نواز شریف سے ملئے

August 05, 2017

نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے پر بغلیں بجانے والے بھی موجود ہیں اور ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو سوچتے ہیں کہ اس سار ےمعاملے میں نااہلی ثابت کس کی ہوئی ہے؟ نواز شریف اگر وزیراعظم نہیںرہےتو وہ نواز شریف تو بہرحال ہیں جو پاکستان کی ترقی، عوام کی خوشحالی اور سویلین بالادستی کی علامت بنکر ابھر ےہیں۔ جن لوگوں کو نوازشریف کی قربت میسر ہوئی ہے یا جنہیں ایک آدھ بار سرسری طور پر بھی ان سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے، وہ ان کی دل نواز شخصیت سے متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ وہ وزیراعظم ہوں یا نہ ہو ان سے ملیں تو یہی لگتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے مل رہا ہے ورنہ اس مرتبے کے لوگوں سے ملتے ہوئے اکثر مصر کے کسی فرعون کی شبیہ ذہن میں گھوم جاتی ہے.....!
میں یہاں نواز شریف کے وژن کی بات نہیں کروں گا۔ پاکستان اور اس کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیل بھی بیان کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ ایک زبردست فائٹر ہیں اور اصولوں کی جنگ میں اپنی جان کی بازی لگانے کے لئے بھی تیار رہتے ہیںمگر میں یہاں اس موضوع کو بھی نہیں چھیڑوں گا اور ان کے مضبوط اعصاب کا ذکر بھی اس کالم میں نہیں آئے گا۔ میں آج آپ کی ملاقات اس انسان سے کرانا چاہتا ہوں جو مشرقی اقدار کا حامل ہے اور پاکستان کی 99فیصد آبادی کی قدروں کاامین ہے۔ جب جنرل پرویز مشرف کی بغاوت کے بعدانہیں جدہ جانا پڑا وہاں مجھے ایک ہفتہ انہیںبہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کےوالد ماجد میاں شریف مرحوم و مغفور وہیل چیئر پر تھے اور ملازموں کی موجودگی کے باوجود وہیل چیئر وہ خود چلاتے تھے۔ کھانے کے اوقات میں دسترخوان بچھ جاتا تھا۔ نواز شریف ، شہباز شریف، ان کی بیگمات، بچے بچیاں سب کاندھے سے کاندھا ملا کر بیٹھ جاتے تھے۔ والد اور والدہ وہیل چیئر پر بیٹھےرہتےتھے اور عباس شریف مرحوم ملازموں کی طرح ان کےپہلو میں کھڑے رہتے اور کھانا سرو کرتے۔یہاں پانچ وقت نماز بھی ادا کی جاتی تھی بلکہ نواز شریف صاحب کے ایک بہت قریبی دوست سجاد شاہ سے ایک بار لندن میں ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا ’’شاہ جی! آپ میاں صاحب سے ملنے جدہ نہیں گئے؟‘‘ بولے ’’گیا تھا۔ ایک مہینہ رہ کر آیا ہوں۔ نمازیں پڑھ پڑھ کر گھٹنوں پر محراب کا نشان پڑ گیا ہے‘‘میاں نوازشریف ، میاں شہباز شریف اور جدے میں میاں عباس شریف مرحوم کو بھی میں نے ایک عام پاکستانیوں کی طرح زندگی گزارتے دیکھا۔ ہر آنے جانے والے کا عزت و احترام ان کا وتیرہ تھا۔ میاں شہباز شریف جدہ ایئرپورٹ پر خود مجھے ریسیو کرنے آئے تھے، وہ مجھے اسپتال میں اپنے ساتھ لے گئے اور جتنی دیر میرے ٹیسٹ ہوتے رہے وہ باہر بینچ پربیٹھے رہے۔میں شہباز صاحب کے بارے میں کبھی علیحدہ کالم باندھوں گا۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ یہ د ونوں بھائی جلاوطنی میں اگر کسی بات پر پریشان تھے تو اس بات پر کہ بار بار کے مارشل لائوں کی وجہ سے ملک تباہی کی طرف جارہا ہے اور ملک جب بھی ترقی کرنے لگتا ہے اسے ریورس گیئر میں ڈال دیا جاتا ہے۔
