یوٹیلیٹی اسٹورز:خامیاں دور کریں

February 06, 2018

اگرچہ ملک بھر میں قائم یوٹیلیٹی اسٹورز کی کارکردگی کے حوالے سے عوامی سطح پر تحفظات موجود رہے ہیںتاہم مالی خسارے کو بنیادی سبب بتاتے ہوئے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کی جانب سے کچھ اسٹورز کی بندش کی تجویز کسی طور بھی عوامی مفاد میں نہیں۔بتایا گیا ہے کہ اس وقت چار وں صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیرمیں قائم چار ہزاراٹھاسی اسٹورز میں سےنوے فیصد کے خسارے میں جانے سے کارپوریشن کو ماہانہ اڑتالیس کروڑ روپے سے زائد نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے ۔اس لئے ایک لاکھ سے کم ماہانہ آمدنی والے 472اسٹورز بند کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ اس حقیقت کی نشان دہی کرنا ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں انگریز دور حکومت کا متعارف کردہ راشن ڈپو کا نظام موجود تھا۔ جس کے تحت راشن کارڈ جاری کئے جاتے تھے۔ہر علاقے میں راشن شاپ ہوتی تھی جہاں سے عام آدمی کو سستے نرخوں پر اشیا ضروریہ کی فراہمی ممکن بنانے کیلئے حکومت سبسڈی دیتی تھی ۔یہ نظام آج بھی بھارت میں کامیابی سے چل رہا ہے جبکہ یہاں ستر کے عشرے میںاس کی جگہ یوٹیلیٹی اسٹورز کا نظام وضع کیا گیا۔جس میں سیاسی بنیادوں اور سفارش پر تقرریوں کی وجہ سے بد عنوانی کی شکایات سامنے آئیں ۔یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ یہ عوامی سہولت بڑھنے کی بجائے سکڑتی گئی۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومتی سطح پر عوامی فلاح کے اس منصوبے کی خامیاں دور کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جاتیں لیکن اس کے بر عکس یہ سہولت بھی ختم ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام کو جاری رکھنے میںپائی جانے والی رکاوٹوں کو دور کرنے اور خرابیوں کے سدباب کیلئےموثرحکمت عملی اپنائی جائے۔ راشن شاپ کی طرز پر بھی کوئی نظام دوبارہ بننا چاہئے۔ اس طرح نجی شعبے کی مدد بھی کار آمد ہوسکتی ہے۔ہر شہر میں نجی سپر اسٹور کامیابی سے چل رہے ہیں جنہیںسبسڈی فراہم کرکے عوام کوضروریات زندگی کی کم نرخوں میں فراہمی ممکن بنائی جاسکتی ہے ۔