صبح ناشتہ ہمیں ابوظہبی ایئرپورٹ پر کرنا پڑا، اجمل شاہ دین ہمرکاب ہیں اور عادت موصوف کی یہ ہے کہ جس اخبار میں پکوڑے بھی لے کر آتے ہیں پہلے اسے پڑھنے بیٹھ جاتے ہیں اور اس کے بعد سیر حاصل تبصرہ بھی فرماتے ہیں، اخبار میں لپٹے پکوڑ ے تو یہاں دستیاب نہیں تھے مگر اخبار کہیں سے بغل میں داب لائے کہ ناشتے کے ساتھ پڑھیں گے۔ اخبار کیا تھا، مذاق تھا۔ بین الاقوامی خبروں سے بھرا ہوا تھا، دنیا جہان کی سیاست پر تبصرے تھے سوائے اُس ملک کے جہاں ہم ناشتہ کر رہے تھے، مقامی خبروں کی سرخیاں یہ تھیں کہ ’’دبئی میں آوارہ بلیاں اب درد سر بنتی جا رہی ہیں!‘‘ دوسری سُرخی تھی ’’ابو ظہبی ہائی وے پر اب حادثات کی شرح کم ہے!‘‘ سبحان اللہ، گویا راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔
فرینکفرٹ ایئر پورٹ پر اترتے ہی سب سے پہلا احساس اس بات کا ہوا کہ سیکورٹی واقعی ہائی الرٹ ہے، مسلح اہلکار جابجا چوکس پھرتے نظر آئے۔ اپنے ہاں تو کسی دھماکے کے بعد جب ہائی الرٹ سیکورٹی کی خبر ٹی وی پر چلتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آئی جی کے دفتر سے مراسلہ جاری کر دیا گیا ہے جو اوپر سے ہوتا ہوا محرر کی میز تک پہنچتا ہے اور وہ اسے چوم چاٹ کر متعلقہ فائل میں لگا دیتا ہے۔ غیر ملکیوں کو اپنے ملک میں داخل کرنے کی جرمن پالیسی بھی عجیب ہے، آپ اگر ایک پاکستانی ہیں، کئی ملکوں میں سفر کر چکے ہیں، جرمنی میں رہنے کا کوئی ارادہ نہیں، مقصد فقط سیاحت ہے، کاغذ پورے ہیں تو بھی برا سا منہ بنا کر جرمن سفارت خانہ آپ کو اتنے ہی دنوں کا ویزا جاری کرے گا جتنے دن کا آپ کا ٹکٹ ہے۔ فرینکفرٹ کا امیگریشن افسر علیحدہ سے آپ کی پڑتال کرے گا، ہوٹل بکنگ اور واپسی کا ٹکٹ چیک کیا جائے گا، کسٹم والے بھی سلامی دیں گے بیگ کھول کر دیکھیں گے، ان تمام مراحل سے اگر آپ بخیر و خوبی نکل گئے تو فرینکفرٹ میں قدم رکھ سکیں گے۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ جرمنی لاکھوں شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں پناہ دے چکا ہے، یہ لوگ سمندر کے راستے یورپ میں داخل ہوئے ہیں اور پھر وہاں سے ٹرینوں میں جرمنی پہنچے ہیں، اِن کے لئے انجیلا مرکل نے علیحدہ سے ’’کیمپ‘‘ بنوائے ہیں جنہیں کیمپ کہنا زیادتی ہوگی، آپ انہیں اپارٹمنٹ کہہ سکتے ہیں، انہیں وہاں ہر قسم کی سہولت حاصل ہے اور ساتھ میں تین سو یورو ماہانہ جیب خرچ بھی دیا جاتا ہے۔ انجیلا مرکل کی اس پالیسی کے شدید ناقد بھی جرمنی میں موجود ہیں کیونکہ اس سے جرمنی کو اضافی مالی بوجھ اٹھانے کے ساتھ ساتھ داخلی سلامتی کا خطرہ بھی درپیش ہے۔ حیرانی ہمیں اس بات پر تھی کہ جو شخص مکمل کاغذات کے ساتھ مروجہ قانونی طریقے سے جرمنی میں داخل ہو رہا ہے اس کی پڑتال تو یوں کی جا رہی ہے کہ کہیں وہ جرمنی میں ’’سلپ‘‘ نہ ہو جائے اور دوسری طرف لاکھوں مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے۔ ہمیں یہ بات اس لئے سمجھ نہیں آتی کیونکہ انسانی ہمدردی جیسے الفاظ اب ہماری ڈکشنریوں سے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔
فرینکفرٹ میں آج دوسرا دن ہے اور اگلا پڑاؤ میونخ ہے۔ فرینکفرٹ کا مرکزی ریلوے اسٹیشن دیکھنے کی چیز ہے، کرو فر جھلکتا ہے، یورپ کے بڑے شہروں کے اسٹیشن اسی قسم کے ہیں، ان کے شہروں کی شان ریلوے اسٹیشن اور ہوائی اڈوں میں دکھائی دیتی ہے۔ یوں بھی مجھے ریلوے اسٹیشن بہت پسند ہیں، ایک عجیب رومان ہوتا ہے یہاں، فرینکفرٹ کے اڈے میں رومان والی تو کوئی بات نہیں تھی البتہ جن چھوٹے اسٹیشنوں سے ٹرین گزری وہ چالیس کی دہائی کے جرمنی کی فضا میں سانس لیتے دکھائی دیئے۔ دنیا کے تمام جدید اور ترقی یافتہ شہروں کی طرح فرینکفرٹ بھی ہوائی اڈے سے ٹرین کے ذریعے جڑا ہوا ہے، شہر میں ٹرام کا جال بچھا ہے، اپنے ہوٹل کی بالکونی سے میں ٹرام گزرتے دیکھ سکتا ہوں۔ یہ شہر بینکرز کا شہر ہے، جرمنی کا فنانشل ڈسٹرکٹ اسے کہا جاتا ہے، یہاں ہر چیز کے علیحدہ دام ہیں، برگر کے ساتھ ٹماٹر کی چٹنی چاہئے تو تیس سینٹ، کمرے کا چیک آؤٹ ٹائم بارہ بجے ہے، ہم نے پوچھا اس میں کوئی نرمی ممکن ہے؟ ’’جی بالکل‘‘ کاؤنٹر کلرک نے مسکرا کر جواب دیا ’’آپ جتنے گھنٹے اوپر رکنا چاہیں رُک سکتے ہیں، ایک گھنٹے کے دس یورو دینے ہوں گے!‘‘ میں پاکستان سے چارجر کا پلگ لانا بھول گیا جو یورپ میں بجلی کی ساکٹ میں استعمال ہوتا ہے ’’کیا آپ کے پاس یہ پلگ ہوگا؟‘‘ میں نے ہوٹل والوں سے پوچھا۔ مسکرا کر جواب ملا ’’یہ لیجئے، پانچ یورو !‘‘ اپنے پاکستان میں اِن باتوں کے پیسے دینے کا تصور ہی نہیں !
فرینکفرٹ میں صبح کے آٹھ بج چکے ہیں، برادرم اجمل شاہ دین اپنے ہی خراٹوں کی آواز سے ہڑبڑا کر بیدار ہو چکے ہیں، ان کے خلاف الزامات کی فہرست میں نے تیار کر رکھی ہے جن میں سرفہرست الزام یہ ہے کہ گزشتہ رات انہوں نے سو کر برباد کی۔ موصوف نے جواب دینے کی کوشش کی مگر میں نے یہ کہہ کر مقدمہ نمٹا دیا کہ جرم ثابت ہو چکا ہے اور اپیل کا حق بھی نہیں۔ کیا ہوا ہم جرمنی میں ہیں، دل تو پاکستان میں ہے!