کشتی کا المناک حادثہ

December 09, 2017

ٹھٹھہ کے قریب گہرے سمندر میں زائرین کی کشتی الٹنے کے باعث جنم لینے والے سانحے نے اس ضرورت کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے کہ دریائی اور سمندری راستوں پر سفر کے لئے استعمال ہونے والی لانچوں میں اوور لوڈنگ کے سدباب سمیت مسافروں کی حفاظت کے اقدامات پر زیادہ سختی سے توجہ دی جائے۔میرپور ساکرو کی ساحلی پٹی کے علاقے بوہارو سے سمندری جزیرے پر واقع میو پٹھانی درگاہ پر جانے والی لانچ کے المناک حادثے میں 22سے زیادہ افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ رقم کے لالچ اور بعض خاندانوں کے تمام افراد کے ایک ہی کشتی میں سوار ہونے کے اصرار کے باعث لانچ میں گنجائش کے مقابلے میں کئی گنا مسافروں کو سوار کر لیا گیا تھا ۔ حادثے میں بچنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ کنارے پر ہی لانچ کے ڈولنے اور اوپر نیچے ہونے کے باعث خواتین نے شور مچایا کہ لانچ کنارے پر واپس لے جا کر دو چکر لگا لئے جائیں مگر انکی بات کو نظر انداز کردیا گیا۔ کشتی میں آس پاس کے علاقوں کے لوگوں کے علاوہ کراچی کے کئی خاندانوں کے افراد بھی سوار تھے۔ جمعرات کی شام 7 بجے تک نیوی کے غوطہ خوروں نے 22لاشیں نکال لی تھیں۔ 40سے زائد بیہوش افراد کوسپتال بھیجا گیا ۔ ریسیکو آپریشن کے ساتھ ساتھ بوہارا گوٹھ کے اطراف مینگروز میں جال لگائے گئے ہیں اور ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ ماضی میں ٹھٹھہ کے قریب سمندری علاقے میں سفر کرنے اور کراچی سے منوڑا یا دوسرے جزائر پر جانے والے مسافروں کو جب بھی حادثات کا سامنا ہوا، اوور لوڈنگ انکی بڑی وجہ ثابت ہوئی۔ اس لئے اوور لوڈنگ کے سدباب کے ساتھ ساتھ فوری ریسکیو کے انتظامات زیادہ موثر بنائے جانے چاہئیں۔ جبکہ متاثرہ خاندانوں کی مالی امداد پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس نوع کے حادثات کے بعد امدادی کاموں میں پاک بحریہ کا کردار ہمیشہ سے قابل فخر رہا ہےتاہم جدید مواصلاتی ذرائع استعمال کر کے اور ساحلی علاقوں کے قریب فوری طبی امداد کے مراکز قائم کر کے اسکی خدمات سے زیادہ موثر طور پر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