عالمی یومِ خواتین : خواتین تیز ، دنیا تیز

March 08, 2018

رضیہ فرید

’’مجبوری اور محتاجی‘‘ زندگی کی ایسی زہریلی سچائیاں ہیں جو ہر گزرتے لمحے انسان کو بہت کچھ سکھا دیتی ہیں لیکن کچھ انسانوں کو سمجھنے کے لئے ان کی شخصیت کا علم ہوناضروری نہیں ہوتا۔

کچھ کی آنکھیں ایسے آئینوں کی طرح ہوتی ہیںجو خاموش رہتے ہوئے بھی ایک جھلک میں اپنی کہانی بیان کردیتی ہیں۔ اس عورت کی آنکھیں بھی ان آئینوں جیسی تھیں جن میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کا عکس واضح تھا، جو جمیلہ تیل والی کے نام سے مشہور ہے۔ اس نے زندگی کی وہ ٹھوکریں اور مجبوریاں دیکھی ہیں جو اس خطے کی معاشی بدحالی اور عورت کے نصیب میں لکھی گئی ہیں۔ جہاں احساسات اور جذبوں تک کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔

جہاں ہزاروں افراد بے روزگاری کی انجمن بنائے وقت کے رحم کے ملتجی ہیں۔ وہ تو ایک غریب اور ناتواں عورت تھی۔ کوئی ایسا پیشہ اختیار کرنا چاہتی تھی جو لوگوں کی نظروں میں قابل عزت ہو، جس کی وقعت ہو، مگر خواہش کی شاید تعریف یہ ہے کہ وہ کبھی پوری نہیں ہوتی۔ جمیلہ تیل والی کی بھی خواہش پوری نہ ہو سکی۔

Your browser doesnt support HTML5 video.


حقیقت تو یہ ہے کہ،زندگی میں بعض لمحے ایسے آتے ہیں جب انسان کو بے اختیار ہو جانا پڑتا ہے۔ جب پسند یا ناپسند کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جب صبر بھی کرنا پڑتا ہے اور جبر بھی لیکن اس صبر اور جبر میں پسنے والی جمیلہ اپنے پیروں پر ایسے کھڑی ہوئی کہ ارد گرد کام کرنے والے مردوں کے ہوش اڑا دیئے۔

جمیلہ کی زندگی اس کہانی کا مضبوط کردار ہے۔ جہاں زندگی کی تلخ حقیقتیں منہ پھاڑے کھڑی رہتی ہیں، لیکن اس نے راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو نہ صرف عبور کیا بلکہ اپنے حوصلے سے بڑی سے بڑی مشکل کو بھی حل کیا۔

مشکلات و مصائب جھیلنےکے باوجود جمیلہ کے لب و لہجے اور چہرے پر مایوسی کی کوئی ایسی پرچھائی بھی نظر نہیں آتی جو اس کے کرب انگیز حالات کی نقاب کشائی کرے، جس سےوہ اپنی عمر کے کے ابتدائی دور میں دوچارہو گئی تھی۔ دکھوں اور آنسوئوں میں بھیگی اس کہانی کا آغاز تو اس وقت ہو گیاتھا جب چند ماہ کے وقفے سے ماں باپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ لیکن ان دکھوں اور مسائل میں اضافہ اس وقت ہوا جب شادی کے چند ماہ بعد شوہر کا بھی انتقال ہو گیا ۔

حالات نے جمیلہ کو بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ شوہر کا کفن میلا بھی نہیں ہوا تھا کہ اس نے شوہر کا تیل کاٹھیہ ہاتھوں میں لے لیا ۔ ایک عورت کو چوک پر بیٹھا دیکھ کر مردوں کی انگلیاں اٹھیں۔

ٹھیے کے کاریگروں نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ، دو پیسے ہاتھ نہیں آئیں گے۔خاندان والوں نے سمجھایا لیکن اس نے سنی ان سنی کردی اور رزق حلال کمانے میں مگن ہو گئی۔ یہ اس کے حوصلے کی ایسی داستان ہے جہاں مجبوری بھی ہے،معذوری بھی،غربت بھی ہے اور یقین و استقلال بھی۔

لکھ پتی چوک( رنچھوڑ لائن) کے فٹ پاتھ پر دو ٹھیے چلانے والی جمیلہ پر اٹھنے والی انگلیاں اور نظریں اس وقت جھک گئیں جب وہ مہارت سے گاڑیوں کے نٹ کھولتی ، تیل بدلی کرتی، انجن دھوتی ، گدھا گاڑی پر بیٹھ کر پٹرول پمپوں اور عمارتیں تعمیر کرنے والوں کو تیل سپلائی کرتی اپنے آپ سے بیگانہ نظر آتی ،لیکن سر سے پیر تک سفید چادر کو سرکنے نہیں دیتی۔ آج جمیلہ کو تیل بدلی کرتے تقریباًبائیس سال ہو گئے۔ وہ لکھ پتی چوک پر چٹان بنی کھڑی کام کرتی رہتی ہے۔

سابق امریکی خاتون اول ،روزویلٹ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’خواتین ٹی بیگ کی طرح ہوتی ہیں جب تک گرم پانی میں نہ ڈالو، ان کی طاقت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ‘‘ برسوںقبل کہی اس بات کی تصدیق حال ہی میں یونیورسٹی آف سدرن، ڈنمارک نے سائنسی بنیادوں پر کرتے ہوئے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں درج ہے کہ ’’خواتین مردوں کے مقابلے میں ، المیوں اور دبائو کا بہتر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں، وقت نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے کہ صنف نازک ہرگز نازک نہیں، وہ تشدد، ناانصافی ، سے جنگ لڑتے لڑتے جب تھک جاتی ہے،تو پھر اپنی بپتا سناتی ہے، اس وقت اس کے لہجے کی کاٹ سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ سچ بول رہی ہے، ایسا سچ جسے سننے والے بیش تر مرد جھوٹ کہتے ہیں،جیسا کہ جمیلہ تیل والی کی سچ بیتی کو جاننے کے لیے بہت سے مرد اسے دیکھنے لکھ پتی چوک گئے اور خاموش لوٹ آئے ۔

