سانحہ، ماڈل ٹائون پر سیاست

December 29, 2017

2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد پہلی بار تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پیپلز پارٹی کے روح رواں آصف علی زرداری ایک انتہائی اہم کل جماعتی کانفرنس میں ڈاکٹر طاہر القادری کے دائیں اور بائیں بیٹھیں گے۔

یہ کل جماعتی کانفرنس 2014ہی میں پاکستان عوامی تحریک کے 14 کارکنوں کے پولیس کے ہاتھوں قتل پر انصاف طلب کرنے کیلئے بلائی گئی ہے۔ اس کانفرنس کا ایجنڈا وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو انتخابات سے قبل اقتدار سے ہٹانا ہے ۔ عمران خان کل جماعتی کانفرنس میں آصف زرداری سے فاصلہ رکھنے کی کوشش کرینگے، تاہم اس موقع پر دونوں رہنمائوں میں ممکنہ ’’ مصافحہ ‘‘ نئی سیاسی بحث چھیڑ سکتی ہے ۔

آصف زرداری اور بلاول نے بے نظیر بھٹو کی دسویں برسی پر گڑھی خدا بخش کے جلسے میں عمران خان اور ان سیاست کو ہدف تنقید بنایا لیکن وہ محدود ایجنڈے ’’ شہباز شریف کو ہٹائو‘‘ پر ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں، اکثر کی نظروں میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد شہباز شریف ہی ملک کی وزارت عظمیٰ کے حقیقی امیدوار ہیں، عمران اور زرداری مسلم لیگ ( ن) کی حکومت اور شریف برادران پر مزید دبائو بڑھانے کیلئے سیاسی تحریک چلانے پر متفق ہیں۔ خصوصاً آئندہ انتخابات میں سیاست کا مرکز پنجاب رہے گا۔

ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی پاکستان عوامی تحریک کو مشکل ہی سے کوئی انتخابی پشت پناہی حاصل ہے لیکن وہ اپنی تنظیم منہاج القرآن نیٹ ورک کے ذریعہ بدامنی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جیسا کہ 2014 میں اس نے کیا تھا۔ شہباز شریف اور مسلم لیگ ( ن) کو تنازع حدیبیہ کیس دوبارہ کھولنے کیلئے نیب کی استدعا سپریم کورٹ کی جانب سے مسترد ہونے پر اور اورنج لائن پروجیکٹ میں ریلیف ملا لیکن سانحہ ماڈل ٹائون پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کے اجرا سے دھچکا لگا۔

رپورٹ بظاہر نامکمل اور گول مول لگتی ہے تاہم اس میں وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے کردار اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے مجرمانہ غفلت پر انگلی اٹھائی گئی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عوامی تحریک اور ن لیگ دونوں ہی رپورٹ کو اپنے حق میں قرار دیتے ہیں۔ طاہر القادری نے اچانک ہی شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے استعفوں کا مطالبہ کرکے معاملے کو گرما دیا ہے ۔ شہباز شریف کو رانا ثناء اللہ کو برطرف کرنے کیلئے پہلے ہی دبائو کا سامنا ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور سابق وزیر اعظم نواز شریف اپوزیشن حملے کے جواب میں اپنے سے ’’ناانصافی ‘‘کے خلاف تحریک چلانا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو مستعفی ہونے کیلئے طاہر القادری نے پہلے ہی 31دسمبر کی تاریخ مقرر کر رکھی ہے ، حتمی احتجاجی پلان کا اعلان اے پی سی میں ہوگا۔ اس بار ممکنہ طور پر تمام تر احتجاج کا مرکز پنجاب کا دارالحکومت لاہور ہوگا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان عوامی تحریک نے جسٹس باقر نجفی کمیشن کو کبھی قانونی نہیں سمجھا۔ نہ صرف اس کمیشن کو مسترد بلکہ اس کی پوری کارروائی کا بھی بائیکاٹ کیا ۔ اب جبکہ رپورٹ سامنے آگئی ہے تو وہ اب اس پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ماڈل ٹائون کیس متعلقہ پولیس افسران کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر التواء ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے قتل عام کے بعد مناسب اقدامات بروئے کار نہ لاکر بھیانک غلطی کی ، وہ کم از کم صوبائی وزیر قانون کو برطرف کر سکتے تھے۔ حکمراں جماعت اور شریف بردران نے 2014 میں عمران خان اور طاہر القادری کے معاملے سے نمٹنے میں لاپرواہی کا ثبوت دیا۔

سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر بھی اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے کہنے پر درج ہوئی۔ اب جبکہ مسلم لیگ (ن) ، پنجاب حکومت، پولیس اور انتظامیہ سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ دار ہیں یہ معمہ ہی ہے کہ طاہر القادری نے اس وقت دھرنا ترک کرکے عمران خان کو بھی حیران کر دیا تھا۔ دوسری جانب آصف زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی قیادت سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد طاہر القادری سے کبھی نہیں ملی بلکہ وہ دھرنے اور سانحہ ماڈل ٹائون کو جمہوریت اور پارلیمنٹ کے خلاف سازش سمجھتے رہے۔ اب زرداری نے مرکزی حیثیت اختیار کرلی ہے وہ نہ صرف طاہر القادری سے ملے بلکہ یہ تک کہہ دیا کہ وہ شہباز شریف کو تماشا چلانے نہیں دیں گے ، وہ انتخابات سے قبل ان کا جانا دیکھتے ہیں۔

توقع ہے زرداری آج طاہر القادری سے ملیں گے یہ اے پی سی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کیلئے ایک ہفتے میں دوسری ملاقات ہوگی۔ لہٰذا سیاسی اسٹیج سجنے والا ہے ۔سینیٹ انتخابات سے قبل جنوری اور فروری میں حیران کن سیاسی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں گی۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے نام پر اپوزیشن متحد ہو سکتی ہے ، دوسری جانب ’’ نظام عدل ‘‘ تحریک کیلئے بھی پنجاب نواز شریف کیلئے مرکزی اسٹیج ہو سکتا ہے ۔ اپوزیشن کے جوابی حملے سے کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے ، جو اپوزیشن کیلئے سود مند ہوگا اگر وہ سینیٹ انتخابات کا راستہ روک سکے۔

اس کشیدہ سیاسی ماحول میں سانحہ ماڈل ٹائون میں جانیں دینے والے 14 افراد کے لواحقین کو انصاف ملے گا یا نہیں لیکن اگر عوامی تحریک اور اپوزیشن شہباز شریف کو ہٹانے میں کامیاب ہوگئے تو انہیں دہرا فائدہ پہنچے گا۔ لہٰذا سینیٹ سے حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیمی بل منظور ہونے سے ن لیگ کو ریلیف ملنے کے باوجود شریف برادران پر سے دبائو نہیں ہٹا۔ اے پی سی عمران زرداری کشیدگی ختم کرنے میں کہاں تک مدد گار ہوتی ہے ، یہ بھی دیکھنا ہوگا۔ زرداری اور پیپلز پارٹی کیلئے 2018میں زرداری کیلئے ممکنہ گنجائش صرف شریف برادران کے باہر ہونے سے ہی ممکن ہے ۔