فیشن کی دنیا میں پاکستان کے70 سال

August 15, 2017

عصمت علی کامران ...

فیشن بدلتے ہیں۔خاص کر لباس اپنی تراش خراش کے اعتبار سے نئے پیکر میں ڈھلتے ہیں۔جو کل فیشن تھا وہ آج کچھ ردوبدل کے بعدسامنے آیا ،آج کا فیشن کل کچھ اور رنگ لیے ہوگا۔لیکن اس اُلٹ پھیر میں اتنا ضرور ہوا کہ بدلتے ہندسوں کے ساتھ پرانے ہندسے شامل ہوتے گئے،یوں نوجوان لڑکیاں کبھی بزرگ خواتین کے ساتھ کھڑی ہو گئیں،تو کبھی نانی ،دادی انہی پوتیوں،نواسیوں کے ملبوسات دیکھ کرخوش ہوئیں اور بے ساختہ کہہ اُٹھیں،’’لو بھئی!زمانہ پلٹ کر آگیا،وہی کپڑے،وہی انداز ،نوعمر لڑکیوں کو پہنے دیکھ کریوں محسوس ہوتا ہے جیسے ماضی پلٹ آیا ہو ۔یہ غرارے ،چوڑی دار پاجامےہم نے کب پہنے تھے اور آج یہ لڑکیاں ،بالیاں پہن کر کیسے اتراتی پھر رہی ہیں‘‘۔حقیقت تو یہ ہے کہ فیشن بدلتے ہیں انداز بدلتے ہیں،لیکن ہر دور میں فیشن کے رنگوں میں جدیدیت کے ساتھ روایتی جھلک بھی نظر آتی ہے۔

آج ہم اپنے پیارے وطن کی سال گرہ منا رہے ہیں،تو ذہن میں کچھ ماضی بھی رنگ جمائے آنکھوں کے سامنے چھا گیاہے۔آج کل پٹیالہ شلوار،ٹراؤزر،غرارے اور اونچی قمیصوں کا جو فیشن عام ہے وہ 70،80 کی دہائیوں میں بھی عروج پر تھا۔قیام پاکستان کو ستّر برس بیت گئے ہیں۔ اس عرصے میں جہاں دیگر شعبوں نے بتدریج کام یابیاں حاصل کیں ،وہیں فیشن انڈسٹری یا فیشن کا شعبہ اپنی ریت روایات کو ساتھ لے کر ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اس حوالے سے پاکستان فیشن انڈسٹری نے ہر دور میں مغربی فیشن کو مشرقی رنگوں میں ڈھال کر دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کی روایت پوری کی اور ایک مسلم معاشرے کو ناصرف نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا بلکہ بیرون ملک اپنی پہچان بنائی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان فیشن انڈسٹری دنیا بھر میں منفرد اور نمایاں مقام حاصل کرچکی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ افراد کی نقل مکانی اور مختلف معاشروں کے ملاپ نے فیشن کے فروغ میں اضافہ کیا۔ یہ تمام تبدیلیاں سب سے پہلے یورپ میں شروع ہوئیں۔ برطانیہ کی اونی صنعت اور اٹلی کی ریشم کی صنعت نے ڈیزائننگ میں انقلاب پیدا کیا۔ 1423 میں وینس کے حکمران ’’ڈوجے‘‘ نے ریشم بروکیڈ، ویلیویٹ اور ساٹن کی اضافی پیداوار سے ریڈی میڈ ملبوسات کی تیاری شروع کی جس میں خوب سے خوب تر فیشن ڈیزائنز تیار کیے گئے۔ پندرھویں صدی تک فیشن کی دنیا پر اٹلی کی معاشرت کے اثرات رہے۔ سولہویں صدی میں ہسپانوی انداز چھایا رہا اور اس دور میں ’’کشمیری شالوں‘‘ کا فیشن بھی عروج پر تھا۔برطانیہ کی ملکہ اول نے اپنے لباس پر سونے کے زیورات اور نوادرات جڑوائے تھے۔ سترہویں اور اٹھارویں صدی کی دنیا میں فرانسیسی اثرات نمایاں رہے۔ فرانس تین سو سال تک خواتین کے فیشن کا مرکز رہا۔