یونی ورسٹی آف سدرن کی تحقیقی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد بریکنگ نیوز کے لئے بے چین میڈیا نے رپورٹ کے مختلف نکات گھن گرج آوازوں میں سنائےتو مختلف حلقوں سے شور بلند ہوا کسی نے کہا ،جس بات کو ثابت کرنے کی ضرورت پیش آئے، وہ سچ نہیں ہو سکتا۔

برنالٹ بریخت جرمن زبان کا بہت بڑا ادیب تھا، اس نے اپنی مشہور کتاب ’’گلیلیو کی زندگی‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے،

’’وہ رات بہت بھیانک ہوتی ہے، جب کسی انسان پر سچ کا انکشاف ہوتا ہے۔ ‘‘مگر سچ کی صورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں، جن پر پڑے ہوئے نقاب کو ہٹانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک سچ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام کو ثابت کرنا بھی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ رجحان مشرقی معاشرے سے زیادہ مغربی معاشرے میں ہے۔ لیکن وہاں( مغرب میں) جب ایک عورت کسی مرد پر الزام لگاتی ہے کہ اسے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے تو کارپوریٹ کلچر والی دنیا میں بھی اس الزام کو سنجیدگی کے ساتھ لیا جاتا ہے اور پوری کوشش کی جاتی ہے کہ شکایت کرنے والی عورت کی بات سنی ہی نہیں سمجھی بھی جائے۔

اس کا بین ثبوت ٹائم میگزین کی وہ رپورٹ ہے جو 18دسمبر2017کو شائع ہوئی ،جس کے ابتدائیے میں درج ہے، 2017ء میں امریکی اداکارہ الیسا میلانو نے’’ می ٹو‘‘کے ہیش ٹیگ سے ٹوئیٹ کیا تھا کہ جنسی حملے اور ہراساں کرنے کا شکار خواتین اس ٹوئیٹ کو ری ٹوئیٹ کریں، تا کہ لوگ اس مسئلے کی شدت کو سمجھ سکیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چوبیس گھنٹوں میں مختلف ممالک کی تقریباً پانچ لاکھ خواتین نے ساری دنیا کو جنسی ہراسانی کے مسئلے کی جانب متوجہ کرتے ہوئے اپنے میسج میں لکھا کہ، ہم بھی ہراسانی کا شکار ہوئے ہیں۔

اس طرح ٹوئیٹ کے ذریعے ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے سے ’’می ٹو‘‘ تحریک بن گئی۔ جس میں بتایا گیا کہ، نجی اداروں، سرکاری اداروں اور ہر جگہ کام کرنے والی یا گھریلو خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے، ان کو زبان دی جائے اور خاموشی توڑنے والی خواتین کا ساتھ دیا جائے، ان میں ہر ملک، ہر مذہب، ہر نسل اور ہر عمر کی متاثرہ خواتین شامل ہیں۔

ہالی وڈ کے پروڈیوسر، وائن اسٹائن کے خلاف ان خواتین نے اپنے لب کھولے، جنہیں اس نے ہراساں کیا، ان کا استحصال کیا، گرچہ اس پرپہلا کنکر امریکی اداکارہ لیزا امیلا نے پھینکا ، لیکن اس کے بعد تو اس پرایسا پتھرائو ہوا،کہ نہ صرف اسے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھوناپڑے، بلکہ اس کی بیوی نے بھی کہہ دیا کہ ’’میں اپنے شوہر سے علیحدگی کا سوچ رہی ہوں۔‘‘

ایسا لگ رہا ہے کہ دنیا بھر کی خواتین ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیںگی۔ مغربی معاشرے میں خواتین کا استحصال اور ہراس منٹ کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن 2017ء میں مغربی خواتین نے جس طرح اپنی خاموشی توڑی اور مظلوم خواتین کو اپنے ساتھ ملایا اور پھر آوازیں ایسی بلند ہوئیں کہ امریکا کے معروف جریدےٹائم میگزین نے اپنے سالانہ شمارے میں ’’خاموشی توڑنے والے افراد کو سال کی بہترین شخصیت قرار دیا۔

صدیوں سے عورتیں دستور زباں بندی پر عمل کرتی آئی ہیں۔ روایات اور رسوم عورتوں کو لب کشائی کا موقع نہیں دیتے، لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ عورتیں خاموشی کا پردہ چاک کر رہی ہیں، گرچہ مردوں کی بہ نسبت وہ اپنا بچائو شاذو و نادر ہی کرتی ہیں، لیکن اب ان سے کہا جا رہا ہے، جو کہنا ہے کھل کر کہیں ، اپنی تکالیف اور احساس جرم کی گراں باریوں کا خاکہ نہ کھینچیں بلکہ خود ساختہ زندان کے درودیوار توڑ کر خاموشی توڑدیں، بالکل ان خواتین کی طرح، جیسے مغرب کی خواتین نے لب کشائی کی۔

مغرب کا آزاد معاشرہ بھی اس حوالے سے خود کو پابند سمجھتا ہے کہ کسی عورت کو جنسی طور پر ہراساں نہ کیا جائے مگر مشرقی معاشرے کی عورت اگر غیر روایتی کردار ادا کرنے کے لئے آگے آتی ہے ۔گھر سے باہر نکلتی ہے تو اس کی راہ میں جو بہت ساری مشکلات حائل ہوتی ہیں، ان میں ایک مشکل ہراساں کرنے کی کوشش ہے۔ وہ روایات کی زنجیروں میں جکڑی ہوتی ہے، مگر اسے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی بات سننے کے بجائے اس پر الزامات کی بوچھاڑ شروع ہو جائے گی۔

اس لئے وہ بہت کم بولتی ہے اور جو کہتی ہے اس کے دل میں اس سے کہیں زیادہ کہنے کو ہوتا ہے لیکن وہ سوچتی رہتی ہے کہ کیا اس کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کو صحیح طرح سنا جائے گا۔ اس کے سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لئے کہیں اس پر ایسے الزامات تو عائد نہیں کر دیئے جائیں گے کہ وہ اپنے آپ کو چھپاتی پھرے۔

