فیض میلے سے ’’حرف ِ انکار‘‘ تک

November 25, 2017

فیض احمد فیضؔ کی یاد میں یہ تیسرا فیض انٹرنیشنل فیسٹیول میلہ تھا۔ 17نومبر 2017کو آغاز ہوا، 19نومبر کی شام اختتام پذیر ہو گیا۔ الحمرا آرٹس کونسل کے درودیوار فیض ؔصاحب کے مہک آور تذکرے سے مہکتے رہے۔ دل کے تاروں کی بجتی آوازوں نے تشنج کے ماحول میں سکھ کا احساس دلایا۔ نہ جانے کہاں سے ایسا لگا جیسے ہر لفظ شائستگی، تحمل اور تہذیب کے سانچے میں ڈھل گیاہو، شاید فیض ؔ صاحب خود ایسے تھے اس لئے میلے کے مکالمے ان تینوں جہتوں سے کچھ اس طرح بھرے بھرے تھے جیسے کسی لق و دق صحرائی خطے میں چلتے چلتے آپ پر قدرت مہربان ہو جائے۔ آپ بارش میں بھیگ جائیں، آپ کی ساری تپش اور خشکی ترواہٹ آمیز ٹھنڈک میں رچ جائے۔ فیضؔ جیسا کہ عرض کیا، تھے بھی ایسے ہی!
فیضؔ صاحب کی مشہور و معروف نظم ’’تبقیٰ وَجہُ رَبّکَ‘‘ کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں جس کا آغاز ان دو مصرعوں سے ہوتا ہے۔
’’ہم دیکھیں گے‘‘
’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘
اور خاتمہ ان دومصرعوں پر؎
’’اور راج کرے گی خلق خدا
جو میںبھی ہوں اورتم بھی ہو‘‘
اقبال بیگم نے اسے گایا۔ جب گایا جاتا تب پاکستان کی پہ چھایا آسمان اور پاکستان کو دستیاب دھرتی میں حاضر وغائب مخلوقات سمیت پاکستانی عوام دیوانہ وار رقص کرنے لگتے، ان کے جسموں کے مسام جذبوں کی شدت سے پھول جاتے،رخساروں کی تمتماہٹیں قابو میں نہ آتیں، قدموں کی طاقت بے مہار ہو جاتی، ہاتھوں کی حرکیات کے زاویوں میں محرومیوں کی صدائے بازگشت اور امیدوں کے چراغوں کی روشن شدت سے اس سرزمین کا ہر ذرہ متکلم ہو جاتا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے ریسرچ اسکالر، دانشور اور بی بی شہید کے معتبر ترجمان ضیاء کھوکھر بہت سے ایشوز پر مراسلت کرتے رہتے تھے۔ ایک بار انہوں نے فیضؔ کی اس نظم کے حوالے سے اس کی مختصر سی اشاعتی کہانی لکھ بھیجی۔ اسی کہانی میں بعض سرشار لمحوں کو بھی ریکارڈ پر لے آئے۔ لکھتے ہیں:’’اپریل 1986 میںمحترمہ بینظیر بھٹو جلاوطنی سے واپس آئیں توپہلے ان کے ساتھ پاکستان کے بے شمار شہروں اور قصبات میں جانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں نے پورے پاکستان کے شہروں میں نوجوان نسل کو یہ نظم لہک لہک کر اوربڑے انقلابی جوش و خروش میں پڑھتے، گاتے اور اس کی دھنوں پر پہروں ڈانس کرتے دیکھا۔ ان دنوں یہ نظم کاروان جمہوریت کے ترانہ کی حیثیت اختیارکرچکی تھی۔‘‘
ضیاء سے کہنے کو دل چاہتا ہے۔ اُن دنوں ہی نہیں اِن دنوں بھی اس کے مصرعوں میں چھپی ہوئی طاقتور حسرتیں اور انسانی شرف کو مجسم دیکھنے کا یقین ہمارے ذہنوں کی بقا و سلامتی کا دست امید ہے۔ اتفاق سے اپنےاس مراسلے میں ضیاء نے مختلف پہلوئوں سے فیضؔ صاحب کے بعض اشعار اور ایک آدھ نظم اور بھی درج کی ہوئی تھی۔ چند اشعار یہ ہیں؎
سنو کہ اس حرف ِ لم یزل کے
ہمیں تمہیں بندِگان بے بس
علیم بھی ہیں خبیر بھی ہیں
سنو کہ ہم بے زبان و بے کس
بشیر بھی ہیں نذیر بھی ہیں
اور نظم ’’سروادیٔ سینا‘‘ یہ انہو ںنے عرب اسرائیل جنگ کے بعد لکھی۔ اب آپ اسے میرے ذہنی ماتم پر محمول کرلیں جو اس کے دوتین مصرعوں نے مجھے آپ کو عرب اسرائیل جنگ کی درد انگیز صدائوں کے بجائے اسلام آباد میں تشریف رکھے عزت مآب جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس منیر عالم کی محترم و مکرم گفتگو سنانے پر بضد سا کردیا ہے۔
’’سروادیٔ سینا‘‘ کی اس نظم کے وہ دو تین مصرعے آپ کی نذر ہیں؎
اے دیدہ ٔ بینا
پھر دل کو مصفّا کرو، اس لوح پہ شاید
مابین من وتُو نیا پیماں کوئی اترے
اب رسم ستم حکمت ِ خاصانِ زمیں ہے
تائید ستم مصلحت مفتیٔ دیں ہے
اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
فیضؔ کے اس شعر پر کہ؎
اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا کوئی فرماں اترے
پڑھ کر البتہ مجھے دونوں عزت مآب جسٹس صاحبان کےبعض جملے آپ تک پہنچانے تک طبیعت کو قرار نہیں آسکے گا۔ شاید ان کے ان ریمارکس میں، میں کہیں نہ کہیں فیضؔ صاحب کے مصرعے ’’لازم ہے کہ انکار کا کوئی فرماں اترے‘‘کی امید کا پیغام دیکھ اور سن رہا ہوں۔ شاید آپ کو بھی دستک سنائی دے رہی ہو!