یہیں سے فیشن کی دنیا میں مقابلے کا رجحان پیدا ہوا۔ اٹھارویں صدی میں خواتین کا لباس نہایت ڈھیلا ڈھالا اور مردوں کا لباس ریشمی ہوتا تھا۔ جو بعد میں سوتی کپڑے اور جینز میں تبدیل ہوگیا۔ 1846ء میں امریکی موجد آئزک سنگ کی سلائی مشین کی ایجاد کے بعد فیشن کی دنیا میں انقلاب پیدا ہوگیا۔ پھر 1873ء میں ڈینم بلیو جینز بنائی گئی۔ جس کے بعد مصنوعی ریشے سے ساٹن، بروکیڈ، ویلیویٹ اور جرسی کا کپڑا بنایا گیا۔ 1884ء میں فیشن ڈیزائننگ سے متعلق پہلا کیٹ لاگ شائع ہوا۔ خواتین کی کھیلوں میں شمولیت کے بعد فیشن میں کئی تبدیلیاں آئیں۔ جن میں لباس کے علاوہ زیورات، بالوں کے اسٹائل، جوتے، ٹائی، رومال، بیگ، گلوز، ٹوپی اور مختلف رنگوں کے چشموں کا استعمال فیشن کے طور پر کیا جانے لگا۔ تاہم بیسویں صدی میں فیشن کی دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئیں اور فیشن نے ’’صنعت‘‘ کا درجہ حاصل کرلیا۔

برصغیر کی تاریخ میں 40 کی دہائی بڑی تبدیلی لے کر آئی اور مسلمانان ہند نے طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ایک آزاد خود مختار ریاست ’’پاکستان‘‘ کا خواب پورا ہوتے دیکھا۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر کے مسلمانوں کے لیے تحریک پاکستان کے لیڈرز اور خاص طور پر قائد اعظم محمد علی جناح ؒ رول ماڈل تھے۔ ایک نئی مملکت میں جہاں دیگر شعبوں کو نئے سرے سے پوری توانائیوں کے ساتھ آگے بڑھایا گیا، وہیں فیشن کے حوالے سے بھی مملکت خداداد کے باشندے شعور رکھتے تھے۔ اگرچہ تحریک، آزادی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے اپنے محسنوں کی جدوجہد آزادی کا مطالعہ کریں یا ان کی زندگی پر نظر ڈالیںتو ہمیں جہاں الگ وطن کے حصول کے لیے ان کی قربانیاں اور خلوص نظر آئے گا، وہیں تحریک پاکستان میں حصہ لینے والی خواتین کے اپنی روایات و کلچر کو مد نظر رکھ کر فیشن کے تقاضوں کو پورا کرتے پہناوے بھی دکھائی دیں گے۔

