اسلامی ممالک … کتنے اسلامی ہیں …؟ ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار

October 20, 2017

سوشل میڈیا میں جہاں ان دنوں بہت سی خرافات اور فضول سی چیزیں گردش کررہی ہوتی ہیں وہاں بعض اوقات ایسی خبریں اور رپورٹیں بھی مل جاتی ہیں جو انتہائی معلوماتی ہوتی ہیں۔ تاہم ان اچھی چیزوں کو ڈھونڈنے کے لیے سارے سوشل میڈیا کو کھنگالنا پڑتا ہے، جس کے لیے اس دور میں کم از کم میرے پاس تو اتنا زیادہ وقت نہیں ہے۔ اس لیے میں زیادہ تر ان گروپوں کے وٹس ایپس دیکھتا ہوں جن پر مجھے پورا اعتماد ہوتا ہے۔ ولزڈن لندن کے پاکستان سینٹر کے چیئرمین طارق ڈار صاحب بھی اکثر معلوماتی چیزیں بھیج دیتے ہیں اور ان کی جانب سے مجھے کل جو وٹس ایپ ملا اس کا عنوان تھا۔ ’’اسلامی ممالک کتنے اسلامی ہیں۔‘‘ یہ سرخی دیکھ کر پہلے تو میں چونکا اور پھر میری حیرت میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب ان کی جانب سے بھیجے گئے آرٹیکل میں نیوزی لینڈ کو بہترین اسلامی ملک قرار دیا گیا تھا۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر حسین عسکری کے لکھے ہوئے اس تحقیقی مکالے میں208ممالک کے اسلامی ہونے کا جائزہ لیا گیا تھا جس میں حیرت انگیز طور پر پاکستان کا نمبر 145تھا۔ جبکہ سعودی عرب اسلامی ملک کے اعتبار پر231 نمبر پر دکھایا گیا ہے۔ ملائیشیا وہ واحد اسلامی ملک ہے جو 33ویں نمبر پر ہے جبکہ دو سے سات تک بالترتیب لکسمبرگ، آئر لینڈ، آئس لینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک اور کینیڈا کو رکھا گیا ہے۔ ایران نژاد سکالر حسین عسکری اور ان کے شریک سکالر کی اس ریسرچ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ترتیب ان ممالک میں اسلامی اقدار کے عملی طور پر لاگو ہونے کی وجہ سے لگائی گئی ہے۔ اس ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر اسلامی ممالک میں اسلامی اقدار کو تو اپنایا نہیں جاتا بلکہ ساری توجہ مذہبی ذمہ داریوں کو ادا کرنے پر دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق کو تو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر انسانوں کے حقوق کو ذرا برابر بھی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ان اسلامی ممالک میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھی جو سلوک کیا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پاکستان میں ایسے کئی کیس سامنے آئے ہیں کہ محض مالی مفاد، زمینوں اور جائیدادوں پر قبضے کے لیے مذہبی اقلیتوں پر توہین رسالت کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ جس کا جتنا زور چلتا ہے وہ لوٹ مار کرتا ہے۔ رمضان المبارک میں اشیائے خوردونوش کی ذخیرہ اندوزی اور منہ مانگی قیمتیں مانگنا معمول بن گیا ہے۔ سیکرٹریٹ کا کلرک بابو ہو، کچہری کا ریڈر، پٹواری یا پھر تھانیدار، سب اپنی اپنی جگہ کرپشن میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انسانی حقوق صرف امیروں کے لیے ہیں۔ غریبوں کو دھتکاریں ملتی ہیں۔ ایسے میں اگر حسین عسکری نے مغربی ممالک کو حقیقی اسلامی مالک قرار دیا ہے تو کوئی برا نہیں کیا۔ بلکہ گلوبل اکنامی جنرل میں شائع ہونے والے اس آرٹیکل کو تفصیل کے ساتھ پڑھا جانا ضروری ہے، کیونکہ اس میں اسلامی ممالک اور مسلمانوں کے اندر پائی جانے والی خامیوں اور مغربی ممالک کی خوبیوں کو ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سارے اسلامی ممالک اور سارے مسلمان خراب نہیں بلکہ ان میں بہت سے اچھے ملک اور مسلمان بھی ہیں، مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کئی اسلامی ممالک کا انسانی حقوق سمیت بہت سے معاملات میں ریکارڈ اچھا نہیں جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کے باوجود اللہ سے نہیں ڈرتی اور ہر وہ فراڈ کرتی ہے جس کو اسلام میں ناپسند کیا گیا ہے۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں امن، اخوت، بھائی چارہ، ایثار و قربانی، یتیموں، غریبوں، ناداروں، اقلیتوں، ہمسایوں اور پسماندہ رشتہ داروں کا خیال رکھنے کو کہا گیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم ان باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ کیا ہماری بخشش صرف اس وجہ سے ہوجائے گی کہ ہم زکوٰۃ دیتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں، مگر حق داروں کو ان کا حق نہیں دیتے، دن میں ہزاروں مرتبہ جھوٹ بولتے ہیں اور دوسری برائیوں میں ملوث ہیں۔ شاید اسی لیے مغرب کے ایک نامور سکالر برنارڈ شا کا کہنا ہے کہ ’’اسلام دنیا کا بہترین مذہب ہے، مگر مسلمان اس کے بدترین پیروکار ہیں۔‘ ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ یہ کیوں کہا گیا کہ پاکستان145اور سعودی عرب131ویں نمبر پر ہے؟