کراچی کے’منی لیاری ‘میں پولیس کامنفرد آپریشن اور جرائم کا خاتمہ

February 02, 2018

کراچی میں منشیات فروشی اور گینگ وار کے حوالے سے بدنام ’منی لیاری‘ کہلانے والے علاقے چنیسر گوٹھ کو پیشہ ورانہ مہارت اور ایمانداری سے کیے گئے غیر محسوس آپریشن کے دوران منشیات اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر سے پاک کر دیا گیا ہے۔

پولیس کے ماضی کے طریقہ کار کے برخلاف آپریشن کیلئے بکتر بند گاڑیوں کا استعمال ہوا اور نہ کہیں گولی چلی ،عام شہریوں کو بھی تنگ نہیں کیا گیا یوں مختصرعرصے کے دوران انٹیلی جنس رپورٹس کی مدد سے ماضی میں تیار کی گئی 176 ملزمان کی فہرست میں سے منشیات فروشی اور سنگین جرائم میں ملوث 160 ملزمان کو گرفتار کرکے 123 مقدمات درج کرلئے گئے ہیں۔

گرفتار کیے گئے ملزمان کے قبضہ سے 137 کلوگرام چرس 7 کلو گرام سے زائد ہیروئین اور دیگر سامان بھی برآمد کیا گیا ہے۔

ڈی آئی جی ایسٹ سلطان علی خواجہ نے جنگ کو بتایا کہ یہ خصوصی ٹاسک ایس پی جمشید کوارٹر ڈاکٹر رضوان کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیا گیا تھا جو انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ بہت کم وقت میں مکمل کیا۔

سلطان خواجہ کے مطابق ’چنیسر گوٹھ آپریشن‘ میں منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ افراد کا نیٹ ورک ہی نہیں توڑا بلکہ ملزمان کی سرپرستی کرنے والی بااثر وکیلوں،سیاسی مافیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کی کالی بھیڑوں کا بھی قلع قمع کیا گیا ہے۔

ایس پی جمشید کوارٹر ڈاکٹر رضوان نے اس آپریشن کے حوالے سے تیار کی گئی دستاویزات کی بڑی بُکلیٹ کی مدد سے بتایا کہ اس علاقے میں رہائش پذیر پولیس افسران اور اہلکاروں کا گٹھ جوڑ منشیات فروشوں کا مضبوط سہارا بنا ہوا تھا۔

چنیسر گوٹھ کا علاقہ ڈی ایس پی محمودآباد کے دفتر کے لیے بھی روز سونے کا انڈا دینے والی مرغی بنا ہوا تھا۔ ایس ڈی پی او محمود آباد کے عہدے پر تین سال سے تعینات ڈی ایس پی کی بھی ملزمان سے ملی بھگت کے انکشافات سامنے آئے ہیں۔

پولیس کے ایک انسپکٹر اور دو سب انسپکٹرز، کئی اسسٹنٹ سب انسپکٹر، ہیڈ کانسٹیبلز، کانسٹیبلز اور سابق پولیس اہلکار بھی اس گروہ کی مجرمانہ سرگرمیوں میں شریک کار پائے گئے جو کئی کئی سال سے محمود آباد سب ڈویژن کے خاص طور پر اسی تھانے محمود آباد میں تعینات تھے۔

ڈاکٹر رضوان کے مطابق کارروائی کے دوران ایس ڈی ایس پی اور ایس ایچ اوز کے 4 بیٹرز کو بھی گرفتار کرکے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔بیٹرز سے کی گئی تفتیش سے پورے علاقے میں سرکاری اداروں اور جرائم پیشہ افراد کے نیٹ ورک کا کٹھا چٹھا کھل کر سامنے آگیا۔

شہر بھر میں منشیات سپلائی کرنے والے چنیسر گوٹھ کے 20 گروہوں سے اسپیشل برانچ کے اہلکاروں کا گٹھ جوڑ بھی پکڑا گیا ہے۔