محترمہ فاطمہ جناح ؒ، بیگم رعنا لیاقت علی خان ؒ، لیڈی نصرت ہارون سمیت کئی خواتین اپنی روایات و ثقافت کو مدنظر رکھ کر اس دور کے مطابق ملبوسات زیب تن کرتیں اور باوقار مسلمان عورت کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔ چونکہ طویل عرصے تک ہندو مسلم ایک ہی معاشرے میں رہے تھے لہٰذا اس دور کے پہناوے اور ملبوسات پر خاص کر ہندوانہ چھاپ زیادہ تھی۔ ساڑی اور غرارہ سوٹ اس دور کا پسندیدہ فیشن سمجھا جاتا تھا۔ خصوصاً نواب خاندان کی خواتین اسے زیب تن کرنا پسند کرتی تھیں۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان ؒخوش لباسی کے حوالے سے معروف تھیں۔ ان کے ساٹِن کے کپڑے کے غرارے اُس دور کی خواتین میں خاصے مقبول تھے اور خواتین ان کے انداز کو اپنانے کی کوشش کرتیں۔ ان دنوں گھیردار شلوار قمیص کا بھی رواج عام تھا۔ تاہم مردوں میں شیرانی ٹوپی اور علی گڑھ پاجامے کو خاص مقبولیت حاصل تھی۔ امراء طبقے میں چھوٹے کالر کے پینٹ کوٹ بہت شوق سے پہنے جاتے تھے۔ تاہم مردوں اور عورتوں میں لکھنؤ طرزکے ملبوسات کا رواج عام تھا۔ اسی طرح 50 کی دہائی میں خصوصاً پاکستان میں لوگوں کا طرز زندگی بہتر ہوا اور امراء اور متوسط طبقے میں بھی رواج کے ساتھ جدت کو اہمیت دی جانے لگی۔ انھی دنوں مغرب میں بھی یہ سفر جاری تھا اور اس وقت کے معروف فیشن ڈیزائنر میری کوانٹ نے لندن میں دنیا کی پہلی ’’بوتیک شاپ‘‘ قائم کی تھی۔ اِدھر مردانہ ملبوسات میں تو مغربی جھلک نظر آتی ہی تھی ،لیکن خواتین کے ملبوسات مشرقی انداز لیے ہوئے تھے جن میں اپنی ثقافت اور کلچرکا رنگ نمایاں تھا۔ پاکستان میں غراروں، شلوار قمیص کے ساتھ ساڑی کا پہناوا خاصا مقبول تھا۔ اس زمانے میں میڈیم نور جہاں کو ناصرف اداکاری و گلوکاری میں نمایاں مقام تھا بلکہ وہ فیشن آئیکون کے طور پر بھی پہچانی جاتی تھیں۔اسی طرح برصغیر کے معروف اداکار دلیپ کمار کا ہئیر اسٹائل نوجوانوں میں خاصا مقبول تھا۔

