جارحانہ بیانیہ نواز اور مریم کی رابطہ مہم کیا رنگ لائے گی؟

February 22, 2018

کرپشن فری گڈ گورننس کا نعرہ لگا کر 2013 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے سابق ویز اعظم نوازشریف کے ’’ جارحانہ بیانیہ‘‘ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں اضافہ تو کردیا ہے مگرجارحانہ بیانیہ سے کیا جمہوریت مضبوط ہوگی یا اداروں میں ٹکرائو کا موجب بنے گی یہ وہ سوال ہے جو آج ہر باشعور سیاسی کارکن پوچھ رہا ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کی عوام رابطہ مہم میں عوام کی بھرپور شرکت دوسری سیاسی جماعتوں کے مستقبل کو بظاہر تاریک کرتی جارہی ہیں مگر یہ عوامی کامیابی کیا رنگ دکھائے گی؟ کیا سینٹ الیکشن ہوجائیں گے ،عدالت عظمیٰ نواز شریف کی پارٹی صدارت کے پارلیمانی فیصلے کو ہضم کرپائے گی ، نااہلی کا فیصلہ ہمیشہ کیلئے ہوگا یا اسے پانچ سال تک محدود کردیا جائے گا۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو (ن) لیگ کی قیادت کے سامنے بے بس ہوچکی ہیں نواز شریف کی ناہلی پر بہت خوش ہیں مگر شاید وہ سمجھ رہی ہیں کہ ن لیگ کی قیادت کو پیچھے دھکیل کر انہیں اقتدار میں جگہ مل جائے گی مگر اب ایسا نہ ہوگا۔مانسہرہ، لودھراں اور شیخوپورہ میں عوامی اجتماعات میں عوام کے جم غفیر نے نوازشریف اورمریم نواز کے بیانیہ کو مزید جارحانہ کردیا ہے جس کی وجہ سے سیاسی حلقے سینٹ الیکشن اور عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بھی مایوسی کا شکارنظر آتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی پارٹی صدارت کے حوالے سے فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں ن لیگ کے امیدواروں کا معاملہ بھی متنازعہ ہوسکتا ہے جو پاکستان میں سیاسی عمل میں رکاوٹ بنے گا جس سے مزید تنازعات جنم لیں گے اورسیاسی نظام جمہوریت پٹڑی سے بھی اتر سکتا ہے ، پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہونے کے باوجود (ن) لیگ کی پوری قیادت کا انداز اپوزیشن جیسا ہے او ر وہ عدلیہ پر آمریت کو تقویت دینے کا کھلے عام الزام لگاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آمروں کیلئے63-62 کہاں سوجاتی ہے، بعض سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ عوامی مقبولیت کی وجہ سے نواز شریف دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے مگر اس پیچھے نہ ہٹنے کا آخیر کہاں ختم ہوگا۔ نواز شریف کے خلاف ریفرنسز میں ضمنی ریفرنس شامل ہورہے ہیں22 فروری کو دوغیرملکی گواہ نواز شریف فیملی کے خلاف لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں نواز شریف فیملی کے خلاف ویڈیو لنک بیان ریکارڈ کرائیں گے، استغاثہ کے مزید 16 گواہوں کے بیانات قلمبند ہونے کے بعد ریفرنسز کا فیصلہ بھی ہونا ہے۔ نواز شریف احتساب عدالت میں پیشی کے بعد یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں سزا دینے کا فیصلہ ہوچکا ہے، نوازشریف کو جیل بھیجنے سے کیا (ن) لیگ کاووٹ بنک توڑا جاسکتا ہے یا سیاسی عمل روک کر ملک میں وقتی طورپر کوئی اورنظام حکومت چلایا جاسکتا ہے،پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے پنجاب میں ڈیرے ڈالنے کے باوجود ضمنی انتخابات میں تو اُن کی سیاست ٹھپ نظر آرہی ہے ،آئندہ چھ ماہ میں کیا تبدیلی آجائے گی کہ لوگ آصف علی زرداری کی پاک دامنی کو قبول کرلیں گے، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی غریبوں کی نمائندگی کرتی تھی اور بھٹو دور میں اس کے نامزد کردہ کھمبے بھی جیت گئے تھے، پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو اب اپنا انقلابی پروگرام لانا ہوگا جس کے نتیجہ میں نچلے طبقے کے لوگ ایک بارپھر پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے کے لئے نکل سکیںگے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پانامہ پیپرز منظر عام پر آنے سے سپریم کورٹ نے نواز شریف فیملی کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا تھا، پانامہ پیپرز میں چار سو سے زائد اورنام بھی تھے مگر تحقیقات صرف نواز شریف فیملی کے خلاف عمل میں لائی گئیں اور انہیں’’ اقامہ‘‘ کی بنیاد پر نااہل کردیا گیا، چار ریفرنس احتساب عدالت میں بھیج دئیے گئے مگر وہ دیگر افراد جن کے نام پانامہ پیپرز میں موجود تھے ان کے بارے میں کوئی پیشرفت نہ ہوسکی ، کیا اعلیٰ سطحی احتساب صرف عوامی نمائندگی کومسترد کرنے کیلئے تھا، تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اداروں کے کردار سے انتقام اورامتیاز کی بونہیں آنی چاہیے،ایک طرف نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ کرپشن ثابت ہوجائے توسیاست سے ریٹائرڈ ہوجائوں گا جبکہ عدالت میں اسے چور اور ڈاکو کے ریمارکس سے نوازہ جاتا ہے بعض لوگ نااہل وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز کے اس موقف کو درست تسلیم کرتے ہیں کہ توہین صرف عدالت نہیں، وزیراعظم کی بھی ہوتی ہے۔ مریم نواز کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف یا اس کی بیٹی کو گرفتار کیاگیا تو ن لیگ کو آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت ملے گی۔ نوازشریف جارحانہ بیانیہ پر تبصرہ کرنے والے بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اس کا انجام بھی ذوالفقار علی بھٹو جیسا ہوگا جبکہ ن لیگ کے بعض حامیوں کویہ خوش فہمی بھی ہے کہ پاکستان کے عوام ترکی کی طرح اپنی قیادت کے تحفظ کے لئے بھی نکل سکتے ہیں۔پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جو ووٹ کی پرچی کے زور پر وجود میں آیا تھا مگر بد قسمتی دیکھیے کہ اپنی70 سالہ تاریخ میں پاکستان میں 35 برس سے زائد عرصہ آمریت مسلط رہی اور ڈکٹیٹر شپ کے اسی دور میں ایسا کوئی کام نہیں ہوسکا جوملک کی ترقی کیلئے تو ضروری تھا مگر صوبائی قیادت میں اختلاف رائے تھا، 70 برسوںسے جاری کھیل ختم کرنے کے دعوے توکئے جارہے ہیں مگر کیسے؟ نواز شریف کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی قیادت نے پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی حالانکہ جو معاملہ سپریم کورٹ میں نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر پہنچا ہے یہ پارلیمنٹ میں اتفاق رائے سے حل ہوسکتا تھا۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت بیرون ملک اور غیر ملکی بنکوں میں بڑے بڑے اکاونٹس رکھتی ہیں، صرف یورپ میں نہیں عرب ریاستوں میں بھی کھربوں روپے کی سرمایہ کاری موجود ہے ۔ پارلیمنٹ اس سلسلے میںایک بل پاس کرے تاکہ بیرونی سرمایہ کار اپنا پیسہ اپنے وطن میںلے آئیں۔