دینا، جناح ملاقات۔ خواہش سے خواب تک

November 05, 2017

سچ تو یہ ہے کہ انسان خواہش اور خواب کے درمیان زندگی گزار دیتا ہے۔ نہ خواہش اس کے بس میں ہوتی ہے اور نہ ہی خواب۔ یہ عجیب و غریب، نہایت دلفریب اور انتہائی خوبصورت منظر تھا۔ میں نے کبھی خواہش اور خواب میں بھی اتنی خوبصورت جگہ کا تصور نہیں کیا تھا۔ ہر طرف سبزہ، رنگ برنگ پھولوں سے لدے پودے، موسمی و بے موسمی پھلوں سے جھکی ہوئی شاخیں، صاف شفاف پانی کی بہتی ندیاں۔ میں چلتا جارہا تھا تو دور ایک شخص نظر آیا۔ میں اس کی طرف کھینچتا چلا گیا۔ قریب گیا تو احساس ہوا کہ جب قدرت مہربان ہو تو انسان کو ظاہری و باطنی دونوں حسن عطا کر دیتی ہے ورنہ ایسا کم کم ہوتا ہے۔ ذرا آگے بڑھا تو غیر متوقع شخصیت کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا اور احتراماً میرے پائوں رک گئے۔ میرے سامنے ایک آرام دہ صوفے پر بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ تشریف فرما تھے۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی مسکرائے اور اپنے پاس بیٹھنے کی دعوت دی۔ میرے ہوش حواس تقریباً گم تھے اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کس مقام پر اور کہاں ہوں، جھجکتے ہوئے بیٹھا تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے ’’میں آج بہت خوش ہوں۔ ایک طویل عرصے کے بعد آج میری اکلوتی بیٹی دینا سے ملاقات ہوگی۔ وہ آرہی ہے اور تھوڑی دیر میں فاطی (مادر ملت مس فاطمہ جناح) بھی اس کے استقبال کے لئے آرہی ہیں۔ تم اس حسین مقام کی خوبصورتی میں کھوئے ہوئے ہو۔ تمہیں یاد ہوگا کہ عظیم روحانی، عبادت گزار اور مذہبی شخصیت پیر جماعت علی شاہ مجھے جلسوں میں ولی اللہ کہتے تھے تو مجھے اپنی کم مائیگی کے سبب اچھا نہیں لگتا تھا۔ مولانا اشرف علی تھانوی جیسی صاحب باطن، نیک اور عظیم روحانی شخصیت نے بھی خواب میں مجھے علماء اور مسیحا کی صف میں بیٹھے دیکھا تھا۔ میںایک گناہ گار انسان ہوں۔ اللہ پاک رحیم و کریم ہیں۔ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو ہندو کی غلامی سے نجات دلانے اور قیام پاکستان کے صلے میں مجھے یہ مقام ملا ہے۔ یہ سب میرے رب اور میرے آقا نبی کریم ﷺ کی عطا اور کرم ہے۔ میں نے کمزوری کے باوجود زندگی بھر ایمان کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا اور دینی تعلیمات کے تقدس کے لئے قربانی کرتا رہا لیکن میں نمائش اور ظاہر داری ناپسند کرتا تھا۔ ایمان کا رشتہ خالق و مخلوق کے درمیان ہے اور وہی نیتوں کا حال جانتا ہے۔
رتی میری پہلی محبت تھی لیکن میں نے دینی اصولوں کے مطابق اسے اپنانے کے لئے مسلمان ہونے کی شرط رکھی۔ الحمدللہ اس نے ممبئی کے امام مسجد مولانا نذیر صدیقی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، جس کی خبر اخبارات میں جلی حروف سے چھپی۔ تب میں نے اسے اپنےعقد میں لیا۔ 1918ء میں شادی کے ایک سال بعد ہماری اکلوتی بیٹی دینا پیدا ہوئی تو ہمارے گلستان میں بہار آگئی۔ حکمت ربی پر غور کرو کہ میری اکلوتی بیٹی چودہ اور پندرہ اگست 1919ء کی نصف شب دنیا میں آئی اور پورے 28برس بعد 14اور 15اگست 1947ء کی نصف قیام پاکستان کی صورت میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے میری سب سے بڑی خواہش پوری کی اور میرا علیٰ ترین خواب شرمندہ تعبیر کیا۔