سن60 کی دہائی میں فیشن کوایک جنون کے طور پر دیکھا جاتاہے، جوآج بھی لوگوں کے ذہنوں میں ہے۔ چونکہ فیشن کی مثال موسم کی طرح ہے جو جاکر پھر واپس آتا ہے لہذا60 کی دہائی کا فیشن تھوڑی تبدیلی کے ساتھ90 کی دہائی میں واپس آیا اس دور میں خاص کر آنکھوں کے میک اپ اور مغربی ومشرقی امتزاج کے ہیراسٹائل کا خواتین میں شعور جاگا۔ بولڈ آئی لائینراور مصنوعی پلکوں سے آنکھوں کو آراستہ کرنا مقبول فیشن ثابت ہوا، اسی طرح بیک کومبنگ کے جوڑے کا ہیئراسٹائل خواتین نے بہت شوق سے اپنایا۔ بالوں کو رولر سے لٹوں میں تقسیم کرنا خواتین کا محبوب مشغلہ تھا۔ ملبوسات کے حوالے سے بھی خواتین مغرب سے خاصی متاثر نظرآتی تھیں یعنی مغربی اور مشرقی طرز کے ملبوسات خواتین میں خاصے مقبول رہے۔ فلورل پرنٹ کی میکسیاں نوجوان لڑکیوں کا پہناوا تھیں، اسی طرح بڑے کالر کی اونچی قمیص ، بیل باٹم پینٹیں اور فلیپراسی دور میں متعارف کروائے گئے، تاہم اس زمانے میں فیشن باقاعدہ صنعت تو نہیں بناتھا،لیکن لوگوں میں اس حوالے سے شعور خاصا تھا۔ اس وقت کی فیشن انڈسٹری کے لیے 60 کی دہائی کا فیشن انقلابی کہلاتاتھا۔ 1965 میں سفاری جیکٹس کا بھی رحجان عام ہوا جو مرد اور عورتوں میں بہت مقبول ہوا۔ اس کے ساتھ بیل باٹم پینٹ پہننے کا رواج بھی بہت عام ہوا۔ فیشن کے حوالے سے یہ دور خاصا’لبرل‘ تھا۔ نوعمرلڑکیاں دوپٹے کی جگہ گلے میں اسکارف ڈالنازیادہ پسند کرتی تھیں۔ ’’ہپی اسٹائل‘‘بھی اسی دور میں متعارف ہوا، خصوصاً نوجوان لڑکوں میں یہ رحجان بہت عام تھا۔ نوجوان لڑکے کاندھوں تک بڑھے ہوئے سیدھے بالوں پر سر سے پٹی باندھنا بے حسد پسند کرتے تھے۔ یورپی نغموں کی مقبولیت نوجوانوں میں زیادہ تھی۔انہیں دنوں چند مشہور ڈیزائنرز فرانس سے تربیت لے کر پاکستان آئے اور ملبوسات کے حوالے سے خصوصاً میکسی اور بیل باٹم میں کئی انداز متعارف کروائے۔ اس زمانے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ مغربی طرز کے ٹرینڈز مقبول ہوئے۔ بیگی،ٹیڈی ، ہیپی اور کیژول انداز70 کی دہائی کے اوائل تک خاصے اثرانداز رہے،جنہیںنوجوان نسل نے جوش خروش سےاپنایا۔ خواتین میں ٹیڈی اسٹائل کی پینٹ اور شرٹس پہننے کا رواج عام ہوگیا۔ ٹیڈی اسٹائل پینٹیں اور شرٹس نہایت چست طرز پرسلوائی جاتی تھیں۔ مردوں میں بھی لباس کی یہ تراش خراش عام تھی۔ 60 کی دہائی کے اواخر اور 70 کی دہائی کے اوئل میں تنگ پائنچوںکی شلواروں کا فیشن بھی عام ہوا، تنگ پائنچوں میں زپ لگانے کا انداز متعارف کروایاگیا۔ 60 کی دہائی میں فیشن کے حوالے سے خاصی ورائٹی نظرآتی ہے۔ مردوں میں تنگ پائنچوں کی شلواروں کے ساتھ اونچے کرتے بھی متعارف کروائے گئے۔ اس دور میں جوتوں کے انداز میں بھی جدت پیدا کی گئی،جو خاص مغربی طرز کےتھے۔ خواتین کے جوتوں میں جہاں بلاک ہیل کو پسند کیا جانے لگا ،وہیں فلیٹ " بلیرینا" جوتے بھی نوجوان لڑکیوں میں بے حد مقبول ہوئے۔ مردانہ جوتوں میں بھی ’’اونچی بلاک ہیل‘‘متعارف کروائی گئی۔60 کی دہائی مغربی دنیا کے ساتھ پاکستان میں بھی فیشن کے حوالے سے انقلابی تبدیلیاں لائی۔ اور فیشن انڈسٹری میں " ہیپی ، ٹیڈی، بیگی اور Casual کی اصطلاحات کا رواج عام ہوا۔

70 کی دہائی کے اوئل 60کی دہائی کے اواخیر تک پاکستان جدیدت کی طرف مائل تھا۔ اگرچہ آج بھی فیشن کی دنیا میں نت نئے انقلابات لائے جارہے ہیں۔مگر یہ سب 60 اور 70 کی دہائیوں کے ہی مرہنون منت ہیں۔ 70 کی دہائی میں ناصرف لباس بلکہ میک اپ اور ہیئراسٹائل نے بھی نہایت جدت اختیار کی۔ اگر ہم فیشن کی رنگارنگ دنیا پر نظرڈالیں تو اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ہر دور میں مغربی اور جدید فیشن کے ساتھ مشرقی انداز کو بھی نمایاں اہمیت حاصل رہی۔ 70 کی دہائی میں بیل باٹم ٹراؤزر اور پینٹیں بہت مقبول ہوئیں۔ ساتھ ہی اونچی(چھوٹی) فٹنگ والی قمیص نے اسے اور بھی ماڈرن لُک کا دیا۔ اس دورمیں بیل باٹم کے ساتھ ساتھ لڑکیوں میں تنگ پاجامہ بہت مقبول ہوا،جس کے ساتھ فٹنگ والی قمیص پہنی جاتی تھی اور ساتھ میں چنا ہوا دوپٹہ لیا جاتاتھا۔اس زمانے میں پاکستانی فلموں اور ٹی وی ڈراموں نے خاصااثرچھوڑا۔وحید مراد ہئیراسٹائل کو نوجوانوں نے شوق سے اپنایا۔ حسینہ معین کے ڈراموں کی ہیروئنوں کو جدید طرز کے ملبوسات میں دکھایاجاتا جن سے نوجوان لڑکیوں اور خواتین نے متاثرہوکر ایسے انداز کو خوب اپنایا۔ڈراماانکل عرفی، شہ زوری، کرن کہانی کی ہیروئنوں کے پہناوؤں کو بے حد پسند کیا گیا۔

