ملک کا سیاسی مستقبل اور سازشی تھیوریاں

October 30, 2017

میں ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا کہ پاکستان میں آج تک جتنے بھی وزیرخزانہ گزرے ہیں اُن میں سے اکثریت کاتعلق مڈل کلاس سے تھا اور موجودہ وزیر خزانہ تو لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے لیکن جونہی وہ وزارت خزانے کے عہدے پر آئے ،اتنے مالدار ہوئے کہ پھر مڑ کے نہیں دیکھا کہ وہ چھوٹی سی کمپنی میں ملازم تھے چونکہ اس کمپنی کے مالک نے زمانہ طالب علمی میں انکی مالی امداد کی اور پھر اسی کمپنی کے مالک نے شریف فیملی سے متعارف کروایا اور شریف فیملی کے اثاثوں کی بڑھوتی میں ایسا کردار ادا کیا کہ نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے تو تینوں مرتبہ اسحاق ڈارکو وزیر خزانہ چنا گیا ۔ آج کل اسحاق ڈار نیب میں اپنی آمدنی سے زیادہ 90 کروڑ روپے کے اثاثہ جات کے ریفرنس کیس میں تاریخیں بھگت رہے ہیں ۔ ان پر مبینہ طور پر الزام ہے کہ انکی پراپرٹی نہ صرف پاکستان میں بلکہ لندن اور دبئی میں بھی ہے اور وہاں ان کے بڑے بڑے پلازے ، ٹاور اور دنیا کی مہنگی گاڑیوں کو کرائے پر دینے کا شو روم بھی ہے۔ گزشتہ ادوار میں بھی مڈل کلاس وزیرخزانہ گزرے ہیں جن پر کرپشن کے الزامات لگے مثال کے طور پر ایوب دور میں شعیب نامی وزیر خزانہ پر ذوالفقار علی بھٹو نے الزام لگایا ۔ ضیاء الحق دور میں مخدوم شہاب الدین وزیر خزانہ تھے گو یہ اچھے خاندان سے تعلق رکھتے تھے مگر ان پر بھی گرین ٹریکٹر اسکیم کے حوالے سے الزام لگا اور آج تک کیس بھگت رہے ہیں ۔ جنرل (ر) مشرف کا مارشل لالگا تو ان کے پہلے وزیر خزانہ شوکت عزیز تھے جنکا سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گائوں سے تعلق تھا ۔ سٹی بنک میں ملازم ہوئے،پھر ترقی کرتے کرتے امریکہ جاپہنچے وہیں سے آکر وزیرخزانہ اور بعد میں وزیراعظم بنے۔ انہوں نے ڈاکٹر حفیظ شیخ اور سلما ن شاہ کو اپنا وزیر خزانہ بنایا ۔پی ٹی سی ایل کی نجکاری میں کرپشن اور حبیب بنک کی نجکاری میں کی گئی کرپشن میں انکے نام آتے رہے لیکن کہا جاتا ہے کہ کرپشن میں اسحاق ڈار نے تو انتہا ہی کردی ہے۔
کچھ عر صے سے اسٹاک ایکسچینج مسلسل مندی کا شکار ہے۔ کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں ہر بزنس مین اور عام پاکستانی ایک غیر یقینی اور غیر محفوظ صورتحال کا شکار ہے۔ جب ایسے حالات ہوتے ہیں تو افواہیں بھی گردش کرنے لگتی ہیں۔ ان افواہوں نے ملک کی معاشی صورتحال پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں ۔ ایسی صورت میں مختلف مد میں ٹیکسوں کا بوجھ بھی عوام پر ڈالا جارہا ہے۔ ہر کوئی دوسرے سے یہی سوال کر رہا ہے کہ اب کیا ہوگا ؟ کیا مارشل لا آئیگا ؟ کیا قومی حکومت بنے گی یا ٹیکنو کریٹس کے حوالے حکومت کر دی جائیگی ؟ الیکشن ہونگے یا نہیں ؟ اگر ہوںگے تو کیا پرانی ووٹروں فہرستوں اور حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہوںگے؟ ملک میں نئی مردم شماری ہوچکی ہے کیا آئینی تقاضا نہیں کہ نئی حلقہ بندیاں اور ووٹر فہرستیں تیار کی جائیں؟ اگر انہیں حالات میں الیکشن ہوتے ہیں تو پھر کبھی بھی مثبت تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی ؟
اس وقت مختلف سازشی تھیوریز زیر گردش ہیں ۔ پہلے تو یہ ڈرامہ سامنے لایا جاتا رہا کہ شریف فیملی کے اندر بہت زیادہ اختلافات ہیں اور کسی وقت بھی شہباز شریف پارٹی ٹیک اُوور کر لیں گے ۔ پھر یہ سوال سامنے آیا کہ بہت سے لوگ تو شہباز شریف کو پسند نہیں کرتے اور قیادت کسی اور کو دینے کی بجائے سابق نااہل وزیر اعظم نواز شریف کو پارٹی سربراہ بنانے کیلئے قانون سازی کی جائے ۔ اچانک سینیٹ سے بل پاس کروایا پھر قومی اسمبلی سے دوبارہ پاس کروانے کے فوراً بعد صدر ممنون حسین سے دستخط کروائے گے اور پارٹی آئین میں بھی تبدیلی کر کے نااہل نواز شریف کو پارٹی کا سربراہ بنادیا گیا ۔ ایک یہ تھیوری بھی سامنے آئی ہے کہ پی پی اور ن لیگ کے درمیان ’’ میثاق مفادات‘‘ کے تحت یہ بل پاس ہوا ،گو پیپلز پارٹی اسکی تردید کرتی ہے اور اس نے شدت کے ساتھ ن لیگ کیخلاف مہم شروع کر رکھی ہے تاکہ فرینڈ لی اپوزیشن کے تاثر کو کسی طرح کم کیا جاسکے ۔ن لیگ اداروںکے خلاف مہم جوئی کو اپنی عافیت سمجھتی ہے اور مختلف طریقوں اور کارنرز سے اداروں کی توہین کو اپنے ’’منشور ‘‘کا حصہ بنا لیا ہے تاکہ لوگوں کی نظروں میں مظلوم بنا جا سکے کہ ہمارے او پرکرپشن کے بیانات جھوٹ کا پلندہ ہیں اور نیب میں سیاسی کیس چلائے جارہے ہیں ،اس تھیوری پر بھی متوازی عمل جاری ہے کہ اس وقت چالیس سے زیادہ ارکان قومی اسمبلی کا ایک علیٰحدہ گروپ بن چکا ہے اب اسکی کچھ آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں ۔ پہلی باضابطہ آواز ریاض پیرزادہ کی ہے اور یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ انکی تعداد 80کے قریب ہے۔ انکو ساتھ ملا کر مارچ سے پہلے یا تو تحریک عدم اعتماد لائی جائیگی یا نئے الیکشن کیلئے اسمبلیاں تڑوائی جائینگی۔ دوسری طرف ق لیگ کے رہنما پرویز الٰہی نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے کہ یہ سب ارکان ان کیساتھ ہیں کسی وقت بھی سامنے لائے جا سکتے ہیں ۔ ایک اور تھیوری بھی چل رہی ہے کہ ن لیگ جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی کو ساتھ رکھنے کیلئے بڑی سنجیدگی سے علیحدہ صوبہ بنانے کی قانون سازی کروائے گی لیکن اس راستے میں بیوروکریسی تعاون نہیں کر رہی یا پھر خود اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کی طرف آ جائے تا کہ 40یا80ارکان کے فاروڈ بلاک کے حوالے سے خبروں کا دم نکل جائے۔ مگر دوسری طرف سے اس تھیوری پر کام ہورہا ہے کہ جب تک کے پی اور سندھ اسمبلی نہیں توڑی جاتی تو یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا ۔ اس تھیوری پربھی کام ہورہا ہے کہ الیکشن سے پہلے سب کا احتساب کیا جائے ، چاہے اس کیلئے 9سو دن لگیں۔ موجودہ حالات میں یہ تھیوری سب سے زیادہ زیر بحث ہے ۔ اس تھیوری کو عملی شکل دینے کیلئے ٹیکنو کریٹس پر مشتمل قومی حکومت کی ’’ ٹوٹی فروٹی‘‘ سب سے فیورٹ ہے۔ چونکہ چھوٹی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کو یہ یقین ہے کہ ایسے سیٹ اپ کی صورت میں اُنکو بھی تھوڑا سا حصہ مل جائیگا اور بڑی جماعتوں کے موجودہ منتخب ارکان کا خیال ہے کہ اُن کا بھرم قائم رہے گا اور وہ کسی نہ کسی صورت میں اقتدار میں رہیں گے۔ پیپلز پارٹی یہ یقین دہانی چاہتی ہے کہ ایک تو سندھ میں اُن کا بڑا حصہ قائم رہے اور وفاق میں بھی اُنکی جماعت کو تمام صوبوںسے نمائندگی مل سکے ۔ ایک دو اور تھیوریز بھی چل رہی ہیں کہ سندھ اور پنجاب میں نئے نام سے ’’سیاسی ٹوٹی فروٹی ‘‘ جماعت بنا کر ایک جیسی سوچ کے لوگوں کو تمام پارٹیوں سے نکال کر اکٹھا کیا جائے ۔ اسی طرح کے پی میں بھی ضرورت کے مطابق نئی صف بندی کرائی جائے ۔
ان سب کے ساتھ ساتھ ایک این آر او کی تھیوری پر بھی کام ہو رہاہے جس میں ملکی اور غیر ملکی مقتدر قوتیں بھی سرگرم ہیں اور خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ کچھ کچھ مائنس کر کے کچھ اور جمع کیا جائے ۔ لیکن ان تمام تھیوریز کی ’’ ماں تھیوری‘‘ یہ ہے کہ کسی جگہ پر بھی اتنی قوت اکٹھی نہ ہوجائے کہ اس کی کانٹ چھانٹ کیلئے اس سے زیادہ قوت درکار ہو ۔ بیشک کل وزن 9من ہو مگر پانچ پانچ سیر سے بڑے ’’باٹ ‘‘نہ ہوں تاکہ جنکے ہاتھ میں ترازو ہیں اور جس پلڑے کا وزن برھانے کی ضرورت ہو تو آسانی سے بڑھایا یاکم کیا جاسکے ۔بس اب کیا ہوگا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور نہ ہی کوئی زیادہ وقت درکار ہے آنیوالے چند ہفتوں میں یہ تصویر واضح ہوجائیگی۔ بس دُعا یہ ہے کہ کوئی ایسی تھیوری کامیاب نہ ہو جس سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑجائے۔ ایسی کسی بھی تھیوری کو ناکام بنانے کیلئے چھوٹے اوزان ہی موثر ہو سکتے ہیں اب کسی بڑے ’’ باٹ‘‘ کاوزن بھی زیادہ نہیںہو گا!