پھر کچھ کالے قول

March 05, 2018

گزشتہ کل یعنی 3مارچ 2018ایک روزنامہ کے سپلیمنٹ کا عنوان تھا’’سینیٹ الیکشن میں کامیابی کے لئے تجوریوں کے منہ کھل گئے‘‘۔ ’’سینیٹ سپرمارکیٹ‘‘ میں بکتی جمہوریت پر کالے قول ہی پیش کئے جاسکتے ہیں سو حاضر ہیں۔اس قوم کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی عورت بھڑکتے ہوئے شعلوں میں بیٹھ کر سولہ سنگھار کررہی ہو۔فاقے اور فینائل کی گولیوں میں کیا رشتہ ہے۔کچھ لوگ خود اپنی ذات کی تعمیر میں گھٹیا اور ناقص میٹرئل استعمال کرکے سمجھتے ہیں کہ بچت ہوگئی۔گالی نہ ہوتی تو مجھے کب کا برین ہیمرج ہوچکا ہوتا۔ایک قید سے دوسری قید تک کے فاصلے کو آزادی کہتے ہیں۔یہ ملک رندوں کے لئے مشکل اور درندوں کے لئے آسان ہے۔ہمارے سیاستدان پھٹے ہوئے دودھ سے بھی دہی بنالیتے ہیں۔ہم جعلی نبی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جعلی امتی برداشت کرلیتے ہیں۔گیٹ کے سامنے گاڑی پارک کرنا منع ہے لیکن گدھا گاڑی، ٹانگہ، ریڑھا اور فوجی ٹرک ٹھیک ہے۔کبھی مسجدیں کچی ایمان پکے تھے، ا ب مسجدیں پکی ایمان کچے ہیں۔خالی پلاٹ پر بہت نظریں ہوتی ہیں، خالی پیٹ کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا۔مسلمان صرف نقالی کررہے ہیں یا جگالی۔اسلام نہیں مسلمان زوال کی زد میں ہیں۔ہیرو تو نصیبوں والی قوم کو ملتے ہیں، ہمیں تو جنیوئن ولن بھی نہیںمل رہا۔کام کرنےوالا کمی ......حرام کھانے والا خاندانی۔لیڈر دو طرح کے، اول انگوٹھا چھاپ، دوم نوٹ چھاپ۔کوئی ایسی دوا ایجاد ہونی چاہئے جسے کھا کر بھوگ لگنی بند ہوجائے۔مٹی کا ہر ڈھیر.......مٹی میں مٹی ہونے سے پہلے سونے چاندی کے تعاقب میں کیوں رہتا ہے۔معیار زندگی کیا .......یہاں تو معیار مرگ بھی موجود نہیں۔آدم خور نے کہا.......’’تم بہت خوبصورت ہو اس لئے میں تمہیں ہلکی آنچ پر بھونوں گا‘‘۔تلوار کا ڈھال کے ساتھ بے مثال رشتہ ہے۔کچھ خواتین عریانی سے ستر پوشی کا کام لیتی ہیں۔دوسری جنگ عظیم ایٹم بم پر ختم ہوئی، تیسری جنگ عظیم شروع ہی ایٹم بم سے ہوگی اور پھر چوتھی کی نوبت کبھی نہ آئے گی۔مسائل ......صرف سائل پیدا کرتے ہیں۔سخت سردی کا توڑ یہ نہیں کہ بندہ دہکتے انگارے چبانا شروع کردے۔ ٹیکس پیئر کا پیسہ کھانے والا بدترین حرام کھانے کا مرتکب ہوتا ہے۔انسان کیلنڈروں اور گھڑیوں کا قیدی ہے۔جوانی ہو تو تجربہ نہیں ہوتا، تجربہ ہو تو جوانی نہیں ہوتی۔فرعونوں کا ہونا المیہ نہیں، المیہ تو یہ ہے کہ کوئی موسیٰ نہ ہو۔تقریر اور تحریر بیچنے والے اجتماعی قتل کے مرتکب ہوتے ہیں کیونکہ یہ’’حال‘‘ ہی نہیں’’مستقبل‘‘ بھی گھائل کردیتے ہیں۔ہم وہ بھیڑیں ہیں جو بھیڑیوں کو اپنی نگہبانی اور نگرانی سونپ چکی ہیں۔میرٹ کی لاش پر کرپشن کا مجرا بدترین دہشت گردی ہے۔جس ملک میں’’اوزار‘‘ اور ’’ہتھیار‘‘ امپورٹ ہوتے ہوں وہاں تہوار بھی امپورٹ ہوجایا کرتے ہیں۔ہر’’مہذب‘‘ چور اور حرام خور اپنے دفاع کے لئے دلیلیں، تاویلیں اور معروضات پیش کرسکتا ہے۔ائے وہ بدنصیب’’ ہم‘‘ جو گودے اور مغز سے بےنیاز فقط چھلکوں سے پیٹ بھرنے کے بعد حیران ہوتے ہیں کہ ہماری’’صحت‘‘مسلسل بگڑ کیوں رہی ہے۔لاوارث آدمی کے لئے بوڑھی بھیڑ بھی بھیڑئیے سے کم نہیں۔خودکشی دراصل ’’قتل‘‘ کی سب سے بھیانک شکل ہے۔کانٹے کی عمر پھول سے لمبی ہوتی ہے۔سمندر سے محبت کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں ڈوب جائو۔برائی میں زوال نہ سہی، اعتدال ہی اپنا لو۔جہاں’’گواہی‘‘ بکنے لگے وہاں تباہی بٹنے لگتی ہے۔اعتماد گیا تو سمجھو بنیاد گئی۔بچوں کو نکتہ چینی نہیں’’نمونے‘‘ بن کر سمجھائو۔کچھ لوگ غلیظ مکھیوں کو شہد کی مکھیاں سمجھ بیٹھتے ہیں۔