حد ہوتی ہے مِی ٹو کہنےکی

November 10, 2017

آج کل دنیا میں "Me too"بہت ان ہے۔ کوئی عمر 40ہو کہ 70 بیان یہی ہے کہ میرے ساتھ جنسی طور پر ہراساں کرنے کا واقعہ دس دفعہ ہوا کہ چالیس دفعہ کوئی اپنا بچپنا یاد کر رہا ہے، کوئی جوانی، تو کوئی بڑھاپا۔ اب سب دنیا بھر میں شیخی میں آئے ہوئے ہیں۔ شاید کسی نے اس زمانے یعنی سو برس پہلے کی کہانیاں اور طلسمی قصّے نہیں پڑھے کہ لڑکی کو حاصل کرنے کیلئے کبھی جن کا سہارا لیا جاتا تو کبھی بادشاہ ایک حسینہ کو حاصل کرنے کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتا تھا پھر کبھی سسی پنوں کا قصّہ ہوتا تھا تو کبھی سوہنی مہینوال البتہ ان سب کہانیوں میں ہراساں کرنے کی فیشن ایبل اصطلاح استعمال نہیں کی گئی۔
جیسے جیسے میڈیا اور سوشل میڈیا نے چسکے لے کر بیان اقوال زریں ٹھہرا۔ پھر شیخی کہیں کہ حوصلہ پا کر لوگوں کی زبانیں کچھ زیادہ ہی کھل گئی ہیں۔ میں نے اور مجھ سی بڑی عمر کی خواتین جن میں گلزار بانو سب سے پہلی سیکریٹری خاتون تھیں۔ ہمارے زمانے میں تھوڑی سی یہ شائستگی ہوتی تھی کہ ہمارے کمروں کے سامنے پردے پڑے ہوتے تھے، اگر وزیر گزرتے ہوئے چپراسی سے پوچھ لے کہ کیا بیگم صاحبہ بیٹھی ہیں اور اگر وہ بات کہہ دے تو جواب آتا ’’میرا سلام بیگم صاحبہ کو پہنچا دینا‘‘۔ یا پھر خاندان میں چچا، ماموں یا دیور، جیٹھ کوئی ایسی حرکت کر ڈالتا تو بیدی صاحب جیسے بڑے لکھنے والے بات کو ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ کہہ کر خوبصورتی سے سمیٹ لیتے تھے۔ ٹرمپ کے زمانے تک آتے آتے سوشل میڈیا اور فحش فلموں جیسا ہو گیا۔ لغت بدل گئی۔ شرم و حیا کے الفاظ بے معنی ہو گئے۔
جو جتنا بے شرم اور بے حیا ہوا اتنا ہی بہادر اور جی دار کہلایا جانے لگا۔ ویسے تو ہمارے زمانے میں بھی نیت خراب رکھنے اور جھپٹا مارنے والے بہت طرح کے شکاری، اپنےاپنے مچان پر بیٹھے سوچ رہے ہوتے تھے کہ اگر ناکام بھی ہوئے تو کیا حرج ہے، ایک چال تو چل ہی دینی چاہئے۔ یہ نہ صرف دفاتر میں تھا بلکہ ادب خواتین صحافیوں، گانے والیوں اور فنکار خواتین کے ساتھ اگر کچھ نہیں تو افواہ کی صورت باتیں پھیلانے کی بڑی گنجائش تھی۔ کچھ مرچ مصالحہ لگا کر بات کو اور پھیلا دیتے، شرفا رعب ڈال کر اوچھوں کے منہ بند کرا دیتے تھے۔
اب جب سے فیس بک آئی ہے ہر روز آٹھ، دس ایسی میل ہوتی ہیں کہ میں آپ سے دوستی چاہتا ہوں۔ اب یہ تو وصول کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس میل کو دوستی کے زمرے میں رکھتا ہے کہ اس پر ہلّہ مچا دیتا ہے کہ Deleteکے خانے میں ڈال کر آگے بڑھ جاتا ہے۔
آ پ ایف ایم ریڈیو سن لیں، ٹی وی پر سوال، جواب جو کہ آپ کی ریٹنگ دکھاتے اور سب سے بڑھ کر کھانے پکانے کے چینل سنیں، زیادہ تر خواتین اور مرد یہی کہہ کر بات شروع کرتے ہیں کہ آپ اچھی لگ رہی ہیں۔ میں آپکو بہت پسند کرتا یا کرتی ہوں۔ اسکا اگر کوئی غلط مطلب نکالے تو دماغ اس کا خراب ہے۔ بھیجنے والے نے شاید محبت سے یا پھر عزت و احترام کے ساتھ یا پھر تنہائی سے تنگ آکر فون ملایا اور کہا ’’میں آپ سے بات کرنا چاہتا؍ چاہتی ہوں۔‘‘ ہمارے ملک کی مصیبتوں کا بھی سوچیں۔ لڑکے تو پھر بھی شام تک باہر رہنے کی اجازت لے سکتے ہیں، لڑکیوں کو تو یہ اجازت بھی نہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ایسی تنہائی کی شکار ہماری بیٹیاں کبھی کسی لائن مین کیساتھ پھنس جاتی ہیں، کبھی کسی غلط نمبر کے فون کو یہ کہہ کر بند نہیں کرتیں کہ چلو تھوڑی دیر کے لئے تفریح کرلیں۔ بات پھر پھیلتے پھیلتے کبھی بدنامی کے جال میں لڑکیاں ایسی پھنستی ہیں کہ کبھی غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں، کبھی پھندے سے لٹک جاتی ہیں اور کبھی چوہے مار زہر پی کر زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہیں۔ مرد بھی کبھی حیادار ہو تو وہ بھی مارا جاتا ہے ورنہ تو ہمارے بڑوں کی طرح کہہ دیا جاتا ہے ’مرد تو بے حیا پیدا ہوا ہے، گھوڑے کی طرح دولتی مار کر کھڑا ہو جاتا ہے۔‘ جو کچھ فون پر ہوتا رہا وہ اب سب کچھ فیس بک پر کسی کی تصویر کسی کے جسم پر لگا کر جو مرضی چاہو لکھتے رہو۔ کہتے ہیں کہ چور چوری سے جائے، مرد ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔ ویسے آج کل کی لڑکیاں اعتماد کو بھی غلط معنوں میں استعمال کر کے چالاکیاں دکھاتی ہیں۔افسوس یہ ہے کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کا قانون سارے ملکوں میں نافذ ہونے کے باوجود نافذ نہیں ہو رہا بھئی بچّو محبت کرو، ضرور کرو مگر اس میں دوسرے فریق کی عزت کا نام ہی محبت ہے، احترام ہے۔ اخبار ایک زمانے تک ایسی خبریں چھوٹے سے حاشیے میں اندر کے صفحات پر دیا کرتے تھے۔ اب ہیڈ لائن بننے لگی ہیں۔ خراب کیا ہوتا ہے، اخلاق، تہذیب اور شرافت، اس میں Me tooکہا جائے تو خوب۔