تھر، ملکی ثقافت کے تاج کا بیش بہا نگینہ

September 18, 2017

احمد معمور عمیمی کو پاکستان سے بہت زیادہ محبت ہے ۔۔اتنی محبت جتنی ایک ’محب وطن‘ کو ہوتی ہے ۔۔۔یا شاید اس سے بھی زیادہ ۔

وہ کہتے ہیں پاکستان میری ’پہچان ‘ ہے ۔ اور میںچاہتا ہوںکہ دوسرے بھی پاکستان کو پہچانیں‘ اسی لئے وہ ناصرف شہر شہر ، صوبہ ، صوبہ گھومتے ہیں بلکہ اس کی ست رنگی ثقافت ، لوک موسیقی اور لوک فنکاروںکی بھی پوری دنیا سے ’پہچان‘ کرانا چاہتے ہیں۔ وہ جس شہر بھی جاتے ہیں کیمرے کی آنکھ میںاس کے مناظر ’قید‘ کرلاتے ہیں۔

پچھلے دنوں انہوںنے ’تھر‘کا دورہ کیا۔ اس دورے کو اگر ایک فقرے میںکوئی سمونا چاہئے توبقول معمور یہ ہے کہ ’’تھر پاکستانی ثقافت کے تاج میں جڑا ایک بیش بہا نگینہ ہے۔۔۔نہ کبھی اسے زنگ لگ سکتا ہے اور نہ کبھی اسے کوئی چوری کرسکتا ہے۔ ‘‘

روزنامہ ’جنگ‘ سے ایک خصوصی انٹرویو میںانہوں نے تھر کے دورے سے متعلق تفصیلات میںبتایا’’ تھر میں سالوں میں بارش ہو تی ہے ۔ کہتے ہیں کہ جس دن یہاںبارش ہو تی ہے تھری لوگوںکے لئے وہ ’عید کا دن‘ ہو تا ہے ۔جب بارش کے ننھے ننھے قطرے موسلادھاربرسیںتو تھر کو نئی زندگی ملتی ہے ۔بھوک ، پیاس اور قحط کے ہاتھوںمجبور ،تھر چھوڑ جانے والوںکو بھی یہ بارش واپس لے آتی ہے ۔ یہ لوگ پھر سے کھیتی باڑی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔‘‘

معمور نے بتایا ’تھر دنیا کا واحد زرخیزصحرا ہے ۔ یہ ایک بڑی حیران کن بات ہے ۔۔یہ تحفہ بھی قدرت نے پاکستان کو ہی عطا کیا ہے۔ ‘

انہوں نے اپنے سفر کی داستان سناتے ہوئے مزید کہا ’’ ہمارے ذہن میں تھا کہ راستہ سنسان اور بنجر ہوگایا پہاڑیاں اور ریت کے ٹیلے ہوں گے مگر ایسا کچھ نہیں تھا ۔ حالیہ بارشوںنے صحراکا نقشہ ہی بدل دیا تھا اور صحرا میںتا حد نگاہ سبزہ ہی سبزہ اگا تھا ۔یہی وہ وقت ہے جب تھر میںکاشتکاری کی جاتی ہے۔ اس موسم میں تھری باشندے سبزیاں اگاتے یا ان کی کٹائی کرکے انہیںاسٹور کرلیتے ہیں یا ان کی خرید و فروخت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔بارش کا پانی کئی کئی مہینے کے لئے اسٹور کرلیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد یہاں پانی ’نایاب‘ ہوجاتا ہے ۔ ‘

بقول معمور ’’یہاں کرائم ریٹ زیرو ہے ؟اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ تھری بہت زیادہ نرم گو، صحت مند اور سیدھے سادھے ہو تے ہیںاس کے باوجود کے یہاں کا موسم بہت سخت اور تکلیف دے ہوتا ہے لیکن اس حالات میںبھی وہ اپنے اوپر کنٹرول رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ‘‘

