جھل مگسی میں خود کش حملہ

October 07, 2017

جھل مگسی کے علاقے فتح پور میں صوفی بزرگ کے مزار پر جمعرات کے روز کئے گئے خود کش دھماکے میں پولیس اہلکاروں سمیت 22افراد کےجاں بحق ہونے اور 5خواتین اور ایک پولیس اہلکار سمیت 50زائرین کے شدید زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس درگاہ پر قبل ازیں 2005ء میں بھی خود کش دھماکہ ہوچکا ہے جس میں 100سے زیادہ زائرین شہید اور 200کے قریب زخمی ہوئے تھے جن میں سے درجنوں اب بھی اپاہج زندگی گزار رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے نتیجے میں شمالی و جنوبی علاقوں میں دہشت گردوں کی ان عملداریوں کا صفایا کر دیا گیا ہے جن کےلئے اسرائیل ، بھارت اور ان کی سرپرست قوتوں کی پشت پناہی کے بارے میں بھی اب کوئی شبہ نہیں جبکہ کراچی، لاہور، کوئٹہ اور دوسرے بڑے شہروں میں بھی ان کے لئے کارروائیاں کرنا آسان نہیں رہا ۔ عام لوگوں میں خوف کی کیفیت پیدا کرنے کے لئے غیر ملکی ایجنٹ اور ان کے تیارکردہ کرائے کے لوگ اب دوردراز اور کچے کے علاقوں کی درگاہوں اور مقدس مقامات کو پھر سے ہدف بنا رہے ہیں۔ غیر منقسم ہندوستان کے آخری دنوں اور قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں جنگ عظیم کے اثرات کی وجہ سے ہر بڑے اور چھوٹے شہر، قصبے اور گائوں میں شہری دفاع کا ایسا جال پھیلا ہوا تھا جس میں اسکولوں، مدرسوں اور محلوں کی سطح پر نہ صرف بوائے اسکائوٹ اور گرلز گائیڈ تیار کی جاتی تھیں بلکہ شہری دفاع کی تنظیمیں قائم کرکے لوگوں کو اپنے علاقوں میں مشکوک افراد کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے اور ہنگامی حالات میں آگ بجھانے، فرسٹ ایڈ دینے، خطرات میں گھرے ہوئے لوگوں کی مدد فراہم کرنےکی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعداور خصوصاًپچھلے سولہ برسوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میں مذکورہ نوعیت کے اقدامات ہر ضلع، تحصیل، قصبے اور گائوں تک موثر بنانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ اس ضمن میں ملک گیر سطح پر ایک جامع پالیسی بنانے اور اسے وسیع پیمانے پر روبہ عمل لانے کی ضرورت ہے۔