ایک کروڑ ماہانہ تنخواہ؟

February 08, 2018

یکم فروری کو میرے بیٹوں اور دوستوں نے ایک مقامی ہوٹل میں میری سالگرہ کی تقریب منعقد کی جس میں اندرون ملک اور بیرون ملک سے میرے ذاتی دوستوں اور ہر شعبے کے مشاہیر نے شرکت کی۔ تقریب کے اختتام پر میرا پائوں ہوٹل کے قالین میں الجھ گیا جس کے نتیجے میں مجھے بائیں پائوں میں فریکچر ہوگیا۔ ڈاکٹروں نے پلستر کردیا ہے اور آٹھ ہفتے بیڈ ریسٹ کی تاکید کی ہے۔
اگرچہ اس فریکچر کی وجہ سے مجھے بہت تکلیف دہ صورتحال سے گزرنا پڑ رہا ہے مگراس سے کئی گنا تکلیف مجھے ٹی وی پر اور پھر اگلے دن اخبارات میں سپریم کورٹ کی کارروائی پڑھ کر ہوئی۔ سپریم کورٹ میں مسئلہ یہ درپیش تھا کہ پی ٹی وی میں گزشتہ دوسال سے ایم ڈی کیوں مقرر نہیں کیا گیا؟ چنانچہ اس حوالہ سے سیکرٹری انفارمیشن احمد نواز سکھیرا کو عدالت میں طلب کیا گیا تھا۔ سیکرٹری انفارمیشن نے اصل مسئلے کو بہت خوبصورتی سے پس پشت ڈالتے ہوئے پی ٹی وی کے سابق چیئرمین یعنی خاکسار کی طرف گفتگو مبذول کردی اور کہا کہ ان پر دو سال کے دوران پی ٹی وی کے 27کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ انہوں نے میرے کھاتے میں ایک کروڑ روپیہ ماہانہ ڈال دیا۔ میرا خیال تھا کہ انہوں نے اس کے کوئی شواہد یا ڈاکومنٹس بھی دیئے ہوں گے مگر میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں آئی۔ مجھے تجسس ہوا کہ آخر مجھ پر ایک کروڑ ماہانہ کیسے خرچ ہوئے کیونکہ اخبارات اور ٹی وی پر مجھے الزام تراشی تو دکھائی دی کوئی تفصیل نظر نہیں آئی۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پی ٹی وی پر میرا پروگرام ’’کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘ کے 60پروگرام نشر ہوئے جس میں صدر مملکت اوراپوزیشن لیڈر جیسی شخصیات سے لے کر زندگی کے تمام شعبوں ادب، موسیقی، ڈرامہ، تصوف، گلوکاری، اداکاری پر بات کی گئی اور متعلقہ شعبوں کے سرکردہ افراد سے گفتگو کی گئی۔ اس پروگرام کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو بیتے ہوئے دن یاد دلائے جائیں جب ان تمام شعبوں میں ہماری روایت اورقدریں موجود تھیں۔ انہیں اس دور کی تصویریں دکھائی جائیں جب ہم سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور خوش تھے۔ اس پروگرام کا مقصد لوگوں کو اپنی اچھی اورپرانی قدروں کی طرف واپس لانا تھا۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں ایک بات یہ بھی کہی کہ وہ یہ پروگرام دیکھتے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ میں نے اس پروگرام کا کوئی معاوضہ قبول نہیں کیا جبکہ میں یہ پروگرام کسی اور نجی ٹی وی چینل سے کرتا تو شاید لاکھوں روپے ملتے۔ مجھے اپنے ذرائع سے معلوم ہوا کہ سیکرٹری انفارمیشن صاحب نے پندرہ لاکھ ماہوار تنخواہ کو ایک کروڑ ماہانہ میں تبدیل کرنے کے لئے میرے متذکرہ پروگرام کا بجٹ بھی شامل کردیا۔ واضح رہے کہ کسی بھی چینل سے نشر ہونے والے ڈرامے یا پروگرام کا ایک بجٹ ہوتا ہے جس میں پروگرام کے تمام اخراجات شامل ہوتے ہیں لیکن ان اخراجات کا کسی بھی اینکر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ایک مضحکہ خیز حرکت یہ بھی کی گئی کہ ٹی وی کے دوسرے تمام پروگراموں کے علاوہ میرے پروگرام کا جو ’’پرومو‘‘ چلتا تھا اس وقت کے اشتہاری نرخ نکال کر اسے بھی میری تنخواہ کا حصہ تصور کر لیا گیا جبکہ سب لوگوں کو علم ہے کہ تمام چینلز سے جو بھی پروگرام پیش کئے جاتے ہیں ان کی تشہیر کے لئے متعلقہ چینل پرومو بناتے ہیں جو وقتاً فوقتاً نشر کئے جاتے ہیں تاکہ لوگ یہ پروگرام دیکھ سکیں۔ یہ پرومو فلر ہوتے ہیںاور اشتہار کی خالی جگہ پُر کرتے ہیں۔ اگر اس فارمولے سے تنخواہوں کا تعین ہونے لگے تو ٹی وی اینکرز کی تنخواہ اربوں روپے ماہانہ بھی بنائی جاسکتی ہے جو ظاہر ہے کہ ایک احمقانہ بات ہوگی۔ صرف یہی نہیں بلکہ پی ٹی وی بارٹر سسٹم کے تحت اپنے مختلف پروگراموں کے اشتہارات چند اخبارات میں دیتا چلا آیا ہے اور اس کے عوض ان اخبارات کے اشتہارات پی ٹی وی سے نشر ہوتے ہیں چنانچہ دوسرے پروگراموں کے ساتھ اس پروگرام کے اشتہارات بھی اسی بارٹر سسٹم کے تحت اخبارات میں شائع ہوئے۔ سنا ہے، ان اشتہاروں کا ایک فرضی خرچ نکال کراسے بھی میری تنخواہ کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ میرے علم میں یہ بات بھی آئی کہ بطور چیئرمین پانچ سات لوگ جو میرے اسٹاف میں شامل تھے ان کی دو سال کی تنخواہیں بھی میرے کھاتے میں ڈال دی گئیں حالانکہ وہ پہلے سے پی ٹی وی کے ملازم تھے اور آج بھی ہیں۔ یہ سب کچھ اس کے بعد ہوا جب دو سال چیئرمین رہنے کے بعد اور پی ٹی وی کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے اپنی کوششوں کے دوران میں نے آخری چند مہینوں میں محسوس کیا کہ مجھے اس کام سے روکنے کے لئے رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کر اب اگر میں اس عہدے کے ساتھ چمٹا رہتا ہوں تو وہ تنخواہ حرام ہوگی جو مجھے اس عہدے کے عوض دی جارہی ہے۔ چنانچہ ابھی میری مدت ملازمت کی میعاد میں ایک سال باقی تھا مگر میں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے لقمہ حرام پسند نہ کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا اور استعفے میں منسٹری کے رویے کا بھی ذکر کیا۔ اس کے بعد پھر یہ ساری کہانی گھڑی گئی جسے سپریم کورٹ میں دہرایا گیا۔ سیکرٹری انفارمیشن اگر اس حوالے سے مجھ سے مشورہ کرتے تو میں انہیں کہتا کہ میرے استعفے کے اگلے روز آپ نے ایک اخبار میں میرے حوالے سے یہ خبر شائع کروائی تھی کہ چیئرمین صاحب نے سرکاری خرچ پر بیرون ملک سے لاکھوں روپوں کی ادویات منگوائیں، تو اگر جناب ان لاکھوں روپوں کی دوائیوں کے اخراجات بھی شامل کر لیتے تو یہ تنخواہ صرف ایک کروڑ نہ رہتی، دو چار کروڑ تو بن ہی جاتی۔ میں اس سارے فعل کو بے شرمی کی انتہا قرار دوں گا کہ موصوف کو جھوٹ بولنے کا سلیقہ بھی نہیں آیا۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ جس طرح سیکرٹری صاحب نے جس اصول کی بنیاد پر ماہانہ ایک کروڑ روپے میرے کھاتے میں ڈالے ہیں اسی اصول کے تحت اپنے اخراجات کی بھی تفصیل بیان کردیں۔ (جاری ہے)