معمور کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیںمقامی اور لوک فنکاروںسے بھی ملنے اور ان کے بارے میںجاننے کا بہت شو ق ہے ۔ میں کہیںبھی جاؤں تو وہاں کا مقامی ٹیلنٹ ضرورڈھونڈتا ہوں۔ اس میں چاہے کو ئی گلوکار ہو، پرفارمر ہویا قصے کہانی سنانے والا ۔تھر کے سفر کے دوران بھی مجھے تین لوک سنگرز سے ملنے کا موقع ملا۔ ‘‘

ان سے ہماری ملاقات ’عمر ماروی میوزیم‘ میںہوئی تھی ۔ ’ عمر ماروی‘ سندھ کی سب سے مشہور لوک کہانی ہے ۔میںآگے بڑھنے سے پہلے اس سے متعلق بھی بتاتا چلوں جو مجھے معلوم ہے۔ اس روایتی کہانی کے مطابق عمر ماروی بہت محبت کرتا تھا، اسی لیے وہ اسے اٹھاکر لے گیا لیکن پھر چھوڑ بھی دیا ۔چھوڑ نے کی وجہ بھی دلچسپ رہی جیسا کہ میںنے سنا ہے کہ ماروی عمر کی سوتیلی بہن تھی۔ عمر اپنے والد کی اس شادی سے لاعلم تھا مگر اس کہانی کی تصدیق نہیں ہو سکی ۔ہو سکتا ہے کہ یہ روایت یوں ہی زبان زد عام ہوگئی ہو ۔‘

’’خیر ’عمر ماروی میوزیم‘ میں ماروی کے مجسمے بھی قائم ہیں ۔ وہیں ہمیں لوک فنکاروںسے ملنے کا موقع ملا۔ لوگ ان کی پرفارمنس سے خوش ہوکر انہیں پیسے دیتے ہیں اور وہ انہیں گانے سناتے ہیں ۔ ان ہی میںسے’ فقیرا‘ بھی تھے جو مجھے نگر پارکر ،کے مندر جاتے ہوئے ملے ۔صحرا کی خاموشی کو توڑتی ، دور سے آتی ان کی سریلی آواز اور مدہوش کردینے والی تانوں نے میرے قدم جکڑ لئے۔میںان کے قریب چلا گیا، ان کی آواز سنی اور سنتا ہی چلا گیا۔ پھر ویڈیو بھی بنائی ۔ مجھے ان کی آواز اور سرتال نے بہت متاثر کیا۔صحرا میں نخلستان جیسی اہم آواز تھی ان کی۔۔زندگی کی طرف بلاتی۔۔۔‘‘

تھر میں جین مت کے ماننے والوںکے قدیم اور بوسیدہ حال مندر بھی اپنے آپ میںایک طویل تاریخی اور اہمیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ اب یہاںکوئی جین مت کو ماننے والا نہیںرہتا لیکن دوہزار سال گزر جانے کے بعد بھی جو مندر کے در دیوار پر نقش و نگار بنے ہیںوہ اب بھی قابل دید اور بے مثال ہیں۔ پاکستان میںکسی اور جگہ ایسے مندر دیکھنے کو نہیںملتے۔

اسلام کوٹ تھر پارکر کا مشہور علاقہ ہے ، تھر جانے والے زیادہ تر لوگ رات کو یہیںقیام کرتے ہیں۔ ہوٹلز ، اسپتال اور دیگر سہولیات اسلام کوٹمیں موجود ہیں۔ تھرکول پروجیکٹ کی وجہ سے یہاں سے نکلنے اور آگے جانے والی سڑکیں بہت اچھی بن گئی ہیں۔ ہم لوگوںنے نگر پارکر، تھرپارکر، مٹھی اور اسلام کوٹ کے ساتھ ساتھ نگرپارکر کا بھی دورہ کیا ۔ بھارتی سرحد قریب ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ نہایت حساس ہے ۔

