خیابانِ بابریہ اور تختِ بابری

February 16, 2018

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے باہر عمران خان نے میاں نواز شریف کو مغل اعظم قرار دیا، گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین نے کہا کہ ’’...میرے جیسے عام آدمی احاطہ عدالت میں پیدل آتے ہیں جبکہ مغل اعظم (نواز شریف) شاہانہ ٹاٹھ باٹھ سے آتے ہیں ...‘‘اسی دوران فضا میں ایک ہیلی کاپٹر بلند ہوا تو عمران خان کہنے لگے ’’...کہیں یہ میاں صاحب تو نہیں ہیں ...‘‘مغل اعظم کے نام سے ویسے تو کئی فلمیں بن چکی ہیں مگر اب یہ کردار ہماری سیاست کا حصہ بن چکا ہے جس کے بھی شاہانہ ٹاٹھ دیکھو اسے مغل اعظم قرار دے ڈالو۔جس روز یعنی پندرہ فروری کو عمران خان، میاں نواز شریف کو مغل اعظم قرار دے رہے تھے اس سے ایک روز پہلے یعنی چودہ فروری کو مجھے ایک ایسی تقریب میں شرکت کا موقع ملا جو برصغیر کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے حوالے سے تھی۔چودہ فروری بابر بادشاہ کا یوم پیدائش ہے، یوم پیدائش کی مناسبت سے تنظیم مغلیہ نے راولپنڈی میں ’’سالگرہ ،بابر‘‘ کے نام سے تقریب سجا رکھی تھی۔اس تقریب کے اہتمام کا سہرا ’’دیوان خاص‘‘ والے بیگ راج کے سرہے،بیگ راج طویل عرصے سے اس حوالے سے خاصے سرگرم ہیں ۔تقریب میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ تقریب کے صدر تو ہلال احمر کے سربراہ ڈاکٹر سعید الٰہی تھے،مجھے منتظمین نے مہمان خصوصی بنا ڈالا ۔یہ تقریب سیاسی حوالے سے بھی اہم تھی کیونکہ یہاں مسلم لیگ ن کے مرزا منصور بیگ، عمر مغل جبکہ تحریک انصاف کے عامر مغل، جمشید محبوب مغل اور امبرین ترک سمیت ڈاکٹر طاہر القادری کے نمائندے بھی شریک تھے، قلم قبیلے سےکالم نگار جبار مرزا کے علاوہ زاہد حسن چغتائی شریک تھے جبکہ نصرت مرزا کراچی میں ہونے کے باعث شریک نہ ہو سکے۔
تقریب کے تمام مقررین نے بابر بادشاہ کی زندگی کے حوالے سے گفتگو کی،کسی نے انہیں بطور جنگجو پیش کیا تو کسی نے دانشور اور ولی کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی۔یہاں یہ باتیں بھی زیر بحث آئیں کہ دراصل بابر ہی وہ شخص تھا جس نے برصغیر میں اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔یہاں یہ تذکرہ بھی ہوا کہ مغلوں کی آمد سے برصغیر کی تہذیب پر کیا اثرات مرتب ہوئے، خاص طور پر کھانوں کا بہت ذکر ہوا، یہ بات سچ بھی ہے کہ آج برصغیر کے لوگ جن کھانوں پر بڑا ناز کرتے ہیں یہ سب کھانے مغلوں ہی نے متعارف کروائے، اردو زبان بھی بابر کی آمد کے بعد ترتیب پائی، آج دنیا میں بے شمار لوگ اردو بولنے والے ہیں اور میں یہ سطور اردو کے سب سے بڑے اخبار جنگ میں لکھ رہا ہوں۔یہاں برسبیل تذکرہ ایک بات کرتا چلوں کہ اس تقریب میں پاکستان کی نئی وزیر اعظم کا نام بھی سامنے آیا ، اس خاتون نے اپنا نام خود پیش کیا۔اگرچہ ازراہ تفنن ہی سہی مگر وزیراعظم کا نام تو سامنے آ گیا۔بابر بادشاہ کی سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سوشل میڈیا کی سربراہ امبرین ترک نے کہا ’’...چونکہ مغل بڑے کامیاب حکمران تھے اور پاکستان میں حکمرانی ہی کا مسئلہ بنا ہوا ہے، میں مغلوں کی اولاد ہوں اور ویسے بھی ساڑھے چار کروڑ مغل پاکستان میں آباد ہیں لہٰذا موجودہ صورتحال میں مجھ سے اچھا وزیراعظم اور کون ہو سکتا ہے، میں یہ بات برملا کہہ سکتی ہوں کہ میں پاکستان کی اگلی وزیراعظم بن سکتی ہوں ...‘‘
