نواز شریف قانونی طورپرآئوٹ سیاسی طورپرزندہ رہیں گے

February 22, 2018

اسلام آباد(فصیح الرحمان) سابق وزیراعظم نواز شریف قانونی طورپرآئوٹ ہوسکتے ہیں لیکن اُن کی سیاست چلتی رہےگی۔ ان کی پارٹی پی ایم ایل(ن) کی صدارت سے اُنھیں ہٹا دیاگیا ہے لیکن یہ ان کے گرد گھومتی ہے اور جب تک اُن کی لڑائی جاری ہےیہ اُن کے گردہی گھومتی رہےگی۔ یہ ایک تلخ سیاسی حقیقت ہےاور اُن کے دوست، دشمن، سیاسی مخالفین اسے قبول کرنے پر مجبورہیں، چاہے یہ انھیں پسند آئے یا نہ آئے۔ خاص طور پرجب شریف برادران کا سیاسی بیانیہ ان کے ووٹرز، کارکنان اور کئی تھڑوں پربیٹھنےوالوں میں مقبول ہورہاہے۔ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے پارٹی صدارت کےعہدےسےنااہل کرنےکا فیصلہ مستقبل میں سابق وزیراعظم کے پارلیمنٹری منصوبوں کو روکنےکیلئےہے۔ اس وقت حیران کن طورپراِس فیصلے سےسیاسی سیاق وسباق میں پی ایم ایل(ن) اور شریف برادران کے سیاسی محرکات میں تیزی آسکتی ہے۔ خاص طور پراس وقت جب ریاست کے طاقتور اداروں کی جانب سےغیر منصفانہ سلوک برتے جانے کا اُن کا بیانیہ جڑ پکڑ رہاہے اور ان کے سیاسی حریفوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ اب کئی ماہ اور برسوں تک وہ وزیراعظم نہیں بن سکیں گے، ملک کی اعلیٰ عدالت نےاس مدت کا تعین ابھی کرنا ہے۔ تاحال وہ ایک کنگ میکر ہیں، اورحکمران جماعت میں طاقت کا مرکز اور غیرمتنازع لیڈر ہیں۔ وہ صدر ہوں یا نہ ہوں اُن کے الفاظ اور فیصلوں میں وزن ہوتا ہے اور ان کی یہ اہمیت برقراررہے گی۔ تاحال وہ سیاسی میدان میں ہیں، پارٹی اور سیاسی میدان میں اُن کی سیاسی گرفت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ذاتی طور پروہ اور ان کی سیاسی وارث مریم نواز سمیت اُن کا خاندان آئندہ ماہ پاناما کیس فیصلےکےبعد نامعلوم راستوں پرداخل ہوسکتے ہیں، سیاسی طور پر اُن کا بیانیہ مقبول ہوگا اور اگر انھیں قید کردیاگیا اور وہ سیاسی اورجسمانی تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار ہوگئے تو ان کا بیانیہ مقبول ہوتا رہےگا۔ گزشتہ سال سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ کیس کا فیصلہ آنے کے فوری بعد شریف کے دو اہم مخالفین عمران خان اور آصف زرداری کا خیال تھا کہ فیصلےکےبعد چند دنوں اور ہفتوں میں نواز شریف سیاسی طور پر بے کار ہوجائیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ گزشتہ اگست میں سابق وزیراعظم کےجی ٹی روڈپرمارچ جس میں انھوں نے پنجاب اورکےپی کےمیں پبلک میٹنگز کیں اوراپوزیشن کی جانب سےلاہور میں مایوس کن جلسے نے سب کچھ خود کہہ دیا۔ اب عمران خان سمیت مرکزی اپوزیشن رہنمانواز شریف کی نئی حمایت کوعارضی رجحان کہہ کرختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اس بیانیے کو مرکزی اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سےکوئی اور طاقتور سیاسی بیانیہ نہ ہونےکےباعث کامیابی ملی۔ انھوں نے جون 2016کے بعد سے پانامہ فیصلےاورمبینہ کرپشن کےکارڈ کوضرورت سےزیادہ فروخت کرنے کی بے کار کوشش کی۔ لیکن یہ صرف ان کی طرح کی ذہنیت رکھنے والے ووٹرز اورکارکنان میں مقبول ہوا۔ پی ایم ایل (ن) کےمایوس اوردبے ہوئے کارکنان سال 2017 میں تاخیر کے ساتھ سیاسی غفلت سے باہر نکلےاور پھر وہ پارٹی کے عوامی جلسوں میں شریک ہوئے۔ گلی محلے کی سیاست کرنے والے بھی کئی لوگ اِس میں شامل ہوگئے کیونکہ اپوزیشن کا بیانیہ غیرموثرتھا اور اس میں وزن نہیں تھا اور تاحال وہ صرف زبانی کلامی ہی ہے۔ اس کےباعث تنہائی کا شکار نواز شریف کےحامیوں اورمعاشرے کےدیگرطبقے میں سابق وزیراعظم کی جانب سے کھیلا گیا مظلومیت کا کارڈ مقبول ہوا۔ مخالفین کی یہ سوچ سادگی پر مبنی تھی کہ وہ 28جولائی 2017کو نااہل ہونے کے بعد سیاسی طور پر ختم ہوجائیں گےلیکن حیران کن طور پر وہ ہمیشہ کی طرح ووٹرزکی حمایت حاصل کرنےمیں کامیاب رہے۔ اب وہ پارٹی عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے لیکن سیاسی طور پر وہ پارٹی کے واحد رہنما رہیں گے۔ اسی طرح وہ وفاقی حکومت کو بھی کنٹرول کریں گےحتٰی کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہیں۔ اب حکمران پی ایم ایل(ن) کو پارٹی سربراہ کے لیے کسی اور کو منتخب کرنا ہوگا، یہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، بیگم کلثوم نواز یا کوئی اور وفادار ہوسکتا ہے۔ لیکن شہباز شریف سمیت کوئی بھی پارٹی سربراہ ہو، وہ اہم فیصلوں کے لیےحتمی طورپرنواز شریف کی جانب ہی دیکھے گا۔ نواز شریف کو پارٹی صدارت سے دوسری بار نااہل کیاگیاہے۔ پہلی بار 1999 میں پرویز مشرف کی زیرِ قیادت فوجی بغاوت کے بعد کیاگیاتھاجب پولیٹکل پارٹیز ایکٹ کے تحت انھیں پارٹی سربراہ بننے سے روک دیاگیاتھا۔ لیکن تب بھی، جب وہ سعودی عرب اور بعد میں لندن جلا وطن تھے، یہ وہ ہی تھے جو پارٹی کوسیاسی اور انتظامی طور پر کنٹرول کرتے تھے۔