معافی چاہتا ہوں بات کسی دوسری طرف نکل گئی۔میں بتانا چاہ رہا تھا کہ میاں نواز شریف اسلامی شعائر کے پابند ہونے کے باوجود ترقی پسند ذہن کے حامل ہیں۔ انہیں ملاّئیت پسند نہیں، وہ موسیقی کے رسیا ہیں اور کلاسیکل راگ سے بھی آشنا! ان میں جمالیاتی ذوق بھی کمال درجے کا ہے۔ پرانی عمارتیں اور پرانی قدریں انہیں بہت عزیز ہیں۔ ایک بار اپنی وزارت ِ عظمیٰ کے دوران مال روڈ سے گزرتے ہوئے انہوں نے مجھ سے فون کرکے پوچھا کہ آپ کہاں ہیں؟میں نے بتایا کہ میں الحمرا آرٹس کونسل میں ہوں۔ عاجزی اور انکسار اس درجے کا ہے کہ کہنے لگے ’’میں تھوڑی دیر کے لئے آسکتا ہوں؟‘‘ میں ان کی یہ بات سن کر کھل اٹھا اور تھوڑی دیر بعد وہ میرے دفتر میں تھے۔ الحمرا کا اسٹاف حیران و پریشان تھا کہ وزیراعظم پاکستان ان کے درمیان بیٹھا کتنی بےتکلفی سے ان سے گپ شپ کر رہا ہے۔ میاں صاحب پینٹنگ کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے ہیں بلکہ بہت اچھے ناقد بھی ہیں۔ میں نے اپنے ڈپٹی ڈائریکٹر زلفی جو اعلیٰ درجے کےپینٹر ہیں، سے کہا کہ وہ اپنی کچھ پینٹنگز میاں صاحب کو دکھائیں۔ وہ لے آئے۔ میاں صاحب پرانے لاہور کی ایک پینٹنگ بہت غور سے دیکھتے رہے۔ پھر انہو ںنے زلفی کو مخاطب کیا اور کہا ’’آپ نے پرانا لاہور بہت خوبصورت پینٹ کیا مگر آپ کو اس کی گلی میں کار کھڑی نہیں دکھانا چاہئے تھی۔ قدیم لاہور کی ایک گلی میں کار کی موجودگی اس کی قدامت پر اثرانداز ہو رہی ہے!‘‘
میاں صاحب جب کبھی لاہور آتے ہیں تو شام کو جب کبھی فرصت ملتی ہے خالصتاً لاہوری کردار ان کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ غریب غربا ہوتے ہیں مگر میاں صاحب ان کے ساتھ اس طرح گپ شپ کرتے ہیں جیسے ان کے بہت قریبی دوست ہوں۔ انتہائی رحمدل اور محنت کشوں کے لئے دل میں کچھ کرنےکا عزم رکھنے والے میاں صاحب کو میں نے دیکھا کہ وہ ضرورت مندوں میں کروڑوں روپے تقسیم کرتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ بیماروں کی عیادت بھی ان کی تربیت میںشامل ہے۔ میں جب کینسر کے آپریشن کے لئے اسپتال میں داخل تھا تو وہ جدہ سے فون کرکے میری خیرخیریت دریافت کرتے تھے۔ میرے والد ماجد مولانا بہائو الحق قاسمی ؒ سے پورے خاندان کو بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ ان کی نماز ِجنازہ میں میاںمحمد شریف مرحوم و مغفور ، میاںشہبازشریف اور میاں عباس شریف شرکت کے لئے آئے تھے تو کنی دیر تک انہیں گلی میں کھڑا ہونا پڑا ۔ میاں نوازشریف اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ اس وقت وہ کسی اہم میٹنگ میں مشغول تھے چنانچہ وہ پرسا دینے اگلے دن غریب خانے پر آئے۔
برسبیل تذکرہ ایک دلچسپ بات 1972میں میری شادی میں شرکت کے لئے مجید نظامی اورشورش کاشمیری، میاں شہباز شریف کی کار میں بیٹھ کر آئے تھے۔ یہ سارا خاندان مشرقی روایات کا امین ہےاور محبتیں بانٹنے والا ہے۔ (باقی آئندہ)