واقعی سچ کو سمجھنا اور جاننا اس قدر آسان ہوتا تو دنیا ایسی نہ ہوتی جیسی ہے، کیوں کہ یہاں سچ کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یقین نہیں آ رہا تو 64سالہ عاتکہ گل کی سچ بیتی بھی سن لیں،جس نے غربت سے جنگ لڑتے لڑتے دولت کو مٹھیوں میں لیا، اسے قدم قدم پر ہراساں کیا گیا ، الزامات عائد کئے گئے لیکن وہ سب کو نظر انداز کرکے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتی رہی۔ عاتکہ کہتی ہے،

’’میں ایک بستی کے ایسے محلے میں پیدا ہوئی جہاں زیادہ تر غریب لوگ رہتے تھے، جہاں کی یادیں بھوک، خوف اور بم باری تھیں لیکن 64سالہ زندگی میں جو یادداشتیں مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں، وہ امید کے لمحے ہیں۔ سب ہی غریبوں کی طرح میں نے بھی بھوک کے ہاتھوں تکالیف اٹھائی ہیں۔

میرے بچپن میں اسپگاٹی سستی غذا تھی لیکن ہمارے گھر میں کھانے کے لیے وہ بھی نہیں ہوتی تھی۔ اماں کی کوشش ہوتی تھی کہ چھٹی کے دن بچوں کے لیے کچھ خاص پکائیں۔ میں بے صبری سے چھٹی یعنی اتوار کا انتظار کرتی تھی لیکن جب یہ دن بھی بھوکا یا عام سا کھانا کھاکر گزر جاتا تو میں رات کو بستر پر لیٹ کر بہت روتی تھی۔

آج میں دولت میں کھیل رہی ہوں جس کے کمانے میں اپنا بچپن، جوانی سب خرچ کردی۔ میرے جاننے والوں کا خیال ہے کہ، اب میں کنجوس عورت ہوں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ میں بنئےکی طرح حساب کتاب رکھتی ہوں لیکن میں صرف اتنا کہوں گی کہ میں ایک محتاط تاجر ہوں۔ روپے کی قدر و قیمت سے خوب واقف ہوں۔ میں نے صفر سے ابتدا کی تھی۔

کسی دوسرے کی دولت کے سہارے زندگی کے آرام لوٹنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ میرے دو بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا بارہ سال کا ہے۔ میں نے اس عمر میں کام کرنا شروع کردیا تھا۔ بیٹا جب مجھ سے پیسے مانگتا ہے تو میں اس سے کہتی ہوں، اگر تمہیں ذاتی خرچ کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے تو اس کے لیے تمہیں کام کرنا پڑے گا۔

پھر میں اس سے گھر کا کوئی ایسا کام کرواتی ہوں جو اسے پسند ہوتا ہے۔ مثلاً پیزا بنانا، باغ بانی کرنا، پرندوں کے پنجروں کی صفائی وغیرہ کرنا، اس کے بعد اسے پیسے دیتی ہوں جو اس کے کام کا معاوضہ ہوتا ہے۔ جب میں اپنے چھوٹے چھ سالہ بیٹے کی عمر کی تھی تو میرے پاس کھلونے تک نہیں تھے۔

کھیلنے کے لیے کبھی گھر کی گلی میں اپنے سائے کے پیچھے بھاگتی رہتی تھی اور کبھی کسی پڑوس کے گھر سے چابی کے کھلونوں کی آوازیں آتیں تو اپنے گھر کی منڈیر پر بیٹھ کر برابر کے صحن میں چلنے والے کھلونوں کو دیکھ کر سوچا کرتی کہ میں بڑے ہوکر ریل گاڑی چلائوں گی۔

جوں جوں بڑی ہوتی گئی، چھک چھک کرتی ریلیں اور سیٹیاں بجاتے انجن میری دنیا سے دور ہوتے گئے۔ خدا کا شکر ہے، میرے بچوں کے پاس بہت سے کھلونے ہیں۔ میں گلی کے کوچوں میں پلی بڑھی ہوں۔ فقر و فاقے اور بے خوابی کے معنی معلوم ہیں۔ آج بھی جب ٹی وی پرغربت کی چادر میں لپٹی فلمیں دیکھتی ہوں تو چاہتی ہوں کہ میرے بچے یہ فلمیں دیکھیں تاکہ ان کو پتا چلے کہ دنیا میں یہ چیزیں بھی موجود ہیں۔

میں نےغربت سے جنگ لڑتے لڑتے کیسے دولت کو مٹھیوں میں لیا، کہنے کو تو یہ ایک طویل داستان ہے لیکن میں مختصراً بتانا اس لیے چاہوں گی کہ شاید دیگر خواتین کی زندگی بدل جائے۔ میں وہ دن بھول نہیں سکتی جب میں نے زندگی کے بارہویں سال میں قدم رکھا ہی تھا کہ ماں نے یہ کہہ کر مجھے اسکول جانے سے منع کردیا کہ اب اسکول کی فیس دینا میرے بس میں نہیں ہے۔

ماں کا حکم سر آنکھوں پر لیکن متواتر کئی راتیں سوچتے سوچتے گزاردیں، پھر ایک رات بستر پرکروٹیں بدلتے بدلتے فیصلہ کیا کہ میں تعلیم حاصل کروں گی دوسرے دن اسکول گئی۔ پرنسپل اور کلاس ٹیچر کو اپنی تعلیم جاری نہ رکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا، میڈم مجھے اسکول کی کینٹین میں ملازمت دے دیں، اس طرح شاید میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں۔

پھر ایسا ہی ہوا، میں نے ملازمت کے ساتھ تعلیمی سلسلہ شروع کردیا۔ جب امتحان ہوتے تو اس میں شریک ہوجاتی۔ اسکول پانچویں جماعت تک تھا، یہاں تک تو پڑھ لیا تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ مزید پڑھنے کے لیے دوسرے اسکول میں داخلہ لیتی تو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑتا، سو تین سال تک کینٹین میں ملازمت کرتی رہی۔

