احتساب کا حساب کتاب

March 07, 2018

مجھے کوئی پوچھے کہ ملکی مسائل کے حل کا ’’اسم اعظم‘‘ کیا ہے تو میں تین باتیں عرض کروں گا۔انصاف عام ہو۔احتساب سرعام ہو۔اقتدار میں ’’عوامی نمائندوں‘‘ کی نہیں..... عوام کی شرکت اورشراکت کو یقینی بنایا جائے۔اس ’’تین نکاتی ایجنڈے‘‘ میں انصاف سے کیا مراد ہے؟ اور اقتدار اعلیٰ میں ’’عوامی نمائندوں‘‘ کے بجائے عوام کی شرکت اورشراکت سے کیامرادہے؟ اس پر پھر کبھی کھپ کھپا لیں گے، آج اپنی سوچ بچار احتساب کے حساب کتاب تک محدود رکھتے ہیںکیونکہ۔احتساب تو نہیں..... احتساب کے چرچے آج کل بہت عام ہیں۔ اپوزیشن لیڈر سے لے کر صدر مملکت تک ’’احتسابیات‘‘ پر متفق دکھائی دیتے ہیں۔محترمہ کی اس مسئلے پر مزاحمت بھی دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ کیا واقعی موسم احتساب کی آمد آمد ہے؟کیا سچ مچ بھرپور، مکمل اورجینوئن احتساب ہوگا؟کیا واقعی اس کا دائرہ سیاستدانوں سے لے کر بیوروکریٹوں اور صنعتکاروں تک پھیلا ہوا ہوگا؟یا یہ احتساب بھی اغوا کرلیا جائے گا..... ہائی جیک ہوجائے گا؟ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ حکمران طبقات کرپشن اور لوٹ مار کی اس انتہا پر بڑھتے ہوئے عوامی غصے کے غبارے سے کچھ ہوا نکالنے کے لئے احتساب کے ڈرامے کے لئے اسٹیج کی تیاری میں مصروف ہیں تاکہ جعلی احتساب کاجھنجھنا عوام کے ہاتھوں میں دے کر دونوںہاتھوں سے ملکی وسائل کی لوٹ مار کاعمل مزید چند سالوںکے لئے محفوظ اور ’’رسک فری‘‘ کرلیاجائے۔اس سلسلے میں بہت سے سوال اور خدشات ہیں جن میں سے چند پر روشنی ڈال کر باقی کام اپنے ذہین قارئین کے زرخیز خیال اور تصور پر چھوڑے دیتاہوں۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جس دن اس ملک میں جینوئن اور حقیقی احتساب کی بو پھیلی..... بہت سے لوگ بلکہ خاندان، پاکستان چھوڑ جائیں گے کیونکہ بیرونی مالک میں اثاثے بنانے اور غیرملکی بینکوں میں بھاری رقوم جمع کرانے والوں کی یہ ساری حرکتیں دراصل اس حکمت ِ عملی کا حصہ ہیں کہ جب کبھی خطرہ محسوس ہوا، راتوںرات ملک چھوڑ کر فرارہوجائیں اور باقی عمر کسی ’’مہذب ملک‘‘ میں بیٹھ کر اللہ اللہ کریں۔ یہ طبقہ خطرناک حد تک ’’خبردار‘‘ ہے لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس ملک کے کرپٹ ترین لوگ بھی بلند آواز میں ’’احتساب احتساب‘‘ پکار رہے ہیں جوقبل ازوقت ہی اس سارے عمل کو کم از کم میری نظروںمیں’’مشکوک‘‘ بنائے دے رہاہے۔یہاں میں ’’اپنی نظر‘‘ کی وضاحت کردوں بلکہ اپنا تعارف کرادوں کہ میں خدانخواستہ کوئی ’’نابغہ‘‘ یا دانا سیانا شخص نہیں ہوں لیکن ایک بات جانتاہوں کہ ایک خاص طرح کے علم کا نزول دماغ پر نہیں دلوں پر ہوتا ہے اور میں اپنی کسی بھی حس یا حساس ادارے کے بجائے اپنی چھٹی حس پر زیادہ اعتبار کرتا ہوں اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری چھٹی حس نے مجھے کبھی دھوکہ نہیں دیا۔ ایمان کی بات ہے کہ زندگی میں اپنے محدود علم کے ہاتھوںکئی مرتبہ مار کھائی ہےلیکن اس ناکارہ او ر آوارہ آدمی کو اس کے آوارگی زدہ وجدان نے کبھی دھوکہ نہیں دیا۔میرا وجدان کہتا ہے کہ احتساب نہیں..... احتساب کا محض ڈرامہ رچانے اور خلق خدا کو پرچانے کے لئے انتظامات ہورہے ہیں تاکہ عوامی نفرت کی رفتار کم کی جاسکے..... اس کا رخ موڑا جاسکے اور صورتحال کو کچھ عرصے کے لئے ہی سہی، ’’ڈی فیوز‘‘ کیا جاسکے۔