ڈاکٹر رضوان احمد نے بتایا کہ ایکسائز پولیس کا ایک ملازم وسیم عرف چھانگا خود اس علاقے میں منشیات فروشی میں ملوث تھا جس کے خلاف 2 مقدمات درج کئے گئے ہیں اس کا بھائی طارق ڈان علاقے میں منشیات فروشی میں بدنام شخص ہے۔

اسی طرح رؤف نامی ایکسائز پولیس اہلکار بھی منشیات فروشوں سے مبینہ طور پر ملا ہوا تھا جو منشیات فروشوں کو سپلائی بھی دیتا تھا۔ اسپیشل برانچ پولیس کا ایک اہلکار راجہ حمید بھی اسی علاقے میں رہائش پذیر منشیات فروشوں سے ملا ہوا تھاجس کے ملزمان سے طویل ٹیلی فونک رابطوں کے ریکارڈ کے ساتھ دو محکمانہ تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے۔

پولیس حکام کے مطابق محمود آباد یا اس سے جڑے کسی تھانے میں ان منشیات فروشوں کے ماضی کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں تھا۔ المیہ یہ کہ ماضی میں گرفتار ملزمان کے گھروں کے پتے تک ریکارڈ پر نہیں لائے جاتے تھےجبکہ ملزمان کے اصل یا مکمل نام اور شناختی کارڈ کی کاپی تک ریکارڈ میں موجود نہیں تھی۔ ملزمان کو کبھی کرمنل ریکارڈ آفس بھی نہیں لے جایا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ سی آر او سے بھی ملزمان کا ریکارڈ نہیں ملا لیکن اس آپریشن کے دوران گرفتار ملزمان کے اصل شناختی کارڈ، ان کے ضمانتیوں کا ریکارڈ بھی مرتب کیا گیا ہے۔

کس ملزم کو چھڑانے کے لیے کون کون تھانوں میں رابطہ کرتا رہا؟ ان کی پشت پناہی کرنے والوں کی فہرست مرتب کی گئی ہے۔ ملزمان کا کرمنل ریکارڈ آفس میں سی آر او بھی بنایا گیا ہے۔ شاید یہ کراچی پولیس کا واحد آپریشن ہے جس میں جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی مدد بھی لی گئی ہے۔

آپریشن میں ملزمان اور ان کے سرپرستوں یا ان سے ملے ہوئے سرکاری اہلکاروں کے موبائل فون کا ڈیٹا بھی شامل کیا گیا ہے جس سے منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ افراد کی سرکاری اہلکاروں سے ملاقاتوں اور ملاپ کا ریکارڈ بھی سامنے آیا ہے۔

موبائل فونز کے سی ڈی آر، فیس بک اکاؤنٹس، موبائل فون کے ایپ ’ٹروکالر‘ اور دور حاضر کی رائج جدید ٹیکنالوجی سے بھی مدد لی گئی ہے۔ گرفتار ملزمان کے موبائل فون میں موجود ان کی ایڈریس بکس، ان کے گروہوں میں کام کرنےوالوں اور ساتھیوں کا سراغ لگایا گیا۔

محمود آباد کے اس علاقے میں کون گینگ وار سے جڑا ہے، کون موسٹ وانٹڈ، کرمنل یا منشیات فروش اور کون کس کا سرپرست اور کون کس کس کے لیے کام کررہا ہے، پہلی بار پورے نیٹ ورک کا ریکارڈ بھی مرتب کرلیا گیا ہے۔

ایس پی جمشید کوارٹر ڈاکٹر رضوان احمد پر امید ہیں کہ اس علاقے میں دوبارہ جرائم پیشہ افراد اور منشیات فروشوں کو پنپنے کا موقع نہیں ملے گا۔ علاقے کے سروے کے دوران مکینوں نے علاقے میں صورتحال یکسر تبدیل ہونے کا اعتراف کیا۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ چنیسر گوٹھ سے منشیات فروشی ہی نہیں بلکہ جوئے کے اڈے پر گٹکے کے کارخانے بھی بند ہوگئے ہیں۔