دوپہر کو گھر جاتی، شام کو ایک پڑوسن سے سلائی کڑھائی سیکھتی، مفت ہنر مند بننے میں کوئی برائی نہیں تھی۔ پڑھنے کا شوق تھا، سو رات کو پڑھتی اور پھرمیٹرک کا امتحان پرائیویٹ دے دیا۔ اسکول کی چھٹیوں میں گھر پر اماں کے ساتھ اچار، چٹنیاں، پاپڑ اور چپاتیاں بناکر مختلف گھروں اور دفاتر میں بیچنے کا سلسلہ شروع کیا۔ روزانہ دو ڈھائی سو روپے کی بچت ہوجاتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے کاروبار بڑھتا گیا، حالات بہتر ہوتے گئے ۔

اب میرے پاس خواتین کی پوری ٹیم ہے جو سب غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کو گھر بیٹھے چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے کے طریقے بتاتی اور بچوں کو پڑھاتی ہوں۔ کاروبار پھیلتا جارہا ہے لیکن بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرتی ہوں۔

بچوں کی خواہشات ضرور پوری کرتی ہوں لیکن جب میں دکانوں سے بچوں کی خواہشوں اور اپنے خوابوں کی خریداری کرتی ہوں تو فضائوں میں ان آہوں کی آنچ محسوس کرتی ہوں جو لاتعداد مجبور خواتین کی آنکھوں سے گرتی ہوئی ان کے چہروں میں جذب ہوجاتی ہیں۔

سوچتی ہوں نہ جانے کتنی خواتین کی جوانیاں روٹی کا تعاقب کرتے گزریں اور گزر رہی ہوں گی مگر میں سمجھتی ہوں کہ لاتعداد خواتین نے معاشی میدان میں اپنے قدم جماکر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنا آپ ہی نہیں دنیا کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ اگر صنفی تفریق ختم ہوجائے تو وہ معاشی انقلاب لاسکتی ہیں۔

عاتکہ گل نے صفر سے معاشی سفر شروع کیا جس میں کروڑوں ہندسے شامل ہوگئے ہیں لیکن ان کا سفر زندگی آسان نہیں تھا ۔ان کے سچ کوبھی جھوٹ ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ جو معاشرہ اپنے سینے پر غیرت کا تمغہ سجا کر چلتا ہے اس معاشرے کی عورت اگر اپنے زوربازو پر آگے بڑھتی ہے تو اس کی راہ میں سب سے بڑی اور سب سے بڑی مشکل یہ آتی ہے کہ اسے ہراساں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اب وقت بدل گیا ۔

ایک وقت تھا جب خواتین کے لیے کہا جاتا تھا کہ ان کےآگے بڑھنے، کارکردگی دکھانے اور منزلیں سر کرنے کے لیے جب تک ماحول سازگار نہ ہوگا ان سے کچھ کر دکھانے کی توقع کرنا عبث ہے، لیکن ناسازگار ماحول میں بھی انہوں نے وہ کچھ کر دکھایا جو مرد اپنی بالادستی اور حکمرانی کے باوجود نہ کرسکے۔

اطراف سے آنکھیں چراتے ہوئے خود آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور ایسی بلند چھلانگ لگائی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ آج ہر شعبہ زندگی میںان کی کارکردگی دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے پوری دنیا کو بدل رہی ہیں۔

متعدد ماہرین معیشت نے تو دنیا میں عورت راج کے قائم ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا ہے۔ مستقبل کا مورخ جب مختلف بحرانوں کے ساتھ مالیاتی بحران کا ذکر کرے گا تو یہ بات نظرانداز نہیں کرسکے گا کہ خواتین سے امتیازی سلوک اس بحران میں ان کے لیے مفید ثابت ہوا جس کے لیے انہیں مردوں کی طرح نہ پاپڑ بیلنے پڑے اور نہ ہی کوئی طویل منصوبہ بندی کرنی پڑی۔

کسی عورت نے جھونپڑی میں اسکول کھولا تو کسی نے اپنے گھر کے کچے صحن کو ذریعہ روزگار کے طور پر استعمال کیا، کسی نے چھوٹے سے قطعہ زمین پر سبزیاں اگائیں تو کسی نے اپنے گھر کو ہی انڈسٹریل ہوم بنالیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اب وہ اسکول قائم کررہی ہیں، کاروباری ادارے قائم کررہی ہیں، نئی ٹیکنالوجی متعارف کرارہی ہیں، گھروں میں بیٹھ کر رائے عامہ ہموار کررہی ہیں،غرض یہ کہ انہوں نے معیشت کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے۔

اگرچہ زندگی کے ہر شعبے میں آج بھی مردوں کی بالادستی ہے، مگر خواتین نے اپنے پیروں میں بندھی زنجیریں اس طرح توڑ دیں کہ ترقی یافتہ ممالک بھی یہ کہنے اور تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ صنفی مساوات اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک خواتین کو سماجی پیداوار کے کام سے الگ رکھ کر خانہ داری کے کام تک جونجی کام ہیں، محدود رکھا جائے گا، لیکن اب بات کسی کے کہنے اور تسلیم کرنے کی نہیں ہے۔ خواتین نے ازخود اپنی اہمیت تسلیم کروالی ہے۔

یہ سوال بہت سے لوگوں کے اذہان میں آسکتا ہے کہ خواتین بھلا کیسے معاشرہ تبدیل کرسکتی ہیں؟ اس کا جواب امریکا کی 19 سالہ سیجال ہتیھی کی کارکردگی سے مل جائے گا ،جس سے کوئی توقع کرسکتا تھا کہ وہ کم عمری میں بیس ممالک کی تیس ہزار لڑکیوں کی زندگی اس طرح بدل دے گی کہ وہ غربت سے جنگ لڑکر نہ صرف تعلیم سے بہرہ مند بلکہ معاشی طور پر بھی مضبوط ہوجائیں گی۔ سیجال چوتھے گریڈ کی طالبہ تھی۔

