جب ڈاکٹرز قصائی بن جاتے ہیں

February 08, 2018

جس طرف دیکھیں حالات بہت خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ لالچ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ پیسہ کمانے کے لیے انسانی جان کے ساتھ کھیلنا یہاں معمول بن گیا ہے۔ ایک طرف اگر دہشتگرد، ٹارگٹ کلر، قاتل انسانوں کو خودکش دھماکوں، بارود ، گولی اور دوسرے اسلحہ سے مارتے ہیں تو دوسری طرف پیسہ کی لالچ میں ملاوٹ شدہ اشیاء خوردونوش، جعلی ادویات، کیمیکل سے تیار کیا گیا دودھ اور نجانے کیا کچھ کھلے عام بیچا جاتا ہے جس سے کھانے والوں میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اورہر سال ہزاروں لاکھوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دہشتگرد، ٹارگٹ کلر اور قاتل تو اپنا جرم سامنے کرتا ہے اور اس جرم کی پاداشت میں اس کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے اور سزا بھی ملنے کی توقع ہوتی ہے لیکن لاکھوں افراد کے قاتل سے نہ کوئی پوچھ گچھ ہوتی ہے اور نہ ہی اُن کی طرف کسی کا خیال جاتا ہے کہ یہ بھی قاتل ہو سکتے ہیں۔ سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ جو بیمار ہوتا ہے جب وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے یا سرکاری و پرائیویٹ اسپتال جاتا ہے تا کہ صحت یاب ہو سکے، اُسے وہاں شکار کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے۔ ایک طرف دوائیں جعلی ہیں تو دوسری طرف ڈاکٹرز کی نظر مریض کے مرض کی بجائے اُس کی جیب پر ہوتی ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں صفائی کا انتظام نہیں، ٹیسٹ لیبارٹریاں قابل اعتماد نہیں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مہنگے اور ماڈرن پرائیویٹ اسپتالوں کی طرف جاتے ہیں لیکن وہاں جو ہوتا ہے اُسے دیکھ کر مسیحا کے روپ میں ڈاکٹرز کا اصل چہرہ دیکھ کر گھن آتی ہے۔ ڈاکٹرز جو مریضوں کے ساتھ کرتے ہیں اس بارے میں ہر شخص کا اپنا اپنا تجربہ ہے اور اگر لوگوں سے کسی سروے کے ذریعے پوچھا جائے تو ہزاروں کہانیاں سامنے آئیں گی کہ کس طرح پیسہ کی لالچ میں انسانی جانوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ میں یہاں گزشتہ چند دن کی وہ معلومات قارئین سے شئیر کروں گا جو میرے سامنے آئیں تاکہ پڑھنے والوں کو اس بات کی آگاہی ہو کہ اُنہیں بڑے سے بڑے ڈاکٹر اور اچھے سے اچھے پرائیویٹ یا سرکاری اسپتال پر بھی آنکھیں بند کر کے اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ایسا کیا تو آپ کے ساتھ وہ کچھ ہو سکتا ہے جس کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔ میری ایک قریبی عزیزہ کوٹانگ کی ہڈی میں مسئلہ تھا جس کا کوئی دو تین سال قبل راولپنڈی اسلام آباد کے ایک بڑے پرائیویٹ اسپتال میں ایک بڑے ڈاکٹر نے آپریشن کیا۔ کوئی تین لاکھ روپے فیس لی گئی۔ حال ہی میں خاتون جو ملک سے باہر تھیں معمول کے مطابق ایکسرے اور ایم آر آئی کرایا جسے ملک سے باہر ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ یہاں بھی اُسی بڑے پرائیویٹ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر کو دیکھایا گیا۔ باہر کے ڈاکٹر نے کہا کوئی مسئلہ نہیں۔ بڑے پرائیویٹ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر نے کہا مجھے کچھ مسئلہ نظر آ رہا ہے۔ خاتون کی بہن جو خود بھی ایک ڈاکٹر ہیں نے ایک اور مقامی اسپیشلسٹ سرجن کو ایکسرے اور دوسری رپورٹس دیکھائیں تو وہ بھی کہنے لگا کوئی مسئلہ نہیں۔ اس پر دوبارہ بڑے پرائیویٹ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر سے رجوع کیا گیا اور اُسے بتایا گیا کہ دوسرے ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں۔ اس پر بڑے ڈاکٹر برہم ہو گئے اور کہنے لگے میں نے خاتون کا پہلے آپریشن کیا اور میں جانتا ہوں کہ مسئلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خاتون مریضہ جو اُس وقت ملک سے باہر تھیں کی ڈاکٹر بہن کو بڑے ڈاکٹر نے دھمکی کے انداز میں کہا کہ آپریشن فوری کروانا ہے تو ٹھیک ورنہ بعد میں مرض بڑھ گیا تو میرے پاس مریض کو لے کر نہ آنا۔ بتا بھی دیا کہ پیسے تین چار لاکھ کے درمیان لگیں گے۔ بڑے ڈاکٹر کے بڑے نام کی وجہ سے فوری چند ہی دنوں میں مریضہ کو بیرون ملک سے بلوایا گیا اور دوسرے ہی دن بڑے اسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ دوسرے دن سرجری کے لیے مریضہ کو آپریشن تھیٹر پہنچایا گیا۔ بے ہوشی کی دوا دینے سے قبل مریضہ نے سن لیا کہ اُس کی بائیں ٹانگ کا آپریشن کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے جبکہ مسئلہ دائیں ٹانگ میں تھا ۔ خاتون مریضہ چیخ اُٹھی کہ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں جس پر اُس سے کہا گیا کہ نہیں آپریشن کے لیے تو بائیں ٹانگ کا لکھا ہواہے۔ مریضہ نے کہا کہ مرض مجھے ہے، میرا پہلے بھی آپریشن ہو چکا اس لیے بہتر ہے اپنا ریکارڈ درست کریں۔ اپنی متاثرہ ٹانگ کی بجائے مکمل صحت یاب ٹانگ کے آپریشن سے بچتے ہی، مریضہ کے کانوں میں ایک نرس کی طرف سے ڈاکٹر کوبتائی جانے والی یہ خبر پہنچی کہ خاتون کا ہیپاٹائٹس بی کا رزلٹ مثبت آیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس نئی خطرناک بیماری کے شاک کو ہضم کرتی اُس پر بے ہوشی کی دوا کا اثر ہو چکا تھا۔ اس نئی بیماری اور ٹیسٹ کے بارے میں آپریشن تھیٹر کے باہر موجود مریضہ کی ڈاکٹر بہن کو پتا چلا تو اُسے یقین نہیں آیا کیوں کہ حال ہی میں کرائے گئے تمام بلڈ ٹیسٹ کلئیر تھے۔ اُس نے بڑے اسپتال کی لیبارٹری سے بلڈ سیمپل لیے اور ایک دوسرے اسپتال کی طرف دوڑی۔ ابھی رستہ میں تھی تو بڑےاسپتال سے فون آیا کہ بی بی واپس آ جائیں غلطی ہو گئی۔ بتایا گیا کہ کسی دوسرے مریض کا ٹیسٹ اُس مریضہ کے ساتھ میکس ہو گیا تھا جس کی وجہ سے غلط رپورٹ جاری ہو گئی۔آپریشن ہو گیا جس کے بعد بڑے ڈاکٹر نے بتایا کہ ٹانگ میں کوئی خرابی نہیں تھی لیکن جہاں مجھے شبہ تھا وہاں میں نے ہڈی کی گرافٹنگ کر دی۔ جب خون کی غلط ٹیسٹ رپورٹ کے بارے میں احتجاج کیا گیا تو ڈاکٹر نے جواب دیا ’’I have taken them to task.‘‘ معلوم نہیں کتنے مریضوں کے ساتھ یہ کھیل روزانہ کھیلا جاتا ہے۔ لاکھوں دے کر بھی اگر علاج کے نام پر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے تو پھر مریض بچارے کہاں جائیں۔ گزشتہ روز میں مریضہ کی تیمارداری کےلیے گیا تو اُس نے اپنی کہانی تو بتائی ہی ساتھ ہی کہنے لگی کہ چند روز قبل ہی اُس کے جیٹھ اسلام آباد کے ایک اور بڑے پرائیویٹ اسپتال خون کے ٹیسٹ کروانے گئے۔ جب ٹیسٹ رپورٹس ملیں تو شوگر تین سو سے زیادہ ۔ خون کی کچھ دوسری رپورٹس بھی خراب تھیں۔ یہ رپورٹس دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا اور اُسی اسپتال کے ایک بڑے ڈاکٹر کے پاس چلا گیا جس نے دوائیوں کے ڈھیر لکھ دئیے۔ اپنی جان کو خطرے میں دیکھتے ہوئے تقریباً دس ہزار کی دوائیں خرید کر مایوسی کی حالت میں گھر پہنچا اور ساری روداد گھر والوں کو سنا دی۔ ماں نے ویسے ہی کہا میری شوگر ٹیسٹنگ مشین سے ٹیسٹ کر لو۔ بیٹے نے گھر ہی میں ٹیسٹ کیا تو شوگر نارمل نکلی۔ دوڑا دوڑا اسلام آباد کے ایک اوراسپتال پہنچا اور ٹیسٹ کروائے جو بلکل نارمل تھے۔ ابھی حال ہی میں ہماری ایک اور جاننے والی خاتون کو بلڈ کلاٹنگ کی وجہ سے دل کا عارضہ ہوا۔ایک بڑے پرائیویٹ اسپتال میں داخل ہوئیں، علاج ہوا گھر چلی گئیں۔ ایک ٹانگ میں سوجن ہو گئی، اسٹروک بھی ہو گیا۔ دوبارہ اُسی اسپتال پہنچیں اور داخل کر لی گئیں۔ ایک ڈاکٹر صاحب آئے اور اسٹروک کی مریضہ جس کو پہلے panic attackبھی ہو چکا تھا کوکہنے لگے کہ او ہو تمھاری تو ٹانگ کاٹنی پڑے گی۔ یہ سنتے ہی خاتون نے رونا شروع کر دیا۔ بعد میں دوسرے ڈاکٹرز آئے اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ٹانگ کاٹنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دو تین روز قبل ٹی وی ایکٹر ساجد حسن نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی دکھ بھری کہانی سنائی کہ کس طرح بال لگوانے کے چکر میں اُس کے سر کی بری حالت کر دی گئی ہے۔ ساجد حسن نے اپنے سر کی وڈیو بھی شئیر کی جسے دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں اگرچہ لالچ نہیں لیکن وہاں ایک طرف انفکشن کا ڈر اور دوسری طرف ٹیسٹ رپورٹس پر کوئی بھروسہ نہیں۔ ایک جاننے والےنے پیسہ کی کمی کی وجہ سے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد کے بڑے سرکاری اسپتال سے ٹیسٹ کروا لیے جائیں۔ جب ٹیسٹ کی رپورٹس آئیں تو سب کی سب غلط۔ جب رپورٹس ہی قابل اعتبار نہ ہوں تو مریضوں کا علاج کیا ہو گا۔ نجانے علاج کے نام پر روزانہ کتنے لوگوں کی یہاں جانوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے لیکن کوئی روکنے والا نہیں۔