سماعت کے دوران میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے:’’کیا یہ لوگ باہر سے آئے؟ آئی ایس آئی کو معلوم نہیں۔ آئی ایس آئی طاقتور ادارہ ہے۔ سنجیدگی دکھائیں۔ اس سے اچھی رپورٹ تو میڈیا دے سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل! آپ میڈیا میں سے کسی کا انتخاب کریں وہ بہتر رپورٹ دیں گے۔ میڈیا بھی دھرنے والوں کی تشہیر نہ کرے۔ دھرنے والوں کا خرچ کون اٹھارہا ہے اور حکومت دھرنے والوں کی تحقیقات کیوں نہیں کر رہی؟ پیچھے کون ہے اورفائدہ کس کو ہو رہا ہے؟ کل کو کوئی دشمن آ کر سڑکوں پر قبضہ کرے تو کیا حکومت ان سے مذاکرات کرے گی؟ ایک شخص نے اسلام آباد اورپنڈی کے سنگم کو بند کر رکھا ہے۔ فرد ِواحد کی رٹ قائم ہے لیکن ریاست کی نہیں۔ گالم گلوچ کی زبان نظر آتی ہے کیا معاشرہ اس طرح چل سکتا ہے؟ کنٹینر کا خرچہ بھی عوام برداشت کر رہے ہیں جبکہ ایجنسیوں پر اتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ ان کا کردار کیاہے ؟ سمجھ نہیں آ رہا کیا کریں؟ دشمنوں کےلئے کام بہت آسان ہو گیا۔ وہ ہمارے گھر میں آگ لگائیں گے۔ کتنے دنوںسے لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے۔ جب ریاست ختم ہو جائے گی تو فیصلے سڑکوں پر ہوں گے۔گولیاں نہ برسائیں لیکن ان کی سہولیات کو بند کردیں۔ دھرنے کے علاقے کو سیل کریں۔ 17دن سے یہ لوگ کھاپی کہاں سے رہے ہیں؟ جبکہ دھرنے میں اسلحہ سے لیس لوگ موجود ہیں۔ ایک بچے کا وفات پا جانا معمولی بات نہیں۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ یہ بات دھرنے والوں کے دل میں سما جاتی تو وہ چلے جاتے اور توبہ کرتے۔ شرمندگی سے ہماری آنکھیں جھک گئی ہیں۔ وفات پانے والے بچے کے گھر کوئی حکومتی آدمی گیا؟ پیاسے کتے کے مرنے پرکون ذمہ دار ہوگا۔ کل پولیس والے کو مسجد سے نکال کر مارا گیا۔ کیا لائوڈ اسپیکر پر دھرنے والوں کو جانے کا کہا گیا، ایمبولنس کو راستہ دینے سے ہماری انا بڑی ہے۔ جس کا بچہ مر گیا اس کے دل پر کیاگزر رہی ہوگی؟‘‘
فیضؔنے جس ملک کے ارتقا اور جس معاشرے کے قیام کی جدوجہد کی تھی، اس کی منزل ایسا ملک اور معاشرہ نہیں تھا اور نہیں ہے جس کے باعث جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر حرف ِانکار اترا ہے!
حال ہی میں اسکاٹش مصنف اور شاعر الیگزینڈر گرے کی ایک تحقیقی کتاب ’’سوشلسٹ روایت، موسیٰ سے لینن تک‘‘ منظرعام پر آئی ہے۔ ترجمہ اس کا یاسر جواد نے کیا اس میں ایک جگہ لکھا ہے:’’اصول انصاف کو ہمارے ہر فعل کا رہنما ہونا چاہئے اور یہ کہ ہماری عقل ہمیں بتائے گی کہ کیا منصفانہ ہے؟ ہمیں بس وہی کرنا ہوگا اور کچھ نہیں۔ ہمارے پاس کوئی متبادل راہ نہیں۔‘‘ تو فیضؔصاحب کے ’’حرف انکار ، اترنے کی امید‘‘ اور ’’ہمیں بس انصاف کرنا ہے‘‘ کا پیغام اس میلے کی روح تھی!
مگر کالم کی گنجائش تمام ہوئی۔ ایک اطمینان بھری گھڑی بہرطور دستیاب ہوئی۔ فیضؔ میلے ہی میں نہیں سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی انصاف کی یہ روح پرواز کر رہی ہے۔
نوک ِ قلم پر ابھی فیضؔ میلے کی محبوبیت جاری رہے گی!