ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا

February 11, 2018

یہ جو پنجابی محاورے ہوتے ہیں، بڑے ہی ظالم! آج جب متحدہ قومی موومنٹ (MQM) بارے لکھنے کا سوچ رہا تھا تو ڈاکٹر فاروق ستار کا نہایت متاسفانہ بیان نظر پڑا۔ نہایت کسمپرسی کی حالت میں ایم کیو ایم (پاکستان) کے مجہور سربراہ نے آہ بھر کے کہا کہ: ’’میرے پاس بانی اور قائد جیسا ڈنڈا نہیں۔‘‘ وہ سپہ سالار تو ہیں لیکن سپاہ کے بغیر۔ وگرنہ موصوفہ رابطہ کمیٹی کی کیا مجال تھی کہ حکم عدولی کا سوچتی بھی۔ کبھی وقت تھا کہ ’’قائد کا جو غدار ہے، موت کا حقدار ہے‘‘ کا ڈنکا بجتا تھا۔ اور پھر یہ درفنطنی بھی چلی کہ ’’منزل نہیں قائد‘‘ وہ قائد رہا، نہ قائد کے حکم پر اپنے ہی بھائیوں کو بھون دینے والے کان کٹوں کے وحشت ناک دستے۔ لیکن اس کا کیا کیجیے کہ ڈنڈے دو ہیں اور بیچاری ایم کیو ایم کے ترکے کا بٹوارہ۔ اب ایک طرف تگڑا ڈنڈا ہے جو بگڑوں کو راہِ راست پر لانے کی جراحی میں مصروف ہے اور خاصا کامیاب بھی۔ بھلا! ’’میری بلی، مجھے ہی میاؤں‘‘ کب چلنے والا تھا۔ اور نکلی بھی تو سیاسی انجینئرنگ سے دُھنی دُھنائی پاک سرزمین اور وہ بھی قومی جھنڈے کے سائے میں۔ اگست کی اس منحوس شام میں قائد ایسے آپے سے باہر ہوئے کہ ایم کیو ایم والے بھائی لوگوں کی منزل رہی نہ قائد۔ بیچارے فاروق ستار جو قائد کے جانثاروں کے ہاتھوں سرعام جوتیاں کھانے میں عافیت پاتے تھے اور وہ تمام جو، اب رابطہ کمیٹی میں رونق افروز ہیں، کبھی قائد کی ایک آواز پر دُم ہلانے کو کارِ ثواب سمجھتے تھے، سبھی اوندھے منہ زمین پہ آن گرے۔ جب جان و سیاسی مال بچانے کے لالے پڑے تو قائد کے بڑے بڑے جغادری قائد سے غداری کو ہی منزل کے حصول کے لئے بچت کی راہ کی تلاش میں بند دروازے کھٹکھٹانے پہ مجبور ہوئے۔ لیکن وہاں پہلے ہی سابق میئر مصطفی کمال اپنے معافی خواستگواروں سمیت گناہ بخشوا کر حب الوطنی کی مسند پر براجماں ہو چکے تھے۔ اب بیچارے فاروق بھائی نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق کبھی اس کے پاؤں پڑتے، کبھی اُس کے۔ آکر کچھ ضمانتی بیچ میں پڑے اور ایم کیو ایم پاکستان وفاداری کے حلف دینے پہ مجبور تو ہوئی، لیکن بشرطِ استواری کہ معاملے میں ہنوز قائد کے سحر سے نہ نکل پائی۔ قائد کی مذمت کیے بغیر لندن سیکرٹریٹ سے تدبیری طلاق مشکوک پائی جاتی رہی۔ فاروق بھائی بدلی ہوئی وفاداری کی استواری کے لئے تمام دروں پہ سر پٹختے رہے، لیکن شک کا زیادہ فائدہ نہ اُٹھا پائے۔ ایک طرف رابطہ کمیٹی والے تھے جو اب بھی مہاجر سپاہ کی تائید کے لئے چھپ چھپا کر قائد کا دم بھرتے اور دوسری جانب مجذوب فاروق ستار تھے جو آہنی ڈنڈے کی مہربانی کے طلبگار۔ جانے فاروق بھائی نے وفاداری کی استواری کے لئے کون کون سی قسمیں اور کیا کیا وعدے نہیں کیے ہوں گے جن کی رابطہ کمیٹی والوں کو کیا خبر اور اگر خبر تھی بھی تو دوغلے پن کے فن میں ہمارے متحدہ والوں کا کوئی ثانی نہیں۔
فاروق بھائی ٹھیک ہی تو چلا رہے ہیں کہ متحدہ کی ہنڈیا کیوں اس طرح بیچ چوراہے پھوڑ رہے ہو، حالانکہ اس کارِ خیر میں وہ خود کب پیچھے رہنے والے تھے۔ اب سینیٹ کے انتخابات کے لئے اُمیدواروں کی فہرستیں بھی دو ہیں اور ڈنڈے بھی دو۔ ایک قائد کے پرانے وفاداروں کی اور دوسری اچھے اطوار کی ضمانت کا تقاضا کرنے والوں کی۔ قائد کا ڈنڈا تو کبھی کا ٹوٹ چکا اور اصل ڈنڈے کے امین ٹیسوری جیسے نووارد بھائیوں کی متبادل حب الوطنوں کی فہرست رہبر بے تیغ فاروق ستار کے منحنی ہاتھوں میں تھمائی جا چکی تھی۔ اب رابطہ کمیٹی والے اپنے دستور کی کیسی ہی دہائیاں دیں، نظریۂ ضرورت کا چلن کون روک سکتا ہے۔ ویسے بھی فاروق بھائی خیر سے آئینی طور پر ایم کیو ایم رجسٹرڈ کی جانب سے اپنی مغویہ پارٹی کے سینیٹ کے لئے اُمیدواروں کی فہرست دینے کے مجاز ہیں۔ شکستہ حال ایم کیو ایم کا ایسا مضحکہ خیز منظر کسی نے گزشتہ 30 برس میں دیکھا تھا! رہبر ثانی کے ہاتھ میں جو فہرست ہے وہ ان کی نہیں اور جو فہرست رابطہ کمیٹی والے لئے پھرتے ہیں وہ اُن کی نہیں۔ فاروق بھائی ایسی رہبری سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں، لیکن تھمائی گئی فہرست پہ مصر رہتے ہوئے۔ رابطہ کمیٹی والوں کی فہرست میں شاید ایک آدھ نام ایسا ہے جو شاید قابلِ قبول ہو اور وہ بھی سابق سپہ سالار کی مہربانی سے جو مہاجروں کی قیادت کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔
مہاجر قومی موومنٹ جن آہنی ہاتھوں نے سندھ میں نسلی بنیادوں پر جمہوری تحریک کو تقسیم کرنے کی ضرورت کے پیشِ نظر بنائی تھی اور جسے وہ وقتاً فوقتاً سیاسی اُلٹ پلٹ کے لئے استعمال بھی کرتے رہے تھے، متحدہ کا روپ دھارنے کے باوجود پاکستان کے اصل مالکوں کے لئے سوہانِ روح بنتی چلی گئی۔ جب ڈانڈے دشمن سے ملتے نظر آئے اور پاکستان کا صنعتی دارالحکومت بالکل ہی ایم کیوایم کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا تو ریاست کی غضبناکی نے آخر اپنے ہی ناخلف بچے کو کھانا ہی تھا۔ اب اس ملبے جس کا نام ایم کیو ایم ہے کو کباڑیوں کے حوالے کرنا ہے کہ کراچی میں ویسے بھی بہت کچرا پھیلا ہوا ہے۔ اب کباڑیئے بولیاں لگا رہے ہیں، تو فاروق بھائی کیوں پیچھے ہٹنے کو تیار ہوں۔ جو بولی زیادہ لگائے گا، مالِ غنیمہ اُسی کے زیادہ ہاتھ آئے گا۔ رابطہ کمیٹی والے سمجھ گئے تو ٹھیک وگرنہ پاک سرزمین والوں کا گوشۂ عافیت تو ہے یا پھر فاروق بھائی کی بولی قبول کرنے میں کیا حرج۔ ویسے بھی کراچی جہاں سبھی قومیتوں کا اجتماع ہے کو کوئی ایک گروہ کیسے یرغمال بنا سکتا ہے۔ ہمارے اُردو بولنے والے بھائیوں کو اب پاکستان کا ماما بننے یا پھر مہاجر قوم بننے کی عدم جذب پذیری کی خلوت میں سکڑنے کی بجائے سندھ کی دھرتی سے امان پانے کا سجدۂ سہو کرنا چاہیے۔ یہ کیا کم ہے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے اور امیر شہر سے سب سے زیادہ مستفید ہو رہے ہیں اور اُردو زبان خیر سے قومی رابطے کی زبان ہے۔ کراچی کاسموپولیٹن ہے اور اُردو کسی ایک نسلیاتی گروہ کی زبان نہیں، یہ تو ہے ہی بین النسلیاتی اختلاج کی پیداوار، پھر اسے تفرقے کا باعث بنانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ پاکستان کی تمام دوسری زبانیں بولنے والے لوگ اُردو سیکھتے اور بولتے ہیں۔ پنجاب کے تمام مہاجر پنجابی اور سرائیکی بولنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ یہ سندھ کے شہروں میں رہنے والی تیسری چوتھی نسل کو سندھی بولنے میں کیا ہچکچاہٹ ہے۔ یقیناًمیونسپل حکومت کا نہ ہونا کراچی کے لئے بڑا مسئلہ ہے اور سندھ کے رجواڑے ایک کاسموپولیٹن شہر کو چلانے سے رہے۔ اب ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ سے جو سیاسی خلا بن رہا ہے، اُسے ملک گیر جماعتوں کو پُر کرنے کے لئے آگے بڑھنا چاہیے۔ ایم کیو ایم سے کراچی اور حیدر آباد کو جو خون خرابہ نصیب ہوا، اُسے متوسط طبقے کے کردار کے بارے میں جو خوش گمانیاں پھیلائی جاتی رہیں، اُن سے تائب ہونے کا وقت ہے۔ دُنیا بھر میں متوسط طبقہ جہاں فسطائی جماعتوں کی ریڑھ کی ہڈی بنا وہاں یہ جمہوریت اور روشن خیالی کا ہر اوّل بھی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ بھائی لوگ فسطائیت اور تفرقہ پرورلسانیت سے توبہ کریں اور سبط حسن جیسے روشن خیال اُستادوں سے رجوع۔ پنجابی محاورے سے قطع نظر بگڑوں تگڑوں کا پیر ڈنڈا نہیں بلکہ جمہوری قلب ماہیئت میں ہی اُن کی فلاح ہے۔