خواتین و حضرات!اس میں کوئی شک نہیں کہ بابر جنگجو تھا، بابر فاتح تھا، وہ شاعر تھا، زبردست نثرنگار تھا، اس کا روحانیت پر بڑا یقین تھا، اس نے خود تو برصغیر پر صرف چار سال حکومت کی مگر اس کی اولاد نے برس ہا برس حکومت کی، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آج جب بھی کوئی باہر سے ہندوستان یا پاکستان میں آتا ہے تو اسے جو عمارتیں بطور خاص دکھائی جاتی ہیں وہ سب مغلوں نے بنوائیں۔ کوئی پاکستان میں آئے تو اسے بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ اور شالامار باغ ضرور دکھائے جاتے ہیں اگر وہ ہندوستان کا رخ کرے تو سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی اس کی آنکھیں تاج محل ضرور دیکھنا چاہتی ہیں، شاید اسی لئے بیگ راج نے شکیل بدایونی کا ایک شعر بطور خاص پڑھا کہ؎
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
پوری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ برصغیر کے اعلیٰ ترین کھانے مغلوں ہی نے متعارف کروائے، آج اردو کی سارے جہان میں دھوم ہے اردو مغل سلطنت ہی کا تحفہ ہے۔شہروں کے گرد باغات کو رواج دینے والے بھی مغل ہی ہیں، مغلوں نے اپنی سلطنت کو اپنی قبروں کی حدود میں لے رکھا ہے، پہلے مغل بادشاہ بابر کا مزار کابل میں ہے جبکہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کا مقبرہ رنگون میں ہے، افغانستان سے برما تک اس سلطنت پر کئی سو سال مغلوں کی حکومت رہی، پھر انگریز آ گئے، مغلوں پر ظلم ہوا، جبروستم کے اس موسم میں مغل چھپ گئے، انہوں نے اپنے ناموں کے ساتھ ایسے القابات لکھنے چھوڑ دیئے جن سے مغل ہونے کا تاثر ابھرتا تھا، اوکاڑہ میں بسنے والے بے شمار آرائیں دراصل مغل ہیں، انہیں انگریز کے ظلم و ستم نے آرائیں بنا دیا، اسی طرح بہت سے مغلوں نے کئی دوسرے روپ اختیار کرلئے تھے، جی ہاں ظلم وجبر کے سایوں میں جان بچانے کیلئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، آپ آج بھی بہادر شاہ ظفر کے بچوں کو رنگون کے غریب محلوں میں دیکھ سکتے ہیں، وہ آج بھی خود کو شہزادے کہتے ہیں۔
بابر بادشاہ کی سالگرہ کی تقریب میں جب کیک کاٹنے کی باری آئی تو سرفراز مغل نے میرے اور ڈاکٹر سعید الٰہی کے ہاتھوں میں چھری کے بجائے خنجر تھما دیا میں نے کہا کہ اگلی بار تلوار لیکر آئیے گا۔
ڈاکٹر سعید الٰہی ہلال احمر یعنی ریڈ کریسنٹ کے چیئرمین ہیں، پچھلے دنوں سید عارف نوناری کی ایک کتاب ’’ریڈکراس اور انسانیت‘‘ شائع ہوئی، اس کتاب میں ہلال احمر کی خدمات کا بھرپور تذکرہ ہے۔مجیب الرحمٰن شامی اس حوالے سے لکھتے ہیں ’’...سید عارف نوناری کا قلم سے تعلق ایسا مضبوط اور پرانا ہے کہ کالج ہی میں انہوں نے ایک کتاب لکھ ماری تھی۔ انہوں نے انسانیت کی خادم، اس عظیم الشان تحریک کا تعارف اس طرح کرایا ہے کہ پڑھنے والے کے دل میں بھی جذبہ خدمت بیدار ہوتاچلا جاتا ہے ...‘‘اس کتاب کے بارے میں بریگیڈیئر(ر) صولت رضا رقمطراز ہیں ’’...ممتاز قلمکار سید عارف نوناری کی کتاب ’’ریڈکراس او رانسانیت‘‘ انسان دوستی کی دلیل ہے ۔کتاب میں قدرتی آفات کے سدباب اور آفات سے قبل حفاظتی تدابیر کو اچھوتے انداز میں بیان کیا گیا ہے...‘‘
اس کتاب پر مجھ ایسا عاصی و خاطی کیا لکھ سکتا ہے بس یہی کہ یہ پڑھنے کے قابل ہے، جذبات سے بھرپور ہے۔خدمت کا ذکر کرتے ہوئے ناجانے مجھے کیوں یاد آرہی ہے کہ خون کا کینسر کتنے خوبصورت انسانوں کو بے بس کر دیتا ہے، اسلام آباد کے صحافی اشفاق ساجد اسی منہ زور کینسر کے سبب موت کے منہ میں چلے گئے ۔تحسین دلبر اعلیٰ سرکاری افسر تھے، خون کا کینسر ہوا ، پھر ساری جمع پونجی کینسر کی نذر ہو گئی، تین بچے ہیں کل کا سرکاری افسر آج زکٰوۃ اور خیرات کا طالب ہے، کیا زندگی ہے، کہاں سے کہاں لے آتی ہے اس کا فون نمبر 0313-6957177ہے۔ کل کے مغل بادشاہوں کی اولادوں کے حوالے سے راحت اندوری کا شعر یاد آ رہا ہے کہ ؎
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں