بلوچستان میں امن ضروری

August 20, 2017

جو مٹی اپنے دامن سے سونا اُگلتی ہو بنجر رہے، جہاں معدنی وسائل ہوں مگر روز گار نہ ملے، جس دھرتی سے میٹھے پانی کے چشمے پھوٹیں مگر وہاں کے باسی پیاسے رہیں، بچوں بچیوں میں آگے بڑھنے کی لگن ہو، شعور ہو لیکن تعلیم سے محروم رہیں۔ جس دھرتی کے نوجوان وطن سے محبت کرتے ہوں۔ اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں، مگر ان پر اعتبار نہ کیا جائے، سیکڑوں میلوں تک پھیلی ہوئی ویرانی ہی ویرانی ہو، کوئی صنعت لگے نہ کسی کو لگانے کا موقع ملے ، جہاں زندہ رہنے کے لئے غیروں کی غلامی کرنی پڑے اورکاروبار کی بنیاد اسمگلنگ ہو، اس دھرتی کے غیرت مند نوجوان کو ملکی و غیر ملکی ایجنٹوں کا آلہ کار بننے کی راہ پر ڈال دیاجائے پھر ان سے گلہ کیوں؟ ان کی حب الوطنی پہ شک کیوں وہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں تو غدار کہلائیں، وہ قومی دھارے میں شامل ہونا چاہیں تو صاحبان اقتدار کو خطرہ محسوس ہو۔ یہ وہی سر زمین بلوچستان ہے جس نے عظیم محب وطن کھرے سچے پاکستانیوں کو جنم دیا مگر ان کی حب الوطنی کو شک کی نظر سے دیکھا گیا۔ 13 اگست سے 15 اگست تک کوئٹہ میں قیام کے دوران یہ احساس مزید گہرا ہوتا گیا کہ آخر ہم بلوچستان میں امن کیوں قائم نہیں رکھ سکتے۔ آخر ایسے کیا مسائل ہیں کہ بلوچ بھائی ہم سے ناراض ہیں۔ آپ حیران ہوں گے صورتحال یکسر مختلف ہے۔ 12 اگست کی رات دشمن نے کوئٹہ کے پر رونق علاقے میں پاک فوج کے جوانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ ہر طرف فضا سوگوار تھی ، ہوائی اڈے سے لے کر ہوٹل تک زندگی رواں دواں تھی۔ معمول سے زیادہ گہماگہمی مگرایک پراسرار خاموشی دل کو کاٹ رہی تھی۔ اس دوران سینئر وکلاء ، عام آدمی خصوصاً بلوچ صحافیوں سے بھی تبادلہ خیال ہوا کہ آخر مسئلہ ہے کیا جو اس گلستان کو نظر لگ گئی ۔ یہ مسئلہ اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ہمارے مصلحت کے شکار حکمرانوں، سیاستدانوں اور اداروں نے بنا دیا ہے۔ بلوچ کا جرائم کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں، اگر ہم اس مسئلے کو بندوق کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں گے تو معاف کیجئے گا یہ مسئلہ ساری زندگی حل نہیں ہوگا۔ اس مسئلے کا صرف اور صرف چند نکات کی نشاندہی کے بعد ہی سیاسی حل ممکن ہے۔ بلوچستان میں موجود قانونی و غیر قانونی افغان مہاجرین جن کی تعداد کم و بیش 20 لاکھ سے زائد ہے اور ایک اندازے کے مطابق شائد یہ تعداد 40 لاکھ ہے۔ ان کا بلوچستان کے کاروبار زندگی پر مکمل کنٹرول ہو چکا ہے اور انہیں کچھ بااثر حلقوں کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ حقیقت پر مبنی یہ خیال میرا نہیں مقامی پڑھے لکھے عام بلوچوں کا ہے۔ بظاہر بلوچ کو کسی پنجابی، سندھی سے کوئی پریشانی یا شکوہ نہیں مگر افغان مہاجرین اور پشتونوں کے باہمی مضبوط رابطوں کے باعث پوری بلوچ قوم شدید اضطراب کا شکار ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ افغان مہاجرین ہی اصل فساد کی جڑ ہیں۔ جو کھاتے ہمارا اور جڑیں بھی ہماری ہی کھوکھلی کررہے ہیں انہی مہاجرین کی اکثریت جرائم میں ملوث ہے۔ ناجائز فروشی عام ضروریات زندگی سے لے کر اسلحے کی اسمگلنگ میں بھی یہی ملوث ہیں اور یہی دہشت گردوں کے سہولت کار بھی۔ کمزور بارڈر سیکورٹی مینجمنٹ کے باعث یہ افغان صرف 50,100 روپے دے کر بغیر دستاویزات کے بلوچستان میں بلاروک ٹوک داخل ہو رہے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے ان مہاجرین کی کڑی نگرانی، جانچ پڑتال کی بجائے ادارے اپنی ذمہ داریوں سے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ سب سے بڑا بلوچ قوم سے جو ظلم کیا جارہا ہے وہ حالیہ مردم شماری میں ان افغان مہاجرین کو پاکستانی شہری تسلیم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں سیاست دانوں نے دانستہ آنکھیں بند رکھیں اور مردم شماری اسٹاف کو باقاعدہ آنکھیں بند رکھنے کا حکم دیا گیا۔ اس انتہائی مجرمانہ اقدام سے عام بلوچ جو انتہائی باشعور اور حالات پر گہری نظر رکھنے والا ہے شدید عدم تحفظ ، رنج اور غصے میں ہے۔ 14 اگست کی رات باوجود اس کے کہ فضا سوگوار تھی مگر کوئٹہ کی سڑکوں پر جشن آزادی مناتے نوجوانوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں سڑکوں پر کھیل تماشا کررہی تھیں ایک دوسرے پر اسپرے سے رنگ پھینک رہے تھے۔ میں نے اپنے ایک دوست سے پوچھا اتنی زیادہ گہما گہمی اور جوش دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے تو جواب ملا یہ بلوچ نہیں افغان ہیں۔ بلوچ سلجھے لوگ ہیں وہ سوگ میں ہیں۔ ایسی بیہودہ حرکتیں بلوچ نہیں کرسکتے۔ یہ تمام افغان مہاجر نوجوان ہیں جو خود کو پاکستانی ثابت کرنے کے لئے پاکستان کے قومی تہواروں پرغیر معمولی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور انہیں یہ مواقع فراہم کرنے کے لئے باقاعدہ سامان فراہم کیا جاتا ہے یہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر شوبازی کررہے ہیں اداروں کو بھی اس کا علم ہے۔اس سے مقامی بلوچ شدید اضطراب کا شکار ہیں۔ ایسے حالات میں جہاں غیر ملکیوں کو پاکستانی شہری بنانے کی گہری عالمی سازش کی جارہی ہو تو انسان کیا کرے۔ اب تو صرف ایک ہی ادارہ رہ گیا ہے اعلیٰ عدلیہ۔ جو اس سنگین سازش کا ازخود نوٹس لے اور پاکستان کی بقا کی خاطر بلوچستان کی مردم شماری میں ہونے والی سنگین دھاندلی اور سازش کو ناکام بنائے اور ان مہاجرین کے بلوچستان سے افغانستان انخلا بارے کوئی ٹھوس فیصلہ صادر فرمائے ورنہ مصلحت کے شکار حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اپنے اپنے ووٹ بینک مضبوط رکھنے کی خاطر پاکستان کے خلاف بہت بڑی واردات کر ڈالی ہے۔ اس واردات کے ذمہ داروں کا تعین کرنانہایت ضروری ہوگیا ہے۔
دوسرا اوراہم ترین مسئلہ بغاوت پرآمادہ ان بلوچوں کاہے جو محب وطن تھے مگر حالات نے ان کو بغاوت پر اکسایا اور اب وہ ہتھیار پھینک کر باعزت شہری کے طور پر ایک پر سکون، پر امن زندگی گزارنا چاہتے ہیں مگر انہیںہتھیار واپس لینے کے بعد کسی قسم کا کوئی معاشی یاجانی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا وہ اداروں کی نظر میں بھی مشکوک ٹھہرے اور باغیوں کی نظر میں غدار۔ بلوچوں کو پاکستان دشمن گروپ خصوصی طور پر ٹارگٹ بنا رہے ہیں۔ ہونا تویہ چاہئے تھا بلوچ قوم کی نفسیات کے مطابق ہتھیارڈالتے وقت انہیں ’’فراری‘‘ کہنے کی بجائے ’’محب وطن بلوچ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا اور ان کی میڈیا پر باتصویر تشہیر سے گریز کیا جاتا تاکہ وہ معاشرے میں بھی اپنا باعزت مقام بنا سکتے اور ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہوتی ۔ ان کی کم از کم پانچ سال تک مالی مدد کی جاتی اوران کے بچوں کی تعلیم و صحت کا خصوصی خیال رکھاجاتا مگر ہوا اس کے برعکس، جس کا نتیجہ یہ نکلا وہ عدم تحفظ کا شکارہوگئے اور آئے دن ناراض گروپ انہیں چن چن کر مار رہے ہیں یا وہ حالات کے ہاتھوں مر رہے ہیں ابھی بھی وقت ہے کہ ان محب وطن بلوچوں کو سینے سے لگائیں ان کو معاشرے کا باعزت شہری بنائیں ان کے بچوں کی تعلیم و صحت کا خیال رکھیں اور انہیں باعزت روزگار فراہم کیاجائے۔
تعلیم و صحت اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے، بلوچ نوجوان نسل اس حوالے سے شدید نالاں ہیں۔ ایک تاثر یہ بھی ہے سرکاری ملازمتوں کے ضمن میں موجودہ بلوچ نوجوان نسل کی شدید حق تلفی کی جارہی ہے اوربلوچستان کے کوٹے کو غیر بلوچ بلوچستان کے ڈومیسائل پر استعمال کررہے ہیں جس کے نتیجے میں بلوچوں کو سرکاری ملازمتوں میں ان کا حق نہیں مل رہا۔کالا باغ ڈیم سے بلوچ قوم کو کچھ لینا دینا نہیں مگر وہ محض اس لئے کالا باغ ڈیم کے شدید مخالف ہیں کہ دنیا کی طویل ترین ساحلی پٹی ہونے کے باوجود شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تو وہ بھی انتقاماً کالا باغ ڈیم کی مخالفت برائے مخالفت کررہے ہیں، کچھ سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی رائے یہ ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم کی بلوچستان سے حمایت درکار ہے تو وفاقی حکومت سب سے پہلے بلوچستان میں چھوٹے ڈیموں کا جال بچھائے اور ساحل سمندر پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے تو کالا باغ ڈیم کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ بلوچوں کو جس قدر توجہ کی ضرورت ہے وہ ہم نہیں دے پا رہے۔ اگر تمام اداروں اور سیاست دانوں نے اپنی غفلت پر قابو نہ پایا تو بات بگڑ جائے گی۔