تاج ور

February 18, 2018

ایسا نہیں ہے کہ ہر طرف یاس و ناامیدی ہے۔ وطن عزیز میں امید و آس کے چراغ بھی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف سیاستدان ، مذہبی عناصراور اداروں کے اختیار مند ذاتی، گروہی و طبقاتی ہوس کے برہنہ اظہار کے باوصف بے نقاب ہورہے ہیں۔ وہاں معروضی کشاکش کے شکار عوام اس پیچ و خم سے سیکھتے ہوئےسیاسی بلوغت کا مظاہرہ بھی کررہے ہیں۔ اس امر کی گواہی کے لئے حالیہ محض تین واقعات آپ کے سامنے رکھتے ہیں (1) ممتاز قانون دان عاصمہ جہانگیر کی رحلت پر عوام کا بے مثال اظہار عقیدت (2) لودھراں میں مسلم لیگ کی کامیابی (3) انتہا پسندی کا داغ مٹانے کی خاطر اسلام آباد میںپختون نوجوانوں کا پڑائو..... پاکستان کی تاریخ میںقومی سیاسی رہنمائوں یا مذہبی اکابرین کے علاوہ دیگر شعبوں سے متعلق شخصیات کی وفات پر عوام کی عقیدت کی ایسی کم کم مثالیں ملتی ہیں، جیسی مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر برسر عام ہوئیں۔ عوامی پذیرائی و عقیدت کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کوئی شخصیت ملک گیر شہرت کی حامل ہو۔ ظاہر ہے یہ شہرت انہیں عوام ہی سے ربط و ضبط اور ان کی خدمت و محبت کے باعث ملتی ہے۔ کسی شخصیت کی وفات پر اس کی سرکاری اعزاز سے تدفین وہ معنی نہیںرکھتی، جس طرحکسی کی جدائی میںہر اشکبار آنکھ کا نذرانہ وقعت و قدر لئے ہوئے ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار، ، بے لوث و اصولوں پر کاربند عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ میں جس بڑی تعداد میں خواتین سمیت ہر مکتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر طبقے، زبان، نسل، مسلک ، شعبے کے لوگوںمیں ان کا یکساں احترام تھا۔ اب جب ہم مرحومہ کی خدمات پر نظر ڈالتے ہیں، تو وہ انسانی حقوق ،سماجی تبدیلی، مساوات، جمہوریت کے لئے اور آمریت کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی مختلف جہتوں پر مشتمل ہیں۔ مرحومہ نے لاپتہ افراد کے کیسز لڑے۔ یہ انسانی حقوق کے لئے خود سے بیگانگی کی لافانی مثال ہے۔محترم مسعود اشعر صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’’عاصمہ جہانگیر نے ہمیں’مردانگی‘ کے حقیقی مفہوم سے روشناس کرایا‘‘ گویا پاکستانی عوام نے ان کو تاریخی عقیدت کے ساتھ رخصت کرکے یہ باور کرایا کہ وہ بزدلوں، چاپلوسوں، آمریت پسندوں اور انتہا پسندوں کو نہیںخودار، بہادراورجمہوریت پسندوں کو ہی حقیقی رہنما سمجھتے ہیں۔دوسری مثال لودھراں کا انتخابی عمل ہے۔ یہ نشست جہانگیر ترین صاحب کی تھی جہاں ان کے صاحبزادے کو بڑے مارجن سے شکست ہوئی۔ بات ہار جیت کی نہیں ہے۔ملکی و غیر ملکی مبصرین بعض رویوں کا ان انتخابات کے تناظر میں جائزہ لے رہے تھے۔ مسلم لیگ کو آپ خواہ کسی بھی درجے میںرکھیں، میاں نواز شریف اس وقت بہر صورت اسٹیبلشمنٹ مخالف آواز مانےجاتےہیں۔ بظاہر وہ اپنے خلاف عدالتی فیصلوں پر جس نوع کی بھی تنقید کریں، لیکن بین السطور وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، عوام اسے اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہم یہاںیہ بحث نہیںکررہے، کہ معروضی صورت حال میں مسلم لیگ یا دیگر قوتوں میںکون راہ حق پر ہے۔ ہم اس تاثر کی بات کررہےہیں جو ان دنوںنمایاں ہے ۔اس حوالے سے لودھراں کے انتخابات سے جو پیغام عام ہوا، وہ یہ ہے کہ عوام نے دراصل ان قوتوں کی نفی کی ہے جو میاںنواز شریف کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ دوسرے معنوں میں عوام نہ تو کسی قسم کے پروپیگنڈے میں آئے، اور نہ ہی ماضی کی طرح اس روایت کا اثر لیا کہ لوگ جب دیکھتے تھے کہ کسی کی کشتی منجدھار میںہے تو وہ اسے چھوڑ جاتے تھے۔ یہ ابن الوقت سیاسی روایت ہے۔اب لگتا ہے کہ ایسی روایات دم توڑ رہی ہیںاور عوام روپ اور بہروپ میں امتیاز رکھنے کی طرف چل پڑے ہیں۔
تیسرا واقعہ جو شہروںکی چکاچوند و برق رفتار زندگی سے دور کہیں دور، بلند و بالا کوہساروں کے دامن میںپھیلتی روشنی کی امید لئے ہوئے ہے۔ وہ پختون قومی جرگے کے تحت اسلام آباد میںپختون بالخصوص محسود نوجوانوں کا پر امن اور لاجواب پڑائو ہے۔ ہمیں برادر اسماعیل محسود نے بتایا کہ جرگے کے مطالبات پر مکمل عملدرآمد کی توقع ہے۔ تاہم ان سطور میں ہم مطالبات کی پیش رفت کی بجائے اس عوامی شعور کی جانب آپ کی توجہ چاہتے ہیں جو تاحد نظر پورے پختون خطے کا مستقبل منور کرنے کی خاطرتابندہ ہے۔ اگر پاکستانی میڈیا اس دھرنے کا بائیکاٹ نہ کرتی ، تو ہم وطن دیکھ پاتے کہ کس طرح وہ نوجوان جن پر طالبان کا گمان اغلب رہتا ہے وہ قرائن و شواہد سے ان تمام تہمتوں کو بہتان ثابت کرتے ہوئے بتاتے ہیںکہ کس طرحان کو یرغمال بناکر ان کا چہرہ مسخ کرکے پیش کیا گیا اور ان کے بچوں و نوجوانوں کو نام نہاد جہادوں میں بطور چارہ استعمال میں لایا گیا۔ نوجوان مقررین نے وہ حقائق طشت از بام کیے جنہیں آج تک نام نہاد ملکانزبان پر لانے کی ہمت نہیں کر سکے۔انتہا پسندی کے خاتمے، پختونوں کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانے اور درپیش مشکلات کے خاتمے کیلئے وزیرستان سے ایک بیدار مغز و نڈر نوجوان منظور پشتون کی قیادت میں شروع ہونے والے مارچ کا جس طرحپختونخوا کے ہر شہر و شاہرہ پر تاریخی استقبال ہوا ،اور پھر لوگ ان کے ساتھ شامل ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچے، وہ اس امر کا اعلان تھا کہ قبائل وپختونخوا کے شہری علاقوں و دیہات کی سوچ ایک ہے۔ قابل رشک واقعہ یہ ہے کہ جب نام نہادملکان نے حکومت سے ساز باز کرکے دھرنے کو ختم کرنا چاہا تو نوجوان ان کی راہ میںدیوار بن گئے۔ روایتی طورپر ملکان( نام نہادنمائندے) اس طرح کے فیصلے کرتے ہیں اور حکومت سے مراعات لیتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ وطن فروش اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں نامراد ٹھہرے۔ محسن داوڑ، بادشاہی خان جیسے باصلاحیت اصحاب کی ایک بھرپورفہرست ہے جو تحریک کے راہ رو تھے۔ مختصر یہ کہ جب ’ ملکان‘کی بات نوجوانوں نے نہیں مانی، تواسٹیج کے کنٹینر اور دھرنے کے لئے جمع شدہ رقم ساتھ لے کر وہ دھرنے سے نو دو گیارہ ہوگئے۔ یہ نوجوان مگر بے سرو سامانی کے عالم میںبھی ڈٹے رہےاور بالآخر قدرت نے انہیںسُرخ رو کیا۔
عرض یہ کرنا چاہتے ہیںکہ نام نہاد وطن فروشوں کی غلامی سے ان نوجوانوں کی آزادی، امن کی بات کرنا، قبائل اور شمالی و جنوبی پختونخوا کے عوام کا دہشت گردی کے خلاف مشترکہ محاذ بنانا اس بات کا غماز ہے کہ عوامی بیداری کی تازہ لہر چل پڑی ہے۔ بنابریں جب ہم لودھراں کے انتخابات، عاصمہ جہانگیر مرحومہ سے اظہار عقیدت اور جرگے کے دھرنے، یعنی ان تینوں واقعات کو ملاتے ہیںتو ایک سوچ اُبھرتی ہے کہ عوام پروپیگنڈے کی بجائے برسر زمین حقائق کو مدنظر رکھتے ہیں۔ بالخصوص محترمہ عاصمہ جہانگیر سے اظہار عقیدت اورعوام کی جانب سےباریش نام نہاد نمائندوںپر ایک نوجوان منظور پشتون کو ترجیح، اس سوچ کا اظہار ہے کہ عوام صرف اُن لوگوںکو تاج پہناتےہیںجو سچے ،قول کے پکے اور وطن دوست ہوتےہیں ......