ایک دن اس کی ٹیچر نے اس سے پوچھا کہ وہ زندگی میں کیا کرنا چاہے گی؟ سیجال نے فوراً کہا کہ وہ دنیا کو محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس کے لیے لڑکیوں کی تعلیم اور غربت کا خاتمہ ضروری ہوگا۔ پندرہ برس کی عمر میں سیجال نے ’’گرلز ہیلیپنگ گرلز‘‘ کے نام سے ایسوسی ایشن بنائی اور اپنی ساتھیوں کو اس میں شامل کرلیا۔

اسکول سے گھر آنے کے بعد وہ بیش تر وقت ایسوسی ایشن کے کاموں میں گزارتی۔ وہ کہتی ہے ’’میں نے اپنے اردگرد کی دنیا بدل دی، جہاں کی کوئی لڑکی اسکول سے غیرحاضر نہیں رہتی اور کوئی عورت بے کار نہیں بیٹھتی‘‘۔

امریکی تھنک ٹینک کونسل آف فارن ریلیشنز کے ویمن اینڈ فارن پالیسی پروگرام کی ڈائریکٹر اروبیل کولین نے اپنی کتاب "Paradise beneath her feet" منظر عام پر آئی ہے۔ اس کتاب میں لکھا کہ وہ خواتین کی زندگی بہتر بناکر ہی ہم معیشت کو مضبوط اور معاشرے کو زیادہ مفید اور صحت مند بناسکتے ہیں۔

2008ء میں دو کروڑ ڈالر معاوضہ ادا کرکے دنیا کی پہلی خلاباز خاتون کا اعزاز حاصل کرنے والی ایران کی انوشہ انصاری نے اپنی آپ بیتی ’’مائی ڈریم آف اسٹارز‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’میں دنیا بھر کی نوجوان لڑکیوں کو متاثر کرنا چاہتی ہوں اور انہیں سبق دینا چاہتی ہوں کہ وہ کبھی بھی اپنے خوابوں سے پیچھے نہ ہٹیں اور مردوں کی ہٹ دھرمی سے خوف زدہ ہوکر گھر کی چار دیواری میں نہ بیٹھیں۔‘‘

آج کی عورت پرانی سماجی اقدار سے بغاوت کرکے ایک تحریک منظم کرنے کی کوشش کررہی ہے جو اس تصور پر استوار ہے کہ اب صنفی امتیازات کو ختم ہونا چاہئے اور عورت کو بہ طور انسان وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو ایک مرد کو حاصل ہیں۔

بدلتے دور میں اس نے یہ بھی جان لیا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باعث معاشی ترقی کے عمل میں جسمانی قوت سے زیادہ ذہن کی طاقت کی اہمیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یقیناً مردوں کی وہ سبقت جلد ختم ہوجائے گی جو انہیں اب تک حاصل رہی ہے۔ اب عورتوں کے پیداواری عمل میں شرکت اور معاشی خودمختاری عورتوں کی بالادستی کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔

امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کا معاشی کردار وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ عالمی سطح پر خواتین خریدار کی حیثیت سے بھی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی مارکیٹ کے طور پر سامنے آرہی ہیں۔ یہ غیرمعمولی تبدیلیاں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔

ٹائم میگزین کی ایک رپورٹ 2010ء کے مطابق خواتین خریداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر بین الاقوامی کمپنیوں کی حکمت عملی میں بھی بنیادی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ اب ان کے پیش نظر نت نئی مصنوعات اور خدمات کو متعارف کرواکر خواتین کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ صارف کی حیثیت سے بھی خواتین کی اہمیت کو نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں رہا۔

ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق امریکا میں ملازمت پیشہ افراد میں صنفی اعتبار سے پایا جانے والا فرق ختم ہونے سے امریکا کا جی ڈی پی 9 فی صد تک بڑھ جائے گا، اسی طرح برازیل، روس، بھارت اور چین کے علاوہ ان گیارہ ممالک (بنگلہ دیش، مصر، انڈونیشیا، ایران، میکسیکو، نائیجریا، پاکستان، فلپائن، جنوبی کوریا، ترکی اور ویت نام) میں ملازمین میں پائے جانے والے جینڈ رگیپ کے خاتمے سے ان ممالک کی فی کس سالانہ آمدنی میں 2020ء تک 14 فی صد اور 2030ء تک بیس فی صد اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

اس وقت ترقی پزیر ممالک میں خواتین اپنی آمدنی کا 90 فی صد جب کہ مرد اپنی آمدنی کا 30 سے 40 فی صد اپنے خاندان پر خرچ کرتے ہیں۔

کئی تحقیقاتی رپورٹس اس بات کا انکشاف کرچکی ہیں کہ جن کمپنیوں کے فیصلہ سازوں میں خواتین شامل ہیں، انہوں نے نسبتاً کم خواتین فیصلہ ساز رکھنے والی کمپنیوں سے زیادہ معاشی ترقی کی ہے۔ 2009ء کے ’’اکانومسٹ‘‘ سروے کے مطابق جن کمپنیوں نے خواتین ملازمین کو تربیت کی فراہمی اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے کے لیے اقدامات کیے، ان کے سالانہ منافع میں 34 سے 36 فی صد اضافہ ہوا۔

(امریکا) وائٹ ہائوس میں عوامی امور کے شعبے کی سابق ڈائریکٹر، کرسٹینا شین کے مطابق، خواتین میں تعلیم اور بڑھتی ہوئی خود مختاری کے باعث معاشرتی استحکام اور معاشی ترقی میں مدد مل رہی ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں بھی یہ کردار بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر کی خواتین کو اپنی اہمیت منوانے کے لیے طویل جدوجہد کرنا پڑی۔ جیسے جیسے انہیں اپنی قوت اور اہمیت کا اندازہ ہوتا گیا وہ اپنا دائرہ اثر وسیع کرتی گئیں۔ معمولی نچلے درجے کی ملازمت کرتے کرتے آج وہ اپنے ذاتی کاروبار کررہی ہیں۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ خواتین میں تعلیم عام ہونے اور میڈیا کے طاقت ور کردار سے لوگوں میں شعور بیدار ہوا ہے اور خواتین کو کم تر سمجھنے کے رجحان میں بڑی حد تک کمی ہوئی ہے، لیکن بیش تر ممالک میں صنفی امتیاز اور مردوں کی حاکمیت آج بھی برقرار ہے۔

