نواز شریف کوئی نظریہ نہیں ، مزاحمت کا بڑا نام ہیں ،تجزیہ کار

November 21, 2017

کراچی(جنگ نیوز)سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ نواز شریف نظریات کی نہیں مصلحت کی سیاست کررہے ہیں، نظریاتی آدمی کبھی خود کو نظریاتی نہیں کہتا ہے، نواز شریف نظریاتی ہوتے تو ماضی میں دباؤ پرنہ استعفیٰ دیتے اور نہ ہی ڈیل کر کے باہر جاتے، نوازشریف خود نظریہ نہیں البتہ ایک بہت بڑی نظریاتی پارٹی کے امین ہیں، نواز شریف پاکستان میں مزاحمت کا بہت بڑا نام ہے، نواز شریف کا نظریہ نظریہٴ اقتدار اور طاقت کا حصول ہے، عمران خان اور مولانا سمیع الحق میں صرف مولانا فضل الرحمن کی مخالفت ہی قدر مشترک ہے، مذہبی جماعتوں کا ووٹ نواز شریف سے ٹوٹ رہا ہے جسے عمران خان اپنی طرف کھینچنا چاہ رہے ہیں، پی ٹی آئی کو مولانا سمیع الحق سے اتحاد کا خیبرپختونخوا میں فائدہ ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار مظہر عباس، حفیظ اللہ نیازی، حسن نثار، امتیاز عالم، شہزاد چوہدری اور ارشاد بھٹی نے جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میزبان عائشہ بخش کے پہلے سوال مائنس نواز شریف کہنے والے سن لیں، نواز شریف ایک نظریے کا نام ہے، مائنس نہیں ہوسکتا، نواز شریف کا بیان، سابق وزیراعظم کا نظریہ ہے کیا؟ کا جواب دیتے ہوئے حسن نثار نے کہا کہ گوالمنڈی کے اس چی گویرا کے بہت سے نظریات ہیں، ان نظریات میں نظریہ جنرل جیلانی، نظریہ ضیاء الحق، نظریہ چھانگا مانگا، نظریہ پیلی ٹیکسی، نظریہ ایس آرا و، نظریہ سرور پیلس جدہ، نظریہ کک بیکس و کمیشن اور نظریہ پاناما اور پارک لین اہم ہیں، نواز شریف کے احمق اسپیچ رائٹر کو نہیں پتا کہ ماڈرن سیاسی سائنٹسٹ ان تصورات کو نظریہ اور نظریاتی کو احمقانہ تصور قرار دیتے ہیں۔حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ ایبٹ آباد میں نواز شریف کے جلسے میں عوام کی تعداد اور ان کا جوش بے مثال تھا، ایسے لمحات میں انسان اپنے آپ کوبہت بڑی چیز سمجھ رہا ہوتا ہے، نوازشریف خود نظریہ نہیں البتہ ایک بہت بڑی نظریاتی پارٹی کے امین ہیں، نواز شریف پاکستان میں مزاحمت کا بہت بڑا نام ہے۔شہزاد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف تصادم اور مفاہمت دونوں سے آگے بڑھ کر انتخابی مہم میں چلے گئے ہیں، انتخابی مہم میں جو بات بھی کردی جائے وہ چل جاتی ہے، نواز شریف انتخابی مہم میں خود کو نظریاتی کہہ رہے ہیں تو یہ ان کا حق ہے، نواز شریف آج تک اپنے اردگرد کوئی نظریہ نہیں بناپائے، نواز شریف کا نظریہ صرف طاقت کا حصول ہے، نواز شریف کے موجودہ دورِ حکومت میں جمہوریت جتنی کمزور ہوئی پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوئی، نواز شریف ووٹ کے تقدس کیلئے لڑنے کی بات کرتے ہیں لیکن خود ووٹ کے تقدس کو پامال کیا، نواز شریف غریب دوست بھی نہیں ہیں، ان کے تمام منصوبے بڑے انفرااسٹرکچر کے ہیں جس میں غریب کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا نظریہ صرف نظریہٴ اقتدار ہے، نواز شریف جس نظریے کا نام ہے اس کی تشریح سپریم کورٹ کرچکی ہے۔امتیاز عالم نے کہا کہ نواز شریف عملیت پسند سیاستدان ہیں اور عملیت پسندوں کا نظریہ واضح نہیں ہوتا، نواز شریف کا بہرحال سیاسی ارتقاء ہوا ہے، نواز شریف کا ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ سے جھگڑا ہوا ہے، نواز شریف عوامی حکمرانی کی بات کرتے ہیں مگر خود ان کے جمہوری رویے پر سوال ہیں، نواز شریف پنجابی سرمایہ دار طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ سے ماورا ہو کر اپنی ترقی چاہتا ہے۔ مظہر عباس نے کہا کہ نواز شریف نظریات کی نہیں مصلحت کی سیاست کررہے ہیں، نظریاتی آدمی کبھی خود کو نظریاتی نہیں کہتا ہے، نظریاتی لوگ نظریے کے گرد گھومتے ہیں نظریہ ان کے گرد نہیں گھومتا، نظریاتی لوگوں میں ’میں‘ نہیں ہوتی ،نواز شریف کی تقاریر اٹھالیں انہوں نے صرف اپنے مقدمہ کا ذکر کیا عوام کی بات نہیں کی، وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا، وہ یہ نہیں کہہ رہے میری حکومت کو کیوں کمزور کیا، نواز شریف صرف اپنی ذات کے گرد گھوم رہے ہیں، نواز شریف نظریاتی ہوتے تو ماضی میں ایک دفعہ دباؤ کے تحت نہ استعفیٰ دیتے اور دوسری دفعہ ڈیل کر کے باہر نہ جاتے، نواز شریف نے نظریاتی کہہ کر خود کو کنفیوژ ثابت کیا ہے۔دوسرے سوال تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے درمیان بہت سارے قومی معاملات پر ذہنی اور نظریاتی ہم آہنگی ہے، عمران خان اور سمیع الحق کا بیان، کیا دونوں کے درمیان کوئی مماثلت ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے حسن نثار نے کہا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی (س) میں کہیں اختلاف ہے تو کئی معاملات پر ہم آہنگی بھی ہے۔