سن1980میں فیشن کو ہمہ گیریت اور وسعت ملی اور خواتین کو فیشن انڈسٹری میںکام کے مواقع بھی زیادہ ملے۔ اگر بین الاقوامی سطح پر بات کی جائے تو مس ورلڈ ،مس یونیورس ،مس اسٹیٹ جیسے مس لبنان اور مس نیویارک کے مقابلے ہوئے۔ جن کااصل مقصد فیشن کی ہمہ گیریت اور عالم گیریت کو فروغ دینا تھا اور فیشن کو بلا تفریق و نسل یکساں مقبولیت کے لئے پیش کرنا تھا،تاہم تیسری دنیا میں یہ عمل خاصا سست رفتاری سے جاری رہا۔

پاکستان میں80کی دہائی فیشن کے حوالے سے دنیا بھر میں ہونے والی گہما گہمی سے ذرا دور تھی یا یوں کہہ لیں کہ 60اور 70کی دہائی کے مقابلے میں 80کی دہائی یکسر مختلف تھی۔ 1978یں جنرل ضیاء نے پاکستان کی باگ ڈور سنبھال لی ،لہٰذا ان کی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ دہائیوں کی نسبت فیشن انڈسٹری کچھ سمٹ سی گئی ۔ ان دنوں شلوار قمیص کے اوپر دوپٹے کا فیشن عام ہوا اور خواتین زیادہ تر شلوار قمیص ہی زیب تن کر تیں۔البتہ اتنا ضرور ہوا کہ پاکستان کی فیشن انڈسٹری نے شلوار قمیص میں ہی خاصے مقبول فیشن اور ڈیزائن متعارف کروائے۔ 70کی دہائی میں لباس کی فٹنگ کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ لباس کا چست ہونا مردوں اور عورتوں میں یکساں مقبول تھا لیکن 80میں ڈھیلی قمیصوں کا استعمال خاصا اِن تھا ۔ملبوسات میں مختلف رنگوں کےامتزاج کا زور رہا اورہم رنگ ملبوسات کی جگہ گلابی ،ہرا، نیلا ، سفید اور کریم کے مختلف رنگوں کا کنٹراس فیشن میں رہا ۔اسی دوران لمبی قمیص اور کھلے چاک کا فیشن بھی مقبول ہوا۔ ساتھ ہی فٹنگ پائنچے کی شلوار لباس کا حصہ رہی۔ اس دور میں کرتوں کا رواج بھی عام تھا۔ اور نت نئی کڑھائی والے کاٹن کے ’کلف‘ لگے کرتے مرد خواتین دونوں میں پسند کئے گئے۔ خواتین نے سفید شلوار قمیص کے ساتھ ان دیدہ زیب کڑھائی والے کرتوں کے استعمال کو ترجیح دی۔ اس دور میں ریڈی میڈ کپڑوں کے رجحان کو فروغ ملا۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی مددسے اس رجحان نے تیزی سے ترقی کی اور رنگ برنگے کپڑے فیشن میں شامل ہو گئے۔ اگر شلوار سبز ہوئی تو قمیص سرخ یا نیلی اور دوپٹے کودونوں رنگوں سے ہم آہنگ کیاجاتا۔ اسی طرح ٹائی اینڈ ڈائی کے دوپٹے بھی اسی دور میں مقبول ہوئے ۔عروسی ملبوسات میں گوٹہ کناری کے ساتھ سلمیٰ ستاروں اور دبکے کا کام،متعارف کروایا گیا۔ پرتکلف تقریبات کے لئے شلوار قمیص کے ساتھ چوڑی دار پاجاموں ،شراروں ،غراروں اور بھوپالی و حیدر آبادی ملبوسات تقریبات کی جان بن گئے۔80کی دہائی میں جارجٹ یا ریشمی ملبوسات پر (گلیٹرز) افشاں کا کام بھی مقبول ہوا۔ ہاتھ کی کڑھائی ملبوسات بھی پسند کیے گئے۔ غرض شلوارقمیص اور دوپٹے کے لباس کو فیشن زدہ اور منفرد بنانے کے لئے جدت پیدا کی گئی۔ اسی طرح لباس کی تراش خراش کے حوالے سے بھی اس دہائی میں کئی ڈیزائن اور اسٹائل متعارف کروائے گئے۔ گول دامن اور بند چاکوں کی قمیصیں مقبول ہوئیں ،ساتھ ہی ایک کلی کی ’زک زیک ٹانکوں‘ کی چوڑے پائنچوں والی شلواروں کا ٹرینڈ بھی عام ہوا ، جسے ہر عمر کی خواتین نے بہت ذوق و شوق سے اپنایا۔

