فاٹا اصلاحات کی سمت پہلا قدم

September 14, 2017

منگل کے روز وفاقی کابینہ نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جسے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کو مرکزی دھارے میں لانے کی سمت اہم پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں ایک مسودہ قانون (بل) پارلیمنٹ کے روبرو پیش کرنے کی منظوری دی گئی جس کے تحت سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائیگا۔ اس بل کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اعلیٰ عدالتوں کے دائرہ اختیار کو وسعت دینے اور ملک کے معمول کے قوانین کو قبائلی علاقہ جات میں مرحلہ وار نافذ کرنےکا عمل شروع کیا جائیگا جسے بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاوش سے تقویت دی جائے گی۔ ان ترقیاتی کاموں کے لئے تمام فریقوں سے اتفاق کے بعد منقسم پول سے اضافی وسائل مختص کئے جائیں گے اور سرمایہ فراہم کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ابتدائی مسودہ چھ ارکان پر مشتمل خصوصی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں تیار کیا گیا جس میں وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے کی تجویز دی گئی تھی۔ منگل کے روز وفاقی کابینہ نے جس مسودہ قانون کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری دی اس کے باضابطہ قانون بننے کے بعد متنازع فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) ختم ہو جائیگا۔ کمیٹی نے پچھلے ہفتے اپنے اجلاس میں ایک عبوری میکنزم قائم کرنے کی بھی تجویز دی تھی جس کی روشنی میںوزیراعظم شاہد خاقان عباسی وزیر قانون و انصاف کو ایسے قانونی و انتظامی اقدامات کی ہدایات دے چکے ہیں جن کے تحت فاٹا کے لوگوں کو ملک کے دوسرے حصوں میں رہنے والوں کی مساوی بنیادی حقوق حاصل ہوسکیں۔ کمیٹی نے اس ضمن میں پولیس کی بھرتیوں اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے کچھ لوگوں کی تعیناتی کی سفارشات بھی کی تھیں۔ مارچ کے مہینے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سرکردگی میں وفاقی کابینہ نے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے اقدامات کے علاوہ 110ارب روپے مالیت کے اصلاحاتی ترقیاتی پیکیج کی منظوری بھی دی تھی اور اس ضمن میں ایک بل مئی کے مہینے میں قومی اسمبلی میں پیش بھی کیا گیا مگر مولانا فضل الرحمٰن اور محمود اچکزئی کے بعض تحفظات آڑے آگئے۔ منگل کے روز منعقدہ کابینہ کے اجلاس کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی سرکردگی میں ایک قومی عملدرآمد کمیٹی فاٹا کو مرکزی دھارے میں لانے کے اس سارے عمل کی نگرانی کے لئے پہلے ہی بنائی جاچکی ہے۔ وزیر قانون کو وزیراعظم کی طرف سے دی گئی مذکورہ ہدایات کی بازگشت منگل کے روز پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ) میں سنی گئی اور پیپلز پارٹی کی نشستوں سے فاٹا کے لئے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ قائم کئے جانے کی اطلاعات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کی ہدایات ایوان میں لانے کا مطالبہ کیا گیا تاہم چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی وضاحت کے مطابق بزنس ہائوس ایڈوائزری کمیٹی میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ فاٹا سے متعلق معاملے کو پورے ایوان کی کمیٹی میں زیر بحث لایا جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ فاٹا اصلاحات لانے کا مقصد قبائلیوں کو ملک ک دوسرے حصوں میں رہائش رکھنے والوں کے مساوی جمہوری اور آئینی حقوق دینا ہے۔ اس لئے جو انتظامات بھی کئے جائیں ان میں جمہوریت کی روح کارفرما ہونی چاہئے۔ کسی بیوروکریٹ کو تمام انتظامی اختیار سونپنے کی بجائے کیا ایسی تدبیر بروئے کار نہیں لائی جاسکتی کہ مقامی حکومتوں کی طرز پر یا کسی اور طریقے سے عام آدمی کی رائے اور امنگوں کے مطابق معاملات چلائے جاسکیں؟ معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخوا میںضم ہونے کی صورت میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں میںاضافہ اور اس کے نتیجے میں دوسرے ایوانوں کے تناسب میں بھی فرق پڑے گا۔ فاٹا اصلاحات روبہ عمل لانا اگرچہ وقت کی اہم ضرورت ہے مگر اس معاملے کے تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر احتیاط اور مشاورت سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