یہ مسئلہ صرف غریب اور پسماندہ اقوام کا ہی نہیں بلکہ جدید ترقی یافتہ اور روشن خیال مغربی ممالک میں بھی خواتین کو صنفی تفریق کا سامنا ہے، مگر کوئی کچھ کرے، کچھ کہے اب دنیا بدل رہی ہے۔

برسوں کی سردمہری کے بعد یہ اچانک اتنی سرگرمی کیوں؟

پوری دنیا میں شور مچ رہا ہے کہ باصلاحیت لوگوں کی اشد ضرورت ہے۔ ہر ملک چاہتا ہے کہ اب اداروں میں خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جائے، ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اور کم و بیش ہر ملک کی جائزہ رپورٹوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ نہیں کیا جارہا۔

جائزوں میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جن کمپنیوں کے سینئر عہدوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے وہ ان اداروں کے مقابلے میں زیادہ نفع بخش ہیں، جہاں خواتین کی تعداد کم ہے۔

2011ء کے موسم بہار میں یورپی یونین کی جسٹس کمشنر ویوین ریڈنگ نے دس یورپی ملکوں کے کاروباری رہنمائوں کو جمع کیا، جس کا مقصد ان پر زور دینا تھا کہ وہ اعلیٰ عہدوں پر زیادہ سے زیادہ خواتین کو جگہ دیں۔

اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو یہ مسئلہ یورپی یونین کی سطح پر اٹھایا جائے گا اور اس ضمن میں لازمی کوٹا بھی مختص کیا جاسکتا ہے۔

عام طور پر کوٹا سسٹم کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، اس لیے دیگر ممالک متبادل راستے اختیار کررہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کمپنیاں خود ہی خواتین کو ملازمتیں دیں۔

معاشی بحران کا حل نسائی قوت سے ممکن ہوگا

امریکی جریدے ٹائم کے مطابق ہمیں جس مردانہ معاشی بحران کا سامنا ہے، اس کا حل نسائی قوت سے ممکن ہوگا۔ بعض شواہد اس بات کی طرف بڑا واضح اشارہ کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں اقوام کی معیشت کا انحصار مردوں سے زیادہ عورتوں پر ہوگا۔

جریدے ٹائم کے مطابق 1997ء سے 2002ء کے دوران خواتین کی زیر ملکیت کمپنیوں نے تقریباً 20 فی صد شرح نمو کے ساتھ ترقی کی، جب کہ دیگر کمپنیوں کی شرح نمو سات فی صد رہی۔

اسی طرح 2002ء سے 2005ء تک نئے کاروبار کا آغاز کرنے والی کمپنیوں میں ہر تیسری کمپنی کسی خاتون کی ملکیت تھی، اس کے ساتھ ساتھ امریکا میں خواتین کی زیر ملکیت کاروباری اداروں نے دیگر اداروں کے مقابلے میں دگنی ترقی کی ، اس سے امریکا سمیت دنیا بھر کی خواتین کو عملی میدان میں آنے کا حوصلہ ملا اور انہوں نے کاروباری دنیا میں ایک نئے عزم کے ساتھ قدم رکھا، جووقت کے ساتھ تیز سے تیز تر ہوتے جارہے ہیں۔

اب سینیٹ میں آوازبلند کریں گی، سینیٹر،کرشنا کماری

کرشنا کماری سینیٹ الیکشن کی عام نشستوں پر سندھ سے کامیاب ہونے والی پاکستان کی تاریخ میں پہلی تھری خاتون ہیں۔

تھرکے ضلع نگر پارکر کےانتہائی غریب کولہی خاندان سے تعلق رکھنے والی کرشنا کماری ایک ایسی باہمت خاتون ہیں، جن کا بچپن اپنے خاندان سمیت عمر کوٹ کے ایک وڈیرے کی نجی جیل میں گزرا۔پھر یہ ہو ا کہ نہ وہ جیل رہی اور نہ اس جیل میں قید رہنے والی لڑکی کے پاؤں سے بندھی بیڑیاں۔

ظالم وڈیرے کی قید سے رہائی کے بعد کرشنا نے اپنے سر کی اجرک کو پرچم بنا لیااور اب یہ پرچم پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں لہرانے جا رہا ہے۔

نگرپارکر کے ہاری خاندان میں جگنوکولہی کے گھر پیدا ہونے والی کرشنا جب اپنے والدین کے ساتھ زمین دار کی نجی قید میں تھیں، اُس وقت اس کی عمر صرف تین سال تھی۔

سولہ سال کی عمر میں ان کی شادی ہوئی تونویں جماعت کی طالبہ تھیں،لیکن وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے شوہر لال چند نے شادی کے بعد بھی ان کے نام سے جڑی علم کی لو کو مدھم نہیں ہونے دیا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2013ء میں کرشنا نےسندھ یونیورسٹی سے سماجیات میں ماسٹرز کرلیا۔

دوران تعلیم وہ تھر اور دیگر علاقوں کے پسماندہ لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے بھی کوششیں کرتی رہی۔لیکن کرشنا کماری کی کہانی یہیں سے شروع نہیں ہوتی۔

تاریخ کے اوراق پلٹتے جائیں تومعلوم ہوگا، ان کے خاندان میں ایک میناوتی بھی تھی۔یہ کون تھی؟میناوتی انگریزوں کے خلاف لڑنے والے عظیم سندھی ہیرو روپلو کولہی کی شریکِ حیات تھی۔1857ء میں جب انگریزوں نےنگرپارکر کے راستے سندھ پر حملہ کیا تومزاحمت کرنے والے ٹھاکر راجپوت مکھیہ راناکرن سنگھ کے اگلے دستوں کی کمانڈ روپلوکولہی کے ہاتھوں میں تھی۔