اس کا نقشہ کچھ اس طرحکا ہے کہ تین طرف بھارت ہے۔ یہاں لائٹ کا کوئی انتظام نہیں ۔ ہم رات بارہ بجے سفر کرتے ہوئے بھی بے خوف تھے۔ سیکورٹی اداروںکی جانب سے چیک پوسٹ پرہمیںروکا گیا ۔ہماری باقاعدہ رجسٹریشن ہوئی تاہم کیمرے لے جانے کی ہرگز کسی کو اجازت نہیںتھی۔ البتہ موبائل کیمرے لے جانے کی اجازت تھی ۔ موبائل کے ذریعے ہی ہم نے ویڈیو کا کچھ حصہ ریکارڈ کیا ۔

تھر میںسندھ گورنمنٹ نے ’ایس ٹی ڈی سی‘ طرز کا ایک ادارہ قائم کیا ہےجس نے وہاںمختلف ’ ہٹ‘ تعمیر کئے ہیں ۔ان ہٹس کی پہلے سے بکنگ کرانا پڑتی ہے۔یہ ہٹس بالکل اسی اسٹائل کے ہیںجیسی نگر یا تھر میں جھونپڑیاںہوتی ہیں۔ یہاںکچھ ہوٹلز بھی ہیں۔ ہم بھی انہی ہوٹلز میںسے ایک ہوٹل میںٹھہرے۔

صبح کے سات ہی بجے تھے کہ اچانک ہماری آنکھ کھل گئی وہ بھی ڈھول اور دیگر آلات موسیقی کی آواز سے۔ باہر نکل کر دیکھا تو معلوم ہوا مقامی افراد کی جانب سے کوئی فیسٹیول منایا جارہا ہے ۔ تمام افراد کا تعلق اقلیتی برادری ہندوؤںسے تھا ۔ یہ لوگ اپنے مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لئے یہاں واقع مندروں میںپوجا پاٹھ کے لئے آئے تھے ۔

بلوچستان میں ایک مندر اور ہندؤوںکا ایک مقدس مقام ’ہنگلا ج‘ بہت مشہور ہے۔ میری معلومات کے مطابق اسے دیوتا کا درجہ حاصل تھا ۔ جب اسے ایک اور ہندؤ دیوتا رام نے قتل کیا تو اس کا جسم زور دار آواز کے ساتھ پھٹا اور اس کے ٹکڑےدنیا میں مختلف مقامات پر جاگرے۔ جہاں جہاںیہ ٹکڑے گرے وہاں مندر تعمیر کئے گئے اور تھر کے مندر بھی اسی واقعے کی نشانی ہے۔ ہندو برادری کے افراد جب بھی تھر کا دورہ کرتے ہیں ان مندروںمیںپوجا کے لئے ضرور آتے ہیں۔ ان کے لئے یہ دورہ مذہبی نوعیت کا ہوتا ہے۔

سندھ اور خاص طور سے تھر کی ایک سواری ’کیکڑا‘ بہت مشہور ہے ۔ دراصل یہ مختلف ڈیزائن اور پھول بوٹیوں سے سجا ایک دیوہیکل ٹرک ہوتا ہے ۔ تمام افراد اسی کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔ ریتیلا علاقہ ہونے کی وجہ سے ٹرک سفر کے لئے سب سے موزوں ہوتا ہے ۔ دراصل اس کی اہمیت کے پیش نظر ہی اسے’ تھرکا اونٹ ‘کہا جاتا ہے جبکہ اونٹکو صحراکا جہاز کہاجاتا ہے ۔

گو کہ وقت کے ساتھ ساتھ اور خاصطور سے پختہ سڑکیںبن جانے کے بعد ’کیکڑے‘ کا استعمال اور اس کی تعداد کم ہورہی ہے جبکہ جیپ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ ہم بھی ایک جیپ کرائے پر لے کر وہاںسے آگے روانہ ہوئے ۔بھارت کی سرحد کے قریب تک ہم نے اسی جیپ میںسفر کیا ۔ پہاڑی کے اوپر بھی ہم جیپ کے ذریعے ہی گئے ۔