پاکستان اللہ پاک کا مسلمانوں کے لئے عظیم ترین تحفہ اور قیمتی ترین انعام ہے جس کے حصول کے لئے میں نے گھریلو زندگی کی قیمتی محبتیں، صحت، بیٹی اور تمام مادی ومالی وسائل قربان کر دیئے۔ قیام پاکستان کا معجزہ ستائیسویں رمضان کی شب لیلۃ القدر کی رات رونما ہوا۔ زندگی کے بندھن سے آزاد ہو کر میں آج دینا (DINA)کا انتظار کررہا ہوں تو بہت خوش ہوں کیونکہ دینا میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ اس کی ماں دینا کی پیدائش کے تقریباً ساڑھے نو برس بعد چل بسی۔ ہم نے دینا کی پرورش اور تربیت پر بے حد توجہ دی اور اسے اتنا لاڈ پیار دیا جس کا تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ شادی اور دینا کی پیدائش سے لے کر اگلی دہائی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاست کا عرصہ تھا جس نے مجھے گھریلو زندگی کے لئے کم وقت دیا۔ ماسواء ان چار برسوں کے،جب 1930ء میں میں رائونڈ ٹیبل کانفرنس کیلئے لندن گیا اور پھر وہیں گھر خرید کر پریوی کونسل میں پریکٹس کرنے لگا۔ اس عرصے میں دینا کی پرورش اس کی پھوپھی فاطمہ کے حوالے تھی اور میں دینا کو خوب وقت دیتا تھا اور اس کی فرمائشیں پوری کر کے لطف اندوز ہوتا تھا۔ حالات نے پلٹا کھایا اور میں قوم کی خدمت کے جذبے سے ذاتی راحت، آرام اور عیش کی زندگی ترک کر کے 1934ء میں ہندوستان واپس لوٹ آیا کیونکہ مسلمان محرومیوں اور مایوسیوں کے ریگستان میں بھٹک رہے تھے اور انہیں ایک ایسے راہنما کی ضرورت تھی جو سب کچھ قربان کر کے اپنے آپ کو ان کے لئے وقف کر دے۔ دینا مجھے نہایت عزیز تھی لیکن مسلمانوں کا مستقبل اس سے بھی عزیز تر تھا۔ دینا زیادہ وقت اپنی پھوپھی کے پاس رہتی تھی۔ اسے زندگی کی تمام سہولتیں میسر تھیں اور اس کی ہر خواہش پوری کی جاتی تھی لیکن وہ اکثر شب و روز میری راہ تکتے تکتے سو جاتی کیونکہ میں مسلم لیگ کو منظم کرنے، عوام میں شعور بیدار کرنے اور ان کے لئے دن رات جہادمیں مصروف تھا اور سفر میں رہتا تھا اس دوران دینا اکثر اپنی نانی لیڈی پٹیٹ کے پاس چلی جایا کرتی تھی۔ نانی کا نواسی پر گہرا اثر بھی ہوتا ہے اور نانی یہ بھی نہ بھولی تھیں کہ ان کی بیٹی رتی نے ان کی مرضی کے خلاف جناح سے شادی کی تھی۔ چنانچہ نانی کی سوشل لائف میں دینا نوئل وادیا کی محبت میں گرفتار ہوگئی جو ایک پیدائشی رئیس پارسی تھا۔ بعدازاں اس نے عیسائیت قبول کرلی۔ جب مجھے علم ہوا کہ دینا ایک غیر مسلم سے شادی کرنا چاہتی ہے تو یہ میری زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا۔ میں نے اسےاس سے باز رکھنے کی پوری کوششیں کی اور سمجھایا کہ اسلام میں رشتے خون سے نہیں بلکہ مذہب سے بنتے ہیں۔ تم ایک غیر مسلمان سے شادی کرکے مرتد ہو جائو گی اور میرا تمہارا رشتہ ختم ہو جائے گا۔ میں نے دینا کو سمجھانے کے لئے مولانا شوکت علی کی ڈیوٹی بھی لگائی لیکن دینا اپنی ضد پہ قائم رہی۔ مجھے وہ رات نہیں بھولتی جب میں آخری دفعہ سمجھانے دینا کے بیڈروم میں گیا اور اسے کہا کہ ہندوستان میں لاکھوں مسلمان نوجوان تم سے شادی کو اعزاز سمجھیں گے تم کسی مسلمان نوجوان سےشادی کرلو ورنہ میرا تمہارا رشتہ ختم ہو جائے گا۔ مجھے دین رشتوں پر مقدم ہے۔ اس کا جواب تھا پاپا آپ نے بھی توایک پارسی لڑکی سے شادی کی تھی۔ میرا جواب تھا کہ میں نے اسے مسلمان کر کے شادی کی تھی۔ تم وادیا کو مسلمان کر لو۔ میں بخوشی اجازت دے دوں گا۔ میں دینا کو کمرے میں روتا ہوا چھوڑ آیا۔ 1938ء کے اوائل کی وہ رات میرے لئے حددرجہ کربناک تھی جس رات دینا نے وادیا سے چرچ میں شادی کی۔ میں اس رات بیمار پڑا تھا۔ پھر میرے اور میری بیٹی کے درمیان طویل دوریاں پیدا ہوگئیں۔ یہ صحیح نہیں کہ میں نے بالکل قطع تعلق کرلیا لیکن دلوں کے رشتے ٹوٹ گئے۔ طویل عرصے بعد ملاقات بھی ہو جاتی تھی، کبھی کبھا رخط کے ذریعے بھی رابطہ ہو جاتا تھا۔ ایک دو بار دینا اپنے بچوں کو بھی ملانے لائی۔ پاکستان کے قیام کی منزل قریب آرہی تھی تو وہ بہت خوش تھی اور مجھے فخر سے خطوط لکھا کرتی تھی۔
پاکستان بننے کے بعد میری علالت کے دوران دینا نے پاکستان آنا چاہا تو میں نے انکار کردیا۔ پھر وہ میرے جنازے پر ہی پہنچی اور میرے انتقال کے بعد اپنے انٹرویو میں بالکل درست کہا کہ بہت سے لوگ مجھ سے ملاقاتوں اور تعلقات کے دعوے کر کے من گھڑت واقعات لکھ رہے ہیں جو بالکل بے بنیاد ہیں۔ کچھ حضرات صدارتی نظام حکومت کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں۔ میں نے یہ فیصلہ دستور ساز اسمبلی پر چھوڑا تھا۔ اگر میں اس کے حق میں ہوتا تو اسمبلی کی کسی تقریر، انٹرویو یا جلسہ عام میں ضرور تجویز کرتا۔ میں نے پاکستان غریب مسلمانوں عوام کے لئے بنایا تھا نہ کہ جاگیرداروں، صنعت کاروں، گدی نشینوں اور عوام کا خون چوسنے والے کرپٹ سیاستدانوں کے لئے۔ میرے اسلامی جمہوری اور فلاحی پاکستان کے ستون قانون کی حکمرانی، معاشی و سماجی عدل، انصاف، کرپشن سفارش، نمود و نمائش اور وسائل کے ضیاع کا خاتمہ تھے۔ پاکستانی قوم کو علاقائی، مذہبی، لسانی اور گروہی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک متحد و مضبوط قوم بننا تھا اور دنیا میں نام پیدا کرنا تھا۔ ایسا نہیں ہوا لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ ضرور ہوگا۔ یہی پاکستان کا مقدر ہے۔
میں نے جہاں گھریلو زندگی کی محبتیں، صحت اور عیش و عشرت کی زندگی قوم کے لئے قربان کی وہاں اپنی زندگی بھر کی جمع کردہ پونجی بھی قوم کو دے دی۔ میری 1939ء والی وصیت دیکھو میں نے بہنوں، بھائی، بیٹی کو تھوڑا حصہ دینے کے بعد ساری پونجی کا زیادہ حصہ انجمن اسلام اسکول بمئی، عربیک کالج دہلی، علی گڑھ یونیورسٹی، اسلامیہ کالج پشاور، سندھ مدرسۃ اسلام کراچی وغیرہ کو دے دیا اور خود کو اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ بات کرتے کرتے قائداعظم رک گئے اور کہنے لگے دیکھو وہ دینا آرہی ہے۔ اللہ حافظ کہہ کر انہوں نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا تو میری آنکھ کھل گئی۔ بیدار ہوا تو ہوش و حواس ٹھکانے لگانے میں لمحے گزر گئے۔ اخبارات کی طرف لپکا تو پہلے صفحے پر یہ خبر پڑھ کر حیران ہوگیا کہ رات دینا۔ قائداعظم کی اکلوتی اولاد وفات پا گئیں۔ سچ پوچھیں تو میں ابھی تک خواہش اور خواب کے نشے میں ڈوبا ہوا ہوں اور قائداعظمؒ کے قرب کا لمس محسوس کررہا ہوں۔