اسی طرح شلواروں کے انداز میں خاصی جدت لائی کی گئی اور دھوتی کائول شلواروں کا چلن بھی عام ہوا۔ ’’بیگی قمیص ‘‘ کا اندازبھی پسند کیا گیا جو آستینوں سے نہایت ڈھیلی اور کمر سے چست سی جاتی تھی۔اسی طرح خصوصاً نوجوانوں میں پرنٹنڈ شرٹس کا رجحان بہت عام ہوا۔ ’’ بیگی پینٹس‘‘ بھی نوجوان لڑکوں میں خاصی مقبول ہوئیں۔ زنانہ سینڈلز میں اونچی ایڑی کے پمپی اور کورٹ شوز کا رجحان بہت عام ہوا۔ خاص کر ٹین ایجر لڑکیوں میں پمپی جوتے خاصے مقبول ہوئے۔اسی زمانے میں ڈیزائنرز نے خواتین کے لئے ’’پشواز‘‘ متعارف کر وائی۔ جو درحقیقت افغانی پہناوا ہے۔ گھیر دار فراک پر بنارسی پٹیوں اور کشمیری کڑھائی سے مزین اس پہناوے پر باریک گھنگرو ٹانکے جاتے تھے ،نو عمر لڑکیوں میں پشواز کا فیشن خوب پروان چڑھا۔