22اگست 1859ء کو جب انگریز روپلوکولہی کو پکڑ کر تختہء دار پر لٹکانے کے لیے لے گئے تو میناوتی کی آواز اس کے کارونجھرپہاڑ جیسے مضبوط ارادوں کو کچھ اور جلا بخش رہی تھی۔

انگریز ٹھاکررانا کرن سنگھ کا ٹھکانہ بتانے کے صلے میں روپلو کی جان بخشی کرنے کو تیار تھے۔روپلو بدترین تشدد کے باوجود کچھ نہیں بولا،وہ تو وطن کے لیے جان دینے چلا تھا ، وطن سے غداری اس کے خمیر میں نہیں تھی۔

ایسے میں میناوتی کی آوازگونجی کہ ’’روپلا، اگر تو نے انہیں کچھ بتایا تو پارکر کی کولہنیاں مجھے طعنے دیں گی، آئے دن کوسیں گی کہ وہ دیکھو غدار کی بیوی۔میں تیرا مرا ہوا منہ تو دیکھ سکتی ہوں، اپنے آپ کوبیوہ توقبول کر سکتی ہوں لیکن مجھے ایک غدار کی بیوی ہونا قبول نہیں‘‘اور پھرببول کے پیڑ سے لٹکی ہوئی روپلو کی لاش میناوتی کو کولہنیوں کے طعنوں سے بچا گئی۔ کرشنا کولہی اسی روپلو کولہی کی پوتی ہیں۔

کرشنا کوہلی تقریباً بیس سال سے تھر میں لڑکیوں کی تعلیم اور صحت کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔ـ 2010 میں جنسی ہراساں کرنے کے خلاف بل سے لے کر اٹھارویں ترمیم کی بحالی تک کرشنا نے کافی جگہوں پر کام کیا ہےـ، عورتوں کی صحت اور تعلیم کے لیے ،جو پلیٹ فارم چاہتی تھی ،وہ اسے آخرکار مل گیا ہے۔ـوہ کہتی ہے کہ میری خواہش ہے کہ میں اپنے لوگوں کی امیدوں پر پورا اُتروں ـ۔سینیٹ میں خواتین کے حقوق اُن کے مسائل پر آواز بلند کروں۔

سابق خاتون مئیر،ہیلن زلے نے جنوبی افریقا کے شہر کیپ ٹاؤنکا نقشہ بدل دیا

جنوبی افریقاکے شہر کیپ ٹائون کی سابق مئیر ہیلن زلے کو ان کی کارکردگی دیکھتے ہوئے2009میں دنیا کی بہترین خاتون میئر کا اعزاز ملاتھا۔ ہیلن نے 2006 میں شہر کی کمان سنبھالی تو ملک میں سب سے زیادہ قتل، ڈکیتیاں کیپ ٹائون میںہوتی تھیں۔

گینگ ریپ اور تشدد کے حوالے سے بھی یہ شہربدنام تھا۔ ہیلن نے اپنے وژن اور تجربے کےساتھ کیپ ٹائون کے باسیوں کی زندگی بدل ڈالی۔

معاشی حالات بہتر بنانا اُن کی پہلی ترجیح تھی، جو انہوں نے کرکے دکھائی اور چند ماہ میںہی اپنی پالیسیوں پر ایسا عمل درآمد کیا کہ لوگوںکی شرح آمدنی میں اضافہ اور بے روزگاری میں کمی ہوگئی۔ اُن کے میئر بننے سے قبل کیپ ٹائون میں بے روزگاری کی شرح 20.7فی صد تھی، جو اُن کے میئر بننے کے دو سال کے اندر 17.9فی صد تک کم ہوگئی۔

کیپ ٹائون کے بڑے مسائل میں ایک مسئلہ غربت کا تھا۔ ناگفتہ بہ زندگی گزارنے والوںمیں بچوں کی حالت انتہائی خراب تھی، اسٹریٹ چلڈرن کی تعداد میں ہر گزرتے دن اضافہ ہورہا تھا۔

ہیلن نے اس مسئلے کے حل کے لیے پہلے ان اسباب کا جائزہ لیا کہ کیوںبچے گھروںکے بجائے فٹ پاتھوں پر زندگی گزار رہے ہیں، بعد ازاں گلیوںاور بازاروں میں رہنے والے بچوںسے بات چیت کی،اس مقصدکےلیے وہ کبھی شام اورکبھی رات کو بازار جاتیں اور جو بچے فٹ پاتھ پر بیٹھے نظرآتے، ان سے بات چیت کرتیں، پھر ان ہی بچوںسے گلیوںاور سڑکوں کی صفائی کروائی، دیواروں سے وال چاکنگ مٹوائی اور اسٹریٹ لائٹس پر لگے فالتوپوسٹر اتروائے، ان کاموںکا ہیلن نے بچوںکو معاوضہ دیا۔

ہاتھ میںپیسے آئے تو بچوںمیں کام کرنےکا جذبہ پیدا ہوا اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے شہر صاف ستھرا ہوگیا۔ اسی اثنا میں ہیلن نے شیلٹرز ہوم قائم کیے، جہاں بے سہارا عورتوں، بچوں کو پناہ دی ۔ اسکول قائم کیے۔ غریبوں کے لیے رہائشی اسکیمیں نافذ کیے۔

آج کیپ ٹائون کے فٹ پاتھوں پر کوئی بچہ سوتا نظر نہیں آئے گا۔جرائم کی شرحکم ہوگئی ہے اور یہ سب ایک عورت کے فیصلوں سے ہوا ۔

پشپا بسنت

جیل میں قید خواتین بچوں کو پالتی ہیں

پشپا بسنت کا تعلق نیپال سے ہے۔2005ء میں اس نے کھٹمنڈو جیل کا دورہ کیا، وہ گریجویشن کررہی تھی، اس کا خصوصی مضمون سوشل ورک تھا۔ جیل کا دورہ اس کی تعلیم کا حصہ تھا، اس سے قبل اس نے کبھی جیل کا دروازہ تک نہیںدیکھا تھا۔

