آبی تنازع اور پاک بھارت مذاکرات

August 04, 2017

جموں و کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ، کشمیری عوام پر بھارتی افواج کے مظالم وبربریت اور سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیاں ایسے سنگین معاملات ہیں جو اس خطے کے امن کیلئے مستقل خطرہ ہیں۔ پاکستا ن امن کے قیام کیلئے اِن مسائل کو تمام عالمی فورموں پر اٹھاتا رہتا ہے۔ اِنہی انتھک اور مسلسل کاوشوں کی بدولت بھارت بالآخر آبی تنازع کے حل کیلئے مذاکرات کی میز پر آگیا ہے اور دریائے چناب و جہلم پر زیر تعمیر متنازعہ آبی منصوبوں کے ڈیزائن پر پاکستان کے تحفظات دور کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین سیکریٹری سطح کے یہ مذاکرات واشنگٹن میں سندھ طاس معاہدے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ورلڈ بینک کے صدر دفتر میں ہوئے۔ عالمی بینک کے مطابق بات چیت جذبہ خیر سگالی اور تعاون کے ماحول میں ہوئی اور فریقین نے ستمبر میںواشنگٹن میں ہی دوبارہ مذاکرات پر اتفاق کیا ہے۔دوسری جانب بھارتی میڈیا کے مطابق عالمی بینک نے اپنی فیکٹ شیٹ میں بھارت کو دریائے جہلم و چناب پر ہائیڈرو الیکٹرک پاور منصوبوں کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے۔اگر بھارت 850میگا واٹ ہائیڈرو پاور کا یہ پروجیکٹ بنا لیتا ہے تو پاکستان کو ہیڈ مرالہ کے مقام پر دریائے چناب سے پانی کے بہائو میں 40فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔جو وسطی پنجاب کیلئے آبپاشی کے حوالے سے ناقابل تلافی نقصان ثابت ہو گا۔بھارت نے پاکستان کے حصے میں آنے والےدریائوں سے 32000میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔اگر وہ اِسی طرح ڈیم بناتا رہا تو آنے والے چند سالوں میںپاکستان کو شدید قحط کی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ستاون سال قبل ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے مطابق مغربی دریائوں سندھ، جہلم اور چناب کے 80فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے اور پاکستان اپنے اِس حق سے دستبردار نہیں ہو گا۔ بلا شبہ آبی تنازع کے حل کیلئے مذاکرات ناگزیر ہیں مگر ضرورت اِس امر کی ہے کہ مذاکرات میں کسی بھی ایسی شرط یا شق کو قبول نہ کیا جائے جس سےپاکستان کے حصے کے پانی میں کوئی واقع ہو۔