خطاط محمد مختار علی، فنِ خط الاسماء کے ماہر

February 06, 2018

آج کی نسل جہاں اپنے اسلاف کی خوبیوں سے بے بہرہ ہو چکی ہے وہیں وہ فن خطاطی کے حوالے سے اپنے بزرگوں کی شاندار روایات کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔

روزنامہ جنگ کے بانی میر خلیل الرحمٰن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اردو کا پہلا سوفٹ وئیر تیار کروایا، آج اردو زبان ان کی احسان مند ہے۔

کمپوزنگ سے پہلے لاکھوں افراد خطاطی کو بطور پیشہ اختیار کیے ہوئے تھے، وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھی کمپوزنگ کو سیکھا، البتہ جو وقت کا ساتھ نہ دے سکے وہ گمنامی کے اندھیروں میں کھو گئے۔

خطاطوں میں خطاطِ مشرق عبدالمجید پروین رقم کا نام آج بھی عزت و احترام کی علامت سمجھا جا تا ہے، اگرچہ وہ قیامِ پاکستان سے ایک برس پہلے 1946ء میں رحلت کر گئے تھے لیکن اُن کا کام گزشتہ 62 برس سے ہر خطاط کے لیے مشعلِ راہ کا کام دے رہا ہے،ان کے ہزاروں شاگرد آج بھی یہ پیشہ اختیار کیے ہوئے ہیں، کچھ لوگوں کو اللہ کریم مخصوص کاموں کےلیے منتخب کر لیتا ہے۔

فن خطاطی کے حوالے سے ایسا ہی ایک نام محمد مختار علی کا ہے جو ملتان میں سکونت پذیر ہیں اور فن خط الاسما کو ایک نیا اسلوب دینے کے حوالے سے پاکستان اور پاکستان سے باہر شہرت رکھتے ہیں۔

مختار علی کو اپنے کام کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت حاصل ہے، وہ کئی زبانوں میں خطاطی اور گرافک ڈیزائننگ کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو منوا چکے ہیں ۔

انہوں نے کئی انٹرنیشنل برانڈز کو مشرقِ وسطیٰ میں برانڈ بننے اور وسیع البنیاد مارکیٹنگ کے مقاصد کے حصول میں معاونت کی، بہت سے بین الاقوامی شہرت یافتہ برانڈز کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے چند بڑے مراکز جن میں ریڈ سی مال، منسٹری آف حج، مکہ کلاک ٹاور کی تزئین میں تخلیقی کردار ادا کیا۔

محمد مختارعلی 11 نومبر 1972ء کو پاکستان کے معروف خطاط و اَدیب ابنِ کلیم احسن نظامی کے گھر پیدا ہوئے، دبستان فروغِ خطاطی ملتان اور انجمن خوشنویسانِ ایران سے انہوں نے خطاطی کی تربیت حاصل کی۔

انہوں نے 15سے زائد عربی فن خطاطی کی نمائشوں میں حصہ لیا ،بلاشبہ وہ اپنے موضوع پر اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں،متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر ممالک کی بڑی جامعات میں اُردو اور انگریزی خطاطی اور ٹائپو گرافی کے فن پر منعقدہ ورکشاپس میں لیکچر دے چکے ہیں۔

مزید برآں مختار علی فن خطاطی سے متعلق کئی ایسے اداروں میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں جن کا مقصد عربی خطاطی کے فن اور ورثے کو نئی ٹیکنالوجی کے اثرات سے آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنا ہے۔

ان کا سب سے اہم کنٹری بیوشن (کیلیگرافک نیم آرٹ) فنِ خط الاسماء کو پروان چڑھانا ہے اور سی این اے کا اِجراء ہے جو ناموں کی تزئینی خطاطی کرنے والا دنیا کا سب سے پہلا باقاعدہ سلسلہ ہے۔

محمد مختارعلی نے زمانۂ طالبِ علمی ہی سے شاعری، صحافت اور کمرشل ڈیزائننگ کا آغاز کیا، 1990ء سے 2000ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں ملازمت اختیار کی اور ملتان سے ایک اَدبی جریدے ’میزان‘ کا آغاز کیا۔

سن 1996ء میں پہلا شعری مجموعہ ’کتابِ آئندہ‘ ملتان سے شائع ہوا، دیگر شعری مجموعوں میں ’کمیاب‘ اور ’قرضِ ہنر‘ لاہور سے شائع ہو کر اہلِ سخن سے داد پائی۔

سن 1993ء میں بی بی سی لندن کے عالمی مقابلۂ شعر گوئی میں دنیا کے 10 دس بہترین نوجوان شعراء میں ان کا اِنتخاب ہوا، 2012ء میں بیرونِ وطن اُردو زبان و اَدب کے فروغ کے اعتراف میں کراچی میں منعقدہ فیض صدی عالمی کانفرنس میں انہیں فیض احمد فیضؔ ایوارڈ سے نوازا گیا۔

حکومتِ پاکستان کی طرف سے پہلی قومی خطاطی نمائش میں’ن والقلم‘ خطاطی ایوارڈ کا اِجراء کیا گیا اور مختار علی کو اُن کی شاندار فنی خدمات کے اعتراف میں صدرِ پاکستان نے اس اعزاز سے نوازا۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)