بینظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے تعلقات ۔کچھ حقائق

October 13, 2017

میرا اس سلسلے کا پہلا کالم پچھلے ہفتے شائع ہوا تھا، اس کالم کا عنوان تھا ’’کیا بینظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے تعلقات کشیدہ رہے؟‘‘میں نے اس کالم میں بھی اس بات کی وضاحت کی تھی کہ مجھے اس موضوع پر اس وجہ سے کالم لکھنا پڑرہا ہے کہ کئی سیاسی اور صحافتی حلقوں میں اس سلسلے میںجو تاثر قائم ہے وہ کافی حد تک درست نہیں ہے۔ پچھلے کالم میں، میں نے محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ میر مرتضیٰ بھٹو کی انسیت اور اپنے پن کے بارے میں ایک واقعہ بیان کیا تھا۔ اس کے بعد میں میر مرتضیٰ بھٹو کے بارے میں محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ اپنےمکالمے کا ذکر کررہا تھا تو کالم کیلئے اخبار میں مخصوص Space ختم ہورہی تھی۔ لہٰذا مجھے بات وہیںختم کرنی پڑی۔ اس کالم میں اس مکالمے کی تفصیلات شامل کررہا ہوں۔مگر اب چونکہ مجھے نہ فقط اس سلسلے میں ایک اور کالم لکھنا پڑرہا ہے بلکہ شاید ایک دو اور کالم لکھنے پڑیں۔ میں چاہوں گا کہ یہ جو محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں کئی حلقوںمیں غلط فہمی پائی جاتی تھی کہ ان کا انداز ڈکٹیٹر والا تھا تو میں ان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے حوالےسے وضاحت کرتا چلوں کہ یہ تاثر غلط اور غلط فہمی پر مبنی تھا۔ اس مرحلےپر میں یہ بتاتا چلوں کہ محترمہ سے میری ون ٹوون ملاقاتیںتین بار ہوئیں اور ان تینوں ملاقاتوںکا اہتمام خود محترمہ نے کیا تھا۔میں یہ بات بھی بتاتا چلوںکہ ان تینوں ملاقاتوںمیں، میں ان کی حکومت، ان کی پارٹی اور ان کی اچھی باتوںاور اچھے فیصلوںکا ذکر کرنے کی بجائے ان کی ان باتوں اور فیصلوں کا ذکر کرتا تھا جن پر مجھے اور شاید عام لوگوںکے بھی کسی حد تک کچھ تحفظات ہوتے تھے۔ میںنے ان ملاقاتوںمیںان کےایسے فیصلوں اور ان کی ایسی باتوں پر انتہائی Humble انداز میں ہی صحیحمگر اپنے اعتراضات ریکارڈکرائے۔ خدا جانتاہے کہ ملاقاتوں کے دوران میری ان باتوں میں سے کسی پر بھی انہوں نے ایک بار بھی برا نہیں منایا بلکہ ہنس کر اپنا موقف سامنے رکھا۔ حالانکہ وہ ملک کی وزیراعظم رہیں، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی سربراہ کے علاوہ وہ سندھ کے ایک انتہائی بڑے خاندان کی فرد تھیں اور برطانیہ اور امریکہ کے اعلیٰترین تعلیمی اداروںمیں تعلیم حاصل کرچکی تھیں۔ ان کے سامنے میری کیا حیثیت تھی؟میںایک غریب صحافی مگر ناراض ہونے کی بجائے انہوںنے میرے ساتھ ہمیشہ اچھاسلوک کیا۔ وہ مجھے ’’فیملی فرینڈ‘‘ یا ہمارے ’’خیرخواہ‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتی تھیں۔ میںنے پچھلےکالم میں لکھا تھا کہ سانگھڑکے اسٹیڈیم میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد جب نیچےوہ ایک بڑی گاڑی میں وہاں سے ہیلی پیڈ کی طرف روانہ ہورہی تھیں تو انہوںنے سانگھڑ پی پی کے رہنما عبدالسلام تھیم اور اس وقت ان کے دست راست مرحوم منور سہروردی کو اوپر بھجوایا اور جنہوں نےپیغام دیا کہ محترمہ نیچے گاڑی میںانتظار کررہی ہیں۔ آپ محترمہ کے ساتھ ہیلی پیڈتک چلیں تاکہ گاڑی میں وہ آپ سے کسی خاص ایشو پر بات کرسکیں۔ دراصل ان دنوں میں نے فرنٹیئر پوسٹ میں تین Portrait لکھےتھے۔ ایک محترمہ پر لکھا تھا، ایک میر مرتضیٰ بھٹو پر اور ایک آصف زرداری پر لکھا تھا۔ میر مرتضیٰ بھٹو پر لکھے گئےپورٹریٹ میں، میں نے میر صاحب کو یہ تجویز دی تھی کہ جس طرحہندوستان میں اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی کے چھوٹے بھائی سنجے گاندھی کانگریس کے یوتھ ونگ کو آرگنائز کررہے تھے۔ اسی طرح وہ بھی پاکستان لوٹنے کے بعد پیپلزپارٹی کے یوتھ ونگ کو آرگنائز کرنے کی ذمہ داری سنبھالیں۔ محترم آصف زرداری کے بارے میں لکھے گئے پورٹریٹ میں، میں نے ان کو تجویز دی تھی کہ وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت میںان کا وہ کردار ہونا چاہئے جو اس وقت برطانیہ کی رانی کے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا کا تھا۔ جہاں تک محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میںلکھے گئے پورٹریٹکا تعلق ہے تو اس میں دیگر باتوںکے علاوہ ان کی شادی کےبارے میں بھی کچھ لکھا تھا۔ جب میں نیچے پہنچا تو محترمہ اگلی سیٹپر بیٹھی تھیں، پچھلی سیٹپر مجھے بٹھایا گیا، جب گاڑی چلی اور محترمہ بات کرنے لگیں تو مجھے وہ کسی حد تک دکھی لگیں۔ انہوںنے میری طرف دیکھتےہوئے کہا کہ مغل صاحب، جب آپ میرے بارے میںیہ پورٹریٹ لکھ رہے تھے تو کاش اس سے پہلے آپ مجھ سے بات کرتے تو میں شادی کے حوالے سے کہتی کہ میرے لئے شادی اس وجہ سے بھی ضروری تھی کہ میرا اپنا گھر بھی ہو۔ میں سمجھ گیا کہ وہ یہ بات کیوںکررہی تھیں۔ دراصل ان دنوںجب وہ ایک بار بیگم بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو سے ملنے کیلئے لاڑکانہ میںبھٹو خاندان کی رہائش گاہ ’’المرتضیٰ‘‘ پہنچیں تو انہیں وہاں آنے نہیں دیا گیا اور انہیں مرتضیٰ بھٹو کے کارکنوں کے زوردار منفی نعروں کا سامنا کرنا پڑا اوروہ واپس لوٹآئیں۔ اب میںاس سوال کا ذکر کروںگا جو میںنے ہیلی پیڈ پر پہنچنے کے بعد اس وقت کیا۔بشمول آصف زرداری سارا مجمع محترمہ کی ہدایات کے تحت پیچھے ہٹ گیا تھا،صرف ہم دونوں کھڑے تھے۔ محترمہ بات کا انتظار کررہی تھیں مگر میرے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی۔ محترمہ کو کہنا پڑا کہ مغل میںآپ کی بات کی وجہ سے رک گئی ہوں، ہمارے پاس وقت بہت تھوڑا ہے، ہمیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے مورو پہنچ کر وہاںآصف زرداری کی حمایت میںجلسہ عام سے خطاب کرنا ہے۔ آخر میں نے ہمت کرکے ان سے سوال کیا، نہ فقط سوال ترش تھا مگر میرا لہجہ بھی کسی حد تک سخت تھا۔میں نے ان سے انگریزی میں سوال کیا کہ محترمہ، میںآپ سے یہ معلوم کرسکتا ہوں کہ آپ کی پارٹی لاڑکانہ کی صوبائی نشست کیلئےہر ’’ایرے غیرے نتھو خیرے‘‘ کو ٹکٹدیتی ہوئی نظر آرہی ہے، اگر آپ کی پارٹی کے پاس ٹکٹنہیں ہے تو آپ کے خونی رشتے کے بھائی میر مرتضیٰبھٹو کیلئے نہیں ہے جبکہ آپ دونوںکا باپ بھی ایک اوروالدہ بھی ایک۔ میں یہ سوال تو کر بیٹھا مگر ساتھ ہی مجھے احساس بھی پیدا ہوا کہ مجھے ایسا سخت سوال ایسے سخت لہجے میں نہیںکرنا چاہئے تھا۔ جواب میںمحترمہ نے غصے میںآنے کی بجائے حیرت زدہ ہوکر کہا آپ بھی ایسا سمجھتے ہیں۔ میں نے کہا ’’محترمہ خدا جانتا ہے کہ یہ میری ایماندارانہ رائے ہے۔‘‘اس مرحلے پر مجھے محترمہ کی آنکھوںمیں آنسو تیرتے ہوئے نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ مغل میں میر کی بڑی بہن ہوں، جب سے وہ پاکستان لوٹے ہیں،ہر ’’ایرے غیرے نتھو خیرے‘‘ کو فون کررہے ہیں، فون نہیںکررہے ہیںتو اپنی بڑی بہن کو، اس کے بعد انہوںنے انتہائی دکھ بھرے انداز میں اس سلسلے میں اور بھی وضاحتیں کیں۔ اچانک وہ چند سیکنڈ کیلئے خاموش ہوکر مجھے گھورنے لگیں اور پھر کہا اچھا، مغل میرے اور میر کے درمیان آپ Mediate کرائیں۔ یہ سن کر مجھے اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