خدا کرےمیرا یہ خدشہ غلط ثابت ہو لیکن جب میں جانےپہچانے اور منے پرمنے لٹیروں کو بھی ’’احتساب احتساب‘‘ کرتے دیکھتا ہوں تو میرے اندر کاحساب کتاب مجھے کوئی اور ہی جواب دیتا ہے اور میں خود کو اس بات پر مجبور پاتا ہوں کہ اس ملک کے بھولے بھالے عوام کو بروقت اپنے اندیشوں اور خدشوں میں شریک کرلوں تاکہ وہ اقتدار مافیا کی مکاری کے ہاتھوں زک اٹھانے اور ایک نیا دھوکہ کھانے سے بچ سکیں۔ایک اور امکان یا خدشہ ’’احتساب‘‘ کے ’’اغوا‘‘ کا بھی ہے کہ جس ملک کو آزادی ملتے ہی ایک فاسق و فاجر اقلیت اس کی آزادی اغوا کرکے اسے کبھی آمریت اور کبھی آمریت زدہ جمہوریت کے زندان میں پھینک سکتی ہے، وہی خوں خوار اور فنکار اقلیت..... احتساب کو اغوا کیوںنہیں کرسکتی؟ اس سار ےعمل کو سبوتاژ اور تارپیڈو کیوں نہیں کرسکتی؟یہ تو تھے امکانات اور خدشات لیکن دوسری طرف عدلیہ سے لے کر ایوان ِ صدر تک امید کے کچھ جگنو اور چراغ بھی ٹمٹاتے دکھائی دیتے ہیں۔ عدلیہ نے تو کرپشن کی ایسی تعریف (Defination) پیش کی ہے کہ روح نہال ہوگئی۔ایک فاضل جج نے چندروز پہلے فرمایا۔’’ناہلی اور نالائقی بھی کرپشن ہی کی ایک قسم ہے۔‘‘اور واقعی ’’کرپشن صرف مالی ہی نہیں‘‘جذباتی اوراستعدادی بھی ہوتی ہے۔ادھر صدر کی جانب سےکرپشن کے خاتمے کے سلسلے میں لکھے گئے خطوط کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینکوں کو ایک اہم سرکلر جاری کردیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ فوری طور پر اپنی دس سالہ کارکردگی کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرتے ہوئے 1993سے لے کر 1996 تک قرضے معاف کرانے والوں کی پوری فہرست، پوری تفصیلات کے ساتھ مہیا کریں۔ امید ہے کہ ایسے ریکارڈ کی طلبی احتساب کمیشن کی تشکیل کا ابتدائی مرحلہ ہے اوراس کمیشن کے بنتے ہی تمام سیاسی، انتظامی اور کاروباری بدعنوان عناصر کے خلاف احتسابی عمل کا آغاز ہو جائے گا۔اللہ کرے .....ایسا ہی ہو۔احتساب ہو اور بےحساب ہو۔احتسابی عمل مسلسل اور مستقل ہونے کےساتھ ساتھ کسی ایک شعبے یا کسی ایک جہت تک محدود نہ ہو کہ صرف ’’قرضہ خور‘‘ مافیا نے ہی ملک نہیں لوٹا، رشوت اور کمیشن خوروں نے بھی اس ملک کو کھوکھلاکردینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مہنگائی بھی دراصل اسی ’’کرپشن‘‘ کے انڈوں بچوںمیں سے ایک ہے اور ملکی معیشت کے گلے میں خوفناک قرضوں کی لعنت کا طوق بھی اسی ’’کرپشن‘‘ کی ناجائز اولاد ہے۔احتساب کے حساب کتاب میں ایک اور پہلو انتہائی اہم ہے کہ اس سلسلے میں ’’عینی شہادتوں‘‘ کے بجائے ’’واقعاتی شہادتوں‘‘ پرانحصار کیاجائے کہ کوئی کرپٹ اپنی کرپشن کے ’’ثبوت‘‘ نہیں چھوڑتا اور حرام کا وجود ہی اس کے حرام ہونے کی سب سے بڑی گواہی ہوتا ہے۔اور اگراحتساب کے نام پر اندر خانے کوئی اور ہی حساب کتاب ہوا .....تو حکمران طبقہ جان لے کہ اس سے وقتی طور پرتو جان چھوٹ جائے گی لیکن انہیں جلد ہی اس امتحان سے گزرنا ہوگا۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، یہ امتحان سخت سے سخت تر ہوتا چلاجائے گا کہ..... ’’100 دن چور کے‘‘ کے بعد ایک دن ’’سادھ‘‘ کا بھی آنا ہی ہوتاہے۔(نوٹ) یہ کالم 7اکتوبر 1996کو شائع ہوا تھا۔ عوام آج بھی ایسے ہی اندیشوں کی لپیٹ میں ہیں۔ مجرم اس بار بھی بچ گئے تو باقی کیا بچے گا؟