Disgraced

October 08, 2017

انتہا کی سماجی پسماندگی سے برآمد ہونے والی ’’ن‘‘ لیگی جمہوری ماڈل کی پیروی میں نااہل وزیراعظم کی روانگی سے قبل انہیں عدالتی فیصلے کو زائل کرنے کےلئے سراپا غیرجمہوری قانون سازی کرکے ان کو دوبارہ سےپارٹی کا قائد بنانے کی جو ’’دھما چوکڑی‘‘ ہوئی بین الاقوامی میڈیا میں اس کا ترجمہ Disgraced ہوا ہے جس کا ذریعہ ابلاغ ایسوسی ایٹ پریس آف امریکہ جیسی چوٹی کی نیوز ایجنسی ہےاس کی فراہم کردہ خبر واشنگٹن پوسٹ اور برطانیہ کے ٹائم جیسے اخبارات کے علاوہ نہ جانے دنیا کے کن کن ذرائع ابلاغ عامہ (ٹی وی، ریڈیو چینلزاور اخبارات) میں جگہ اور وقت لے گئی ہوگی کہ محتاط اندازہ ہے کہ اے پی جیسی قد آور نیوز ایجنسی کے کلائنٹس کی تعداد ہزاروں میں نہیں تو سینکڑوں میں تو ضرور وگی۔ اگر ایک دو فیصد نے بھی اپنے اپنے ناظرین، قارئین اور سامعین کے لئے منتخب کرلیا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ زیرعتاب ن لیگی شاہی خاندان کے دربار عام (جنرل کونسل) میں پارلیمنٹ کی شرمناک کالی قانون سازی کے سہارے نااہل وزیراعظم کی کھوئی ہوئی جس پارٹی قیادت کو بحال کیا گیاہے۔،وہ دنیا جہان میں پاکستانی جمہوریت کی رسوائی کاذریعہ بن گئی۔ واضح رہے کہ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق Disgraced کا مطلب ’’بدنام‘‘ اور Disgracefull ذلت آمیزہے۔ اب اندازہ لگا لیں کہ کس طرح عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل ہونے والےوزیراعظم کو شاہ کا درجے دینے والے حکومتی قانون سازوں نے کالی قانون سازی کرکے آئینی منطق پر مبنی قانون سازی کو ٹھکانے لگا کر انہیں دوبارہ سے پارٹی قیادت کی اہلیت کی راہ نکال کر ’’دربار عام‘‘ میں اس کی خوشامدانہ تائید کرکے انہیں دوبارہ سے جس طرح پارٹی قیادت سونپی ہے، وہ دنیا میں پاکستانی جمہوریت کے لئے کتنا بڑا سامان رسوائی بنا ہے۔ جنرل باڈی کایہ ’’کارنامہ‘‘ جمہوریت کے مسلمہ اصول اور بنیادی فلسفے سے متصادم اور کسی بھی حقیقی جمہوری معاشرے میں شرمناک سمجھا جانے والا انتہا کا چھچھورا اقدام ہے۔ یہ درباری چھچھورپن جواصل میں اس ملغوبے کا ایک غالب عنصر ہے جسے ’’آئین نو‘‘ میں سماجی پسماندگی قرار دے کر عوام الناس کو سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی جارہی ہے کہ ہماری سیاست میں اس سماجی پسماندگی کا غلبہ ملک و قوم کے لئے کس قدر مہلک ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سماجی پسماندگی ایک ایسی قوم میں کیسے داخل ہوگئی جس کو قوم منوانے کا سفر ایک یونیورسٹی کے قیام سے شروع ہوا تھا۔ ایک ایسی یونیورسٹی جس نےفرنگی راج کے بعد برصغیر کی نئی اور قبولیت عام پانے والی سیاست جاریہ کے عمل میں ’’دو قومی نظریے‘‘ جیسا تاریخ ساز بیانیہ جنم دیا جس کا حتمی نتیجہ قیام پاکستان کی صورت میں نکال۔ ہر دو یعنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام تا تشکیل پاکستان پورے سیاسی سفر میں اللہ کی کامل تائید کے ساتھ مسلمانان ہند کو سب سے بڑی معاونت پاور آف پین (زور ِ قلم) اور زور ِ خطابت (ابلاغ عام) سے ملی جو مسلمانوں کا علمی و ادبی قافلہ استعمال کرتا رہا۔ پھر حضرت قائداعظم جیسی دیانت دار اہل اور باوقار قیادت میں کیوں ممکن نہ ہوتا کہ وہ جو عظیم مقصد لے کر اپنی ذاتی زندگیوں سے کہیں آگے چل رہے ہیں، اس کے قومی سطح اور تاریخی نوعیت کے نتائج حاصل نہ ہوتے جاتے اور حتمی، قیام پاکستان۔
ایک ایسی قوم کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایسی قوم جس نے اقلیت میں ہو کر طاقتور اجنبی حکمرانوں اور مخالف اکثریت سے بالآخر منوالیا کہ ہم (مسلمان)برصغیر میں ہندوئوں کے مقابل ایک ا لگ قوم ہیں، اگرچہ خود ہندو سیاسی قیادت بھی اپنی مذہبی سیاسی جبلت کے ساتھ اس کی تصدیق کرتی جارہی تھی لیکن اگر وہ تنہا ہی اپنے تہذیبی، سیاسی تعصب کا مظاہرہ کرتی جاتی تو نتیجہ ’’پاکستان‘‘ کی صورت برآمد نہ ہوتا بلکہ سیکولر بنیاد پر ہندو غلبے اور مسلمانوں کی کم آئیگی کے ساتھ ہندوستان کی آزادی ہی نکلتا۔ مختلف اور حیران کن نتیجہ ’’ظہور پاکستان‘‘کی وجہ، واحد آل انڈیا مسلم لیگ کو حاصل قائد اعظم کی باکمال قیادت اور مسلمانوں کے کارواں علم و قلم و خطاب کی جہد مسلسل بنی۔ یہی کچھ مقاصد کے مطابق تعمیر پاکستان کے لئے دو بڑے ان پٹ مطلوب تھے، یہ قیام پاکستان پر اور اس کے پہلے عشرے میں موجود تھے لیکن نئی صورتحال میں جبکہ ہم آزاد وطن کے مالک ہوگئے اور اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ اداروں پر مبنی جمہوری سیاست کا تجربہ کرنے لگے۔ انتظامی طاقت کا جو خلا، فرنگی راج کے خاتمے سے پیدا ہوا تھا، وہ اس افراتفری، لالچ، خود غرضی، سازشوں، گٹھ جوڑ اور نااہلی و فقط وفاداری و کنبہ پروری جیسے سماجی پسماندگی کے گارے سے بنتی بڑھتی سماجی پسماندگی سے پُر ہونے لگا جس میں ادارے آئین و قانون علم کی طاقت کم اہم اور سماجی پسماندگی غلبہ پانے لگی جو آج جسٹس منیر کے تباہ کن فیصلے، ایوبی مارشل لاء فرد واحد کے آئین، پھر مارشل لاء، سقوط ڈھاکہ، بھٹو دور کی سول فسطائیت، ضیائی مارشل لاء،سول، ملٹری حکومتوں جیسے ڈیزاسٹرز(جن میں حکومتوں میں طبقاتی غلبہ کبھی جرنیلوں، جاگیرداروں، کبھی تاجروں اور کبھی مولویوں کا ہوتا رہا) مطلوب علمی معاونت فراہم کرنے والی حقیقی اشرافیہ کونوں لگتی رہی اور نااہلیت اقتدار کے ایوانوں اور ریاستی اداروں میں تیزی سے جگہ بناتی رہی۔ یہ ہے وہ سیاسی سماجی پسماندگی جو بالائی سطح سے نیچے گلی محلوں میں سرایت کرکے موجودہ اسٹیٹس کو کی طاقت بنتی گئی۔ آج اس کی دیدہ دلیری کا عالم یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور احتساب عدالتوں میں’’شاہی خاندان کی پیشیوں کے دوران ن لیگی اپر حرارکی نے اس کا دھڑنگ مظاہرہ اپنے جلسے، پریس کانفرنسیں اور میڈیا ٹاک کے تماشے، ڈرامے کر کے کیا۔ نا اہل وزیراعظم کی نامزدگی سے نئی وزارت عظمیٰ اور کابینہ کی تشکیل، حلقہ 120کے ضمنی انتخاب میں وفاقی، صوبائی حکومتوں اور لاہور شہر کے سرکاری اداروں کی ’’ترقی‘‘ کے نام پر دھما چوکڑی، پارلیمنٹ میں نا اہل وزیراعظم کو دوبارہ پارٹی قیادت سونپنے کے لئے ’’کالی‘‘ قانون سازی۔ پھر عدلیہ اور بڑے مکارانہ انداز میں مقتدرہ ریاستی اداروں سے محاذ آرائی کو اپنی ’’حکمت عملی‘‘ قرار دینا، اور بندر بانٹ سسٹم کے چھوٹے بڑے بینی فیشریز کو محاذ آرائی جاری رکھنے کی ڈیوٹی دے کر خود فراہمی انصاف کے آئینی عدالتی عمل کو للکارتے ہوئے لندن کھسک جانا سماجی پسماندگی کی انتہا ہے۔ یہ جمہوری عمل کو اپنے ڈھپ پر ڈالنے اور آئین و قانون کی خود اور مطلب کی تشریح کرتے عوامی مجموں کی طاقت سے اسے نافذ کرنے اور حائل ریاستی رکاوٹوں سے لڑنے بھڑنے کے مترادف ہے، جو یقیناً انارکی کو جنم دے گی۔ یہ کتنی بڑی سیاسی بلیک میلنگ ہے کہ ہمارے انداز سیاست اور جمہوریت کو مانو جس کا حاصل خاندانی جمہوریت، پاناما لیکس، عالمی میڈیا میں Disgraced کے سمجھی جانے والی سیاستہے کو مانو ، قومی خزانے کی لوٹ مار کو جیسے ہم کہہ رہے ہیں ہمارا جدی کاروبار اور اس کا منافع ساتھ ہماری تضاد بیانی سے ہمارے درباریوں کی طرح نظریں چرائو وگرنہ ’’سقوط ڈھاکہ‘‘۔ یہ نہیں جانتے کہ کہاں سقوط ڈھاکہ کی صورتحال اور اس کا سیاسی و جغرافیائی پس منظر اور کہاں موجودہ صورتحال جس میں پاکستان میں جمہوری عمل کا لازمہ ’’احتساب‘‘ آئین و قانون کی روشنی میں جگہ بنا چکا پھر افواج پاکستان ’’آئین و قانون‘‘ کی بالادستی کی تازہ اپروچ کو اپنا ہی نہیں چکی اپنی بنیادی اور روایتی دفاع و سلامتی کی 8انتہائی پیچیدہ ذمہ داریوں کو ادا کر کے اپنی پیشہ واریت کو دنیا سے منوا کر اپنے ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کر رہی ہے۔ عدلیہ، جسٹس منیر کورٹس کے تباہ کن فیصلے سے لے کر فرینڈلی اور قیومی فیملی کورٹ سے ڈوگر کورٹ کے کفر کا کفارہ ادا کر رہی ہے اور سیاسی سماجی پسماندگی کی بھڑکتی طاقت کو ملکی آئین و قانون کے مقابل کسی خاطر میں نہیں لا رہی ایسے میں دیکھنا ہے کہ عوامی پیسے پر چلنے والا ن لیگی میڈیا سیل عرف ڈان لیکس، عالمی میڈیا کے Disgracedپر کیا رسپانس کرتا ہے، ابھی تک پھرتیلے میڈیا سیل کا کوئی رسپانس آیا نہ مریم بی بی کا ۔انتظار رہے یا سمجھ لیا جائے کہ الخاموشی نیم رضا۔