عوام کے حق ِ حکمرانی کا مقدمہ؟

September 29, 2017

اس کرہ ارضی پر جبر اور صبر کی کہانی بہت پرانی ہے۔ نواز شریف تو کوئی غیرمعمولی شخصیت نہیں ہیں یہاں تو اولوالعزم شخصیات پر طاقتوروں نے وہ وہ مظالم ڈھائے ہیں کہ بات دھونس و جبر سےبھی کہیں آگے تک چلی جاتی ہے۔ بلاشبہ عدل و انصاف کے نام پر روا رکھی جانے والی ان زیادتیوں کے کارن اہل صبر اذیتوں کا شکار ہوتے رہے لیکن بالآخر وقت، تاریخ اور بالخصوص عامتہ الناس نے ان کی سچائی اور جبر کرنے والوں کی ڈھٹائی تسلیم کی۔ مخصوص مفادات کے حاملین آج یہاں پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ عدالتی فیصلے اچھے ہوں یا برُے ہمیں بہرصورت ان کا احترام کرنا چاہئے۔ احترام ضرور کرنا چاہئے لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہئے کہ کوئی بھی فرد ہو یا ادارہ وہ عوامی سطح پر اپنا تقدس و احترام اپنے اعلیٰ افکار و کردار سے کرواتا ہے۔ آپ کے لئے حقیقی عزت وہ ہوتی ہے جو منصفانہ سوچ کی بدولت دوسرے کے دل سے پھوٹے طاقت یا دباؤ سے کروائی گئی تو قیر تو محض تب تک کے لئے ہوتی ہے جب تک ہاتھوں میں طاقت کا ڈنڈا ہوتا ہے ۔
آج وہ عدالت کہاں ہے جس نے اپنے تئیں سقراط جیسے ’’برے انسان‘‘ کو زہر کا پیالہ پینے کی سزا سنائی تھی۔ وہ عدالت جس نے طاقتوروں کے دباؤ پر حضرت عیسیٰ ؑ کو مصلوب کئے جانے کا فیصلہ سنایا تھا۔ آج ان کا احترام کرنے والے دنیا میں کتنے ہیں؟ اتنی دور جانے کی ضرورت نہیں یہاں وطنِ عزیز میں چار مرتبہ آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے جبری لاقانونیت لاگو کی گئی ان تمامتر مارشل لاز کو جائز قرار دینے کے فیصلے دینے والی کوئی باہر کی سپریم کورٹس نہیں تھیں۔ یہاں منتخب جمہوری اداروں اور حکومتوں کو پیہم جبری قوتوں کے اشاروں پر تذلیل کرتے ہوئے توڑا جاتا رہا۔ اس صریح لاقانونیت کے خلاف جوڈیشری کے جو عمومی فیصلے آتے رہے آج کتنے صحافی وکلاء دانشور یا سیاستدان ہیں جو ان کی حمایت یا احترام میں ایک فقرہ بھی بولیں گے۔ آج ہمارے پی پی کے دوست جب یہ بول رہے ہوتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کے حمایتیوں کو عدالتی فیصلوں کا وہ جیسے بھی ہیں احترام کرنا چاہئے تو ہماری آنکھوں کے سامنے محترمہ بے نظیر بھٹو کی وہ تمام تصاویر آجاتی ہیں جن میں وہ انہی عدالتوں کو کینگرو کورٹس اور ان کے فیصلوں کو چمک یا دھمک کا نتیجہ قرار دیا کرتی تھیں۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے جب بھٹو مرحوم کو سزائے موت سنائی گئی تھی اس پر ہمارے یہ دوست سپریم جوڈیشری کے خلاف جو زبان استعمال کرتے تھے کیا ن لیگ والے اس سے زیادہ بول رہے ہیں؟ہمارے یہ دوست آج بھی اُس کے متعلق کیا بولتے ہیں؟ آج وطنِ عزیز میں کتنے لوگ ہیں جو اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں؟
آج بہت سے ناقدین نوازشریف پر بھنویں پھیلائے ناک منہ چڑھا رہے ہیں کہ وہ جوڈیشری کا کماحقہ ٗاحترام نہیں فرما رہے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے جوڈیشری کا احترام تو طاقتوروں سے بھی بڑھ چڑھ کر ہونا چاہئے مگر ان ناقدین سے ہمارا سوال یہ ہے کہ نوازشریف نے اپنے مقدمات اور اُن پر صادر ہونے والے متنازع فیصلوں کے حوالے سے جو 12سوالات اٹھائے ہیں اور اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے جس ’’خصوصی سلوک‘‘ کو دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے کیا کسی میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ ان بے انصافیوں کا جواب دے سکے؟ آج وہ کہہ رہے ہیں کہ مارشل لاز میں بھی انہیں اپنے خلاف فیصلوں کے خلاف دو اپیلوں کا حق دیا جاتا رہا یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ان سے ان کا بنیادی حق اپیل تک چھین لیا گیا ہے۔ سپریم جوڈیشری کے تحت JIT کے ارکان جن پر خود معزز عدالت بھی ہاتھ نہ ڈال سکتی ہو یا پھر نیب پر جج مسلط کرنے کے بعد ماتحت ادارے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اس پر اگر نوازشریف یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہوئی ہے تو پوچھا جاتا ہے کہ میاں صاحب کھل کر بتائیں آپ کے یا جمہوریت کے خلاف سازشیں کون کر رہا ہے؟ کیا یہ سوال پوچھنے والے واقعی اتنے بے بہرہ ہیں جو انہیں علم نہیں؟ بزرگ سیاستدان جاوید ہاشمی سے رجوع کر لو وہ آپ کی بند عقل کے تمام دریچے کھول دیں گے۔ پھر بھی کسر رہ جائے تو وطنِ عزیز کی 70سالوں پر محیط جمہوری و سیاسی تاریخ پر ایک نظر ڈال لیں وزرائے اعظم کے ساتھ پیہم روا رکھے جانے والے رویے اور پس پشت موجود طاقت، بند آنکھیں کھول دے گی۔ اس کے باوجود تسلی نہیں ہو رہی تو پرویز مشرف جیسے آئین شکن کی پیشی کی روداد ملاحظہ کرلیجئے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں عدالت کی طرف سے اشتہاری قرار پانے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں لیکن فخر سے میڈیا کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ مجھے سابق سپہ سالار نے عدالتی دسترس سے ہی نہیں ملک سے بھی باہر محفوظ بچا کر نکال لیا۔ نواز شریف کے حوالے سے جنہیں درد ہوتا ہے انہیں پرویز مشرف کے متعلق قانون بے جان کیوں محسوس نہیں ہورہا ہے؟ ریڑھی بان اور خوانچہ فروش تک کو تو سمجھ آرہی ہے مگر گل محمد اور دانش خان کو سمجھ نہیں آرہی۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے یا یہ کہ نکتہ توحید سمجھ آ تو سکتا ہے ترے دماغ میں ہو بت خانہ تو کیا کہے
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا دانش خاں منافرتوں کا سوداگر بن چکا ہے۔ بیگم کلثوم نواز بیمار ہوئیں تو نواز شریف شوہر کی حیثیت سے تیمارداری کیلئے لندن گئے یہ اول و آخر اخلاقی و انسانی معاملہ تھا۔ نواز شریف کیخلاف وہ وہ بے پر کی اڑائی گئیں کہ الامان و الحفیظ..... نوازشریف بیگم کا بہانہ ڈال کر بھاگ گئے ہیں۔ اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے وغیرہ۔ ابھی اس نفرت انگیز پروپیگنڈے کی دھول بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ نوازشریف نہ صرف واپس آئے بلکہ نیب کورٹ میں پیش ہوئے مگر مجال ہے کہ جھوٹا پروپیگنڈہ کرنیوالے کسی کے چہرے پر ہلکی سی شرمندگی کے کوئی آثار بھی ہویدا ہوئے ہوں۔ نواز شریف کیخلاف جتنی بھی چالیں چلی گئی ہیں وہ چلنے یا جلنے والوں کے منہ پر پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ چار یا پانچ سالہ حکومت کے بعد بہت سے لوگوں کو حکومت سے شکایات پیدا ہوجاتی ہیں لیکن اب جب یہ آوازیں اٹھیں گی کہ طاقتوروں کی طرف سے نواز شریف کی ٹانگیں کھینچی جا رہی ہیں انہیں جبری ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے تعمیرو ترقی کے کاموں سے روکا جا رہا ہے تو لازمی بات ہے اُن کیلئے عوامی سطح پر ہمدردی کی ایک لہر اٹھے گی۔ جیل بھیجو گے تو یہ لہر مزید تگڑی ہو جائے گی۔ آج نوازشریف اخلاقی بلندی اور مخالفین پستی پر جاتے ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں آج جب وہ یہ کہتے ہیں کہ جس فیصلے کو قانونی ماہرین نہیں مان رہے میں کیسے مان لوں تو اسکی سمجھ سب کو آ رہی ہے آج وہ کہہ رہے ہیں کہ قوم کو بتا تو دیتے کہ پاناما سے کچھ نہیں ملا تو اقامہ پر سزا دے دی گئی ہے۔ آج نواز شریف جب یہ کہتے ہیں کہ وہ قائد کے پاکستان، آئین قانون، جمہوریت پارلیمنٹ کی بالادستی اور عوام کے حقِ حکمرانی کا مقدمہ لڑنے جا رہا ہے تو وہ اسٹیبلشمنٹ کے بالمقابل پورے قد کے ساتھ جہاں حقیقی عوامی رہنما اور قومی قائد کی حیثیت سے کھڑا دکھائی دیتا ہے وہیں اس کے مخالفین اتنے ہی بونے دکھائی دیتے ہیں۔