وہاں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ پاکستانی علاقے تھر میںجتنا بھی علاقہ ہے وہاں سبزہ اگا ہوا ہے جبکہ سرحد کی دوسری جانب کی زمین دلدلی ہے ۔ یہ قدرت کا کرشمہ اور پاکستان پر اس کی عنایت ہے۔ یہ بھارتی علاقہ ’رن کچھ ‘کہلاتا ہے ۔ ہوسکتا ہے آپ نے یہ علاقے ’پی کے ‘ اور دوسری کئی فلموںاور ڈراموںمیںدیکھا بھی ہو۔

تھر کا ایک بڑا مسئلہ سیم و تھور ہے ۔ یہاں سیم و تھور بہت جلدی آجاتا ہے جس سے کاشتکاری بھی بری طرحمتاثر ہوتی ہے ۔جس کاشتکار کی اراضی پر سیم تھور نہیںآتا وہ خوشحال ہے جبکہ جس کاشتکار کو سیم و تھور کا مسئلہ درپیش ہے وہ بے چارہ غریب اور بدحالی کا شکار نظر آتاہے۔

ہم نے عمر کوٹ اور کھپرو کا بھی دورہ کیا ۔ یہ بھی تھر میںہی واقع ہیںاور پاکستان بھر کے لوگ ان کے نام سے واقف ہیں۔ یہاں بھی زمین ایک مسئلے سے دوچا رہے۔ کنواں کھودو تو ایک جگہ نمکین اور اسی کے کچھ فاصلے پر زمین کھودو تو میٹھا پانی نکلتا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے ۔ یہاںکے لوگ پانی میںسے نمک نکالتے اور اسے سکھا کر استعمال میںلاتے ہیں۔

دوران سفر ہمیںایک روایتی جھونپڑی میںبھی جانے کا موقع ملا ۔ تھری باشندہ کی اس جھونپڑی میں کافی سارے بچے اور ان کے والدین رہتے ہیں ۔ مکینوںکا کہنا تھا کہ وہ بارش کے بعد فصل اگانے کی غرضسے تھر واپس آئے ہیںجب بارشیںختم ہوجائیںگی تو وہ واپس دوسرے مقامات پر جابسیں گے ۔

بقول معمول ’میں نے ایک تھری باشندے سے پو چھا کہ کیا تم خوش ہوتو اس نےجو اب دیا کہ’ بہت خو ش ہو ں ۔‘

اس جواب پر میںیہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ یہ لوگ کس قدر قناعت پسند اور اپنے میںمگن رہنے والے ہیں۔ زندگی سے مطمئن اور خوش ۔۔جو کچھ نہ ہونے پر بھی سکون سے ہیںاور ایک ہم ہیں کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بہت سی چیزوں کی تلاش میں ہیں ۔۔

معمور کو دستاویزی ویڈیوز بنانے کا بھی جنون کی حد تک شو ق ہے ، اسی شوق کی غرضسے انہوں نے زیرنظر رپورٹ سے منسلک ویڈیو میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کی ہے تاکہ پاکستان کو بہتر سے بہتر انداز میں دنیا سے متعارف کرایا جاسکے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’ویڈیو کے لئے ان کے پا س دونہایت جدید ڈرونز ہیں، ڈ ی جی آئی کمپنی کے۔۔ جو ٹی وی چینل میں استعمال کر تے ہیں ۔ ایک کینن کا ڈی ایس ایل آر بھی ہے ۔اوسمو ویڈیو کیمرہ بھی وہ استعمال میںلاتے ہیںجبکہ جی سکس ہنڈرڈ مو بائل فون،آئی فونز، آئی فون سیون اور ایکس ایٹ، مکسر مشینیں، کمپیوٹرز، ڈیوائسز اور دیگر آلات اس کے علاوہ ہیں۔ان ویڈیوز کا مقصد پاکستان کو دنیا بھر میں متعارف کرانا ہے ،ایک پہچان بنانا ہے ۔یہ شوق بہت مہنگا صحیح لیکن مٹی کی محبت میں تو لوگ سولی پر چڑھ جاتے ہیں پھر یہ شوق کیا حیثیت رکھتا ہے ۔ ‘‘