اگر آئین بالاتر ہے؟

February 23, 2018

کراچی (تجزیہ۔ مظہر عباس) اب وقت آ گیا ہے پاکستان کی سیاسی و آئینی تاریخ کی غلطیوں کو درست کر لیا جائے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ آگے بڑھ کر آئین، پارلیمنٹ اور عدلیہ کا تحفظ کریں جس کے بغیر جمہوریت چل سکتی اور نہ ہی جڑ پکڑ سکتی ہے۔ اصل بحث یہ نہیں آئین برتر ہے یا پارلیمنٹ بالاتر لیکن کیا بات ہے کہ بسا اوقات پارلیمنٹ اور نہ ہی عدلیہ آئین کو تحفظ دے سکے جب مارشل لاء لگایا جاتا رہا۔ آئین کا آرٹیکل۔6بھی اسے تحفظ فراہم نہیں کر سکا۔ مثال کے طور پر جب آئین بالاتر ہے تو وہ1977ء اور 1999ء میں خود کو تحفظ فراہم کیوں نہیں کر سکا، جنہوں نے اقتدار پر قبضہ اور آئین التوا میں ڈالا، انہیں تحفظ ملا۔ 1958ء سے1999ء تک تاریخ خود کو دہراتی رہی۔ 2007ء میں سپریم کورٹ نے تاریخ میں پہلی بار آمریت کو قانونی تحفظ دینے سے انکار کیا لیکن اس کی قیمت بھی ادا کی۔ اسے قیمت ادا کرنا نہیں پڑتی اگر غاصبوں پر مقدمات چلائے جاتے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ پارلیمنٹ برتر ہے۔ اس کے باوجود وہ خود ہی اسے تحفظ دینے میں ہمیشہ ناکام رہی۔ وہ ہموار جمہوری نظام کی آبیاری بھی نہیں کر سکی۔ ایسی دستور سازی میں ناکام رہی جس کے ذریعے آئین کو توانائی اور قوت بخشی جا سکے۔ ناکامی اس وجہ سے بھی ہوئی جب کبھی مارشل لاء لگا، سیاستدان ہی ان کے ثناء خواں اور مداح رہے۔ سیاستداں یہ غلطی وقتی فائدے کے لئے بار بار دہراتے اور غیر آئینی ادوارکو طوالت اور تقویت بخشتے رہے۔ جب بھی مارشل لاء لگا آئین، پارلیمنٹ اور عدلیہ سب ہی کو رخصت کیا گیا۔ یہ بات تاریخی حقیقت ہونے کے ساتھ تاریخی غلطی بھی رہی۔ مارشل لاء کو ہمیشہ کٹھ پتلی سیاستداں دستیاب رہے۔ پی سی او ججوں نے تقویت دی۔ قانونی ماہرین نے انہیں جواز فراہم کیا۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ سزا تو دور کی بات، ان پر مقدمہ تک نہ چلا۔ گزشتہ دہائی میں عدلیہ نے خود کو نہ صرف درست کیا، نظریہ ضرورت کو دفن کیا۔ آئندہ کے لئے مارشل لاء کے خدشات کو معدوم کیا لیکن نومبر2007ء میں عدلیہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی عائد کردہ ایمرجنسی کو جواز دینے سے انکار کر کے خود کو آزاد عدلیہ ثابت بھی کیا۔ پرویز مشرف نے دو بار آئین کی خلاف ورزی کی لیکن کوئی مواخذہ نہیں ہوا اس نے دو بار پی سی او ججوں کو استعمال کیا جسے روکا نہ جا سکا لہٰذا آئندہ ایسی صورتحال سے بچنے کی کیا ضمانت ہے؟ آزاد عدالت عظمیٰ نے ججز کیس یا این آر او کیس میں تاریخی فیصلے دیئے لیکن جہاں تک آئین کے آرٹیکل۔6کے تحت پرویز مشرف پر انتہائی غداری کے مقدمے کا تعلق ہے، وہ کچھ نہ کر سکے۔ یہ یقین دہانی کسی اور نے نہیں بلکہ خود چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کرائی کہ نظام کو خطرہ ہوا تو وہ اپنی کرسی پر نہیں بیٹھیں گے۔ یہ بیان امید کی علامت ہے جس کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ تب سیاسی بے یقینی بڑھتی ہی کیوں جا رہی ہے۔ یہ تاثر بھی مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ ایک پارٹی اور اس کا رہنما ہی حدف ہیں۔ اب یہ توقع ہی ہے کہ عدالت عظمیٰ آئین کا تحفظ کرے گی اور آرٹیکل۔6 کے تحت معاملہ اٹھائے گی۔ مخمصہ یہ ہے کہ پاکستان میں برسوں سے جو چیز یقینی رہی وہ بے یقینی ہے۔ آئین کی واضح تشریح نہ ہونے کی وجہ سے ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کا ایشو اب تک طے نہیں ہوا۔ جو راستہ نااہل وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے نااہل صدر نواز شریف نے اختیار کیا وہ مقبول عام تو ہو سکتا ہے اور بڑا مجمع اکھٹا کیا جا سکتا ہے لیکن شاید یہ درست فیصلہ نہیں۔ اب ان کے لئے بڑا مشکل انتخاب ہے تو انہیں پارٹی یا ذاتی ترجیحات سے بڑھ کر سوچنے کی ضرورت ہے اگر وہ آئندہ عام انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کے متمنی ہیں۔ اسی طرح اس تاثر کو بھی دور کرنا اتنا ہی اہم ہے کہ ایک رہنما اور ایک جماعت کی جانچ پڑتال ہو رہی ہے۔ سوئس اکائونٹس، پرویز مشرف کے مقدمے اور اصغر خان کیس کا کیا ہوا؟ الیکشن ایکٹ2017ء اور نااہلیت کے حوالے سے تفصیلی عدالتی فیصلہ دیکھنا ہو گا لیکن یہ قرار دینا کہ نااہل رہنما پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا اور28جولائی2017ء کے بعد سے اس کے فیصلے غیرقانونی ہیں، اس سے سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپی کا باعث ہو گا کہ سینیٹ انتخابات اور 28جولائی کے بعد سے ضمنی انتخابات کا کیا انجام ہوگا؟ توقع تو یہی تھی کہ آرٹیکل۔بی (12)58کے خاتمے سے استحکام آئے گا۔ بے یقینی ختم ہو گی جس نے تین منتخب حکومتوں کو گھر بھیجا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا، اس کے بعد بھی دو منتخب وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف گھر بھیجے گئے۔ اگر عدلیہ1977ء کے مارشل لاء اور 1999ء کی فوجی بغاوت کو قانونی تحفظ فراہم نہ کرتی تو پاکستان کا سیاسی ماحول بہتر اور جمہوریت کو استحکام حاصل ہوتا۔ آئین بالاتر ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ریاستی امور اسی کے تحت چلتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آئین کی مصنف پار لیمنٹ ہی ہے۔ پاکستان اب مزید کسی سیاسی بحران اور ماورا آئین حکمرانی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کسی نظریہ ضرورت کی گنجائش نہیں۔ ریاست کے ستونوں میں جب دراڑیں پڑنے لگتی ہیں تو محاذ آرائی اور ایسے تنازعات کے ممکنہ نتائج خطرناک ہی برآمد ہوتے ہیں۔