جیل کی اندرونی زندگی سے ناواقف تھی۔ جب مطالعاتی دورے پر خواتین جیل میں قدم رکھا تو اس کی آنکھیں جھپکنا بھول گئیں۔ بچے کھلے میدان میں بیٹھے تھے، ان کے سروںپر نہ کوئی سائبان تھا اور نہ ہی زمین پر چادر۔ وہ کھردری زمین پر بیٹھے مٹی سے کھیل رہے تھے۔ گھروندے بنا بنا کر توڑ رہے تھے۔

کھلی آنکھوں سے زندگی کی تلخ حقیقت کو پشپا بسنت نے دیکھا اور چند لمحے میں اس کے دماغ کے بند در کھل گئے۔ جیل وارڈن سے اس کا پہلا سوال تھا ’’یہ کس کے بچے ہیں۔‘‘ وارڈن نےکرخت لہجےمیںجواب دیتے ہوئے کہا ’’ان عورتوںکےہی ہیں، کوئی اپنی گود میںبچے کو لے کر آئی تو کوئی پیٹ میں۔ ان کے کیے کی سزا بچے بھگت رہے ہیں‘‘۔ پشپا نے سوچا کہ جو کچھ میرے پاس ہے، وہ دوسروں کے پاس بھی ہونا چاہیے۔

اسی سوچ کے ساتھ جیل سے نکلتے ہی اس نے اپنی زندگی کاسفرنئے انداز سے شروع کیا۔ اس وقت اس کے بینک اکائونٹ میں ایک لاکھ نیپالی روپے تھے۔ اپنے والدین، رشتے داروں، ، دوست احباب سے سوشل ورک کے نام پر پیسے مانگے،سب نے کچھ نہ کچھ دیا اور چند دنوںمیں ستر ہزار روپے جمع ہوگئے۔

پشپا نے کھٹمنڈو میںایک عمارت دس ہزار نیپالی روپے کے عوض کرایہ پر لی اور یہاں’’بےبی ڈے کئیر سینٹر‘‘ کھول لیا۔ کھلونے، فرنیچر اور بچوں کے لکھنے پڑھنے کا سامان رکھا۔ جیل حکام اور بچوںکی مائوں سے بات چیت کرکے ان تمام بچوںکو اپنے ڈے کئیر سینٹر میں لے آئی، جو جیل کے ماحول میں پلتے بڑھتے تو نہ جانے کس نہج پر چل پڑتے۔ پشپا کا یہ سفر زندگی آسان نہیں تھا۔

ایک بین الاقوامی این جی او اور ٹیلی ویژن انٹرویو میںپشپا نے بتایا کہ جیل سے بچوںکو نکالنے میں بہت مشکلات ہوئیں۔ ابتدا میں جیلرز مجھ پر شک کرتے تھے، بلکہ کئی دفعہ تو اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے مجھ سےکہا، لگتا ہے تم بچوں کو فروخت کرو گی، مائوںنے بھی بچے حوالے کرتے ہوئے کئی سوالات پوچھے، بعدازاں کچھ عرصےبعدجب میںان بچوںکو مائوں سے ملوانے جیل گئی، جو پہلی دفعہ میرے ساتھ آئے تھے، انہیں دیکھ کر نہ صرف ان کی مائیں، بلکہ جیل حکام بھی حیرت زدہ رہ گئے۔

بچے صاف ستھرے لباس میں تھے۔ ان کے رکھ رکھائو اور بات چیت کے انداز میںنمایاں فرق نظر آرہا تھا، انہیںدیکھ کر ہر اُس ماں نے جس کی گود میںبچہ تھا یا ان کا پلو پکڑے سہمے کھڑا تھا، خوشی خوشی میرے سپرد کردئیے۔

2005میں پشپا پہلی مرتبہ چند بچوں کو جیل سے لے کر آئی تھی۔ اب اس سینٹر میں تقریباً 250بچے ہیں، سو سے زائد بچے سیکنڈری کلاسوں میںہیں۔ 2012میںپشپا کو امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این نے ’’ہیرو آف دی ائیر‘‘ کا ایوارڈ دیا، ساتھ تین لاکھ امریکی ڈالر دئیے ۔ اس رقم سے پشپا نے ایک قطعہ اراضی خرید کر ایک عمارت تعمیر کی، تاکہ مزید بچوں کو یہاںرکھا جائے۔

پشپا نے نپے تلے انداز میں قدم بڑھایا۔ وہ کہتی ہے، جب میںپیچھے مڑکر دیکھتی ہوںتو خود حیران ہوجاتی ہوںکہ میری ایک چھوٹی سی سوچ بڑے پروجیکٹ میں بدل گئی۔ واقعی کسی کام کا ارادہ کیا جائے تو ہوہی جاتا ہے۔ میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ کھٹمنڈو کی خواتین جیل میں ایک بچہ بھی اپنی ماںکے پاس نہیں ہوگا۔ میںنے دوسروں کے بچے اپنے بچے سمجھ کر پالے ہیں۔

وہ لڑتے جھگڑتے بھی ہیں اور کھیلتے کودتے بھی ہیں ۔ اُن کا بچپن ان سے چھینتے چھینتے رہ گیا۔ اگر ہر ملک کی عورتیں کھڑی ہوجائیں اور جیلوں سے بچوںکو نکال کر ان کےلیے ڈے کئیریا ہاسٹل بنالیںتو دنیا میں بڑی تبدیلی آجائے گی۔

میںنے تنہا کام شروع کیا۔ آج میرے ساتھ ٹیم ہے۔ ہمیںمختلف تنظیمیں اور ادارےفنڈز بھی دیتے ہیں، جو ہم بچوںکی تعلیم ، صحت، کھانے پینے پر خرچ کرتے ہیں۔ پشپا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جیل میںقید خواتین کے بچے پالتی ہے۔اس نے اب تک شادی بھی نہیں کی،اس ضمن میں اُس نے ’’سی این این‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئےکہا کہ شادی کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ہے۔