90کی دہائی کی بات کی جائے تو اسے باقی دہائیوں پر اس لحاظ سے فوقیت حاصل رہی ہے کہ اس میں بہت کچھ ایک ساتھ دیکھنے میںآیا۔ نت نئے تجربات کی بدولت فیشن کی دنیا میں انقلابات آئے۔ 90 کی دہائی میں لباس میں ہر طرح کی جدت اپنائی گئی۔ بیک وقت کئی طرح کے فیشن متعارف کروائے گئے۔ اوردل چسپ بات یہ ہے کہ مغربی و مشرقی امتزاج کے فیشن نے عوام میں مقبولیت حاصل کی۔ 70کی دہائی کا مقبول ترین فیشن بیل باٹم 90میں ایک مرتبہ پھر لوٹ آیا، تاہم نام کی تبدیلی کے ساتھ یہ فیشن دہرایا گیا۔ پی آئی اے کٹ پاجامے ،اونچی اور لمبی دونوں قسم کی قمیصوں کے ساتھ پسند کئے گئے۔ 90کے آغاز میں چوڑے پائنچوں کا فیشن بھی ’’اِن ‘‘رہا، تاہم یہ جلدختم ہو گیا۔اس دوران قمیصوں کے حوالے سے جو فیشن پیک پر گیا وہ لمبے کلیوں والے کرتے اور فراکوں کا فیشن تھا۔ ساتھ میں کھلے پائنچوں کی اونچی شلواریں بے حد مقبول ہوئیں۔ کلیوں والے کرتوں کی مقبولیت اس قدر عام تھی کہ ریڈی میڈ گارمنٹس میں کافی عرصے تک یہی فیشن عام رہا۔ یہ کرتے دو کے بجائے بارہ یا سولہ کلیوں کے ہوتے اور نہایت گھیر دار ہوتے۔ خوبصورت ریشمی اور چکن کی بیلوں سے آ راستہ یہ کرتے نوجوان لڑکیوںپر بے حد خوبصورت لگتے۔ اسی دور میں کڑھائی والے ملبوسات بھی خاصے مقبول ہوئے۔ ان میں ملتانی کڑھت سے مزین ملبوسات زیادہ عام ہوئے اور آہستہ آہستہ ملبوسات میں کڑھائی اور خصوصاً مشین کی کڑھائی نے خاص اہمیت حاصل کر لی۔ ہاتھ کے کام میں موتی ٹانکا، سندھی بوٹی اور شیڈو روک سے مزین دل کش ملبوسات شخصیت کو باوقار بنانے میں اہم کردار ادا کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ساتھ 90کی دہائی میں بلاک پرنٹ نے بھی خاصی مقبولیت حاصل کی ،شلوار کے پائنچوں اور دوپٹوں پر بلاک پرنٹ کا استعمال کیاجانے لگا۔ اسی طرح سادے سوتی اور ریشمی ملبوسات پر دیدہ زیب سندھی اور بلوچی کڑھائی والے ’گلے‘ بھی لگائے گئے جو بے حد مقبول ہوئے۔ اسی طرح چاکوں پر کروشیا کی بیلوںکو بھی لگایا جانے لگا۔ چنری اور اجرک کے پرنٹ کے ملبوسات بھی بہت پسند کئے گئے۔ اس دور میں معاشرے پر مغربی کلچر زیادہ اثر انداز نہیں تھا۔ تاہم اپر کلاس سے تعلق رکھنے والی نوجوان خواتین میں جینز پہننے کا کلچر عام ہوا۔ اسی طرح مردوں میں سفید شلواروں پر مختلف رنگوں کے کرتوں کا فیشن بھی پسند کیا گیا، تاہم نوجوان لڑکوں کے لئے جینز ٹی شرٹ پسندیدہ پہناوا ثابت ہوا۔ 90 کی دہائی میں نوجوانوں میں بالوں کو لمبا کر کے باقاعدہ ’’پونی ‘‘ چوٹی باندھنے کا رواج بھی عام ہوا۔ اس کےساتھ ہی بھارتی اداکارسلمان خان کا ہیئر اسٹائل بھی ٹین ایجر نوجوانوں میںخاصا مقبول تھا۔ خواتین میں بالوں کے انداز بہت جدت کے ساتھ سامنے آئے جن میں ڈائی ریڈ اور برائون ہیئر کلر بہت پسند کئے گئے۔ اسی طرح ہیر پرمنگ 90کا خاص فیشن تھا یہاں تک کہ جن خواتین پر یہ سوٹ نہیں کرتا تھا انہوں نے بھی ڈائی کے ساتھ بالوں کو پرمنگ کرنا ضروری سمجھا ، اس کےساتھ ہی ہیر اسٹریکنگ کا انداز بھی 90 کی دہائی میں ابھر کر سامنے آیا ،بالوں میں رنگ برنگے کلپس اور کیچر لگانے کا رواج بھی عام ہوا۔

جوتوں میں بلاک ہیل ایک مرتبہ پھر لوٹ آئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ کھلی نازک چیلیں بھی بے حد مقبول ہوئیں، رنگ برنگی اسٹریپ والی چپلیں نوجوان لڑکیوں میں خوب پسند کی گئیں۔