کلچرل پالیسی کی شہزاد کہانی

March 09, 2018

میں نے پڑھا، سنا اور دیکھا ، کہا گیا پاکستان میں پہلی بار کلچرل پالیسی بنائی گئی پھر کہا گیا پہلی دفعہ فلم کو انڈسٹری کا درجہ دیا گیا، سنتے ہوئے میرے اندر ماضی کی گھنٹیاں بجنے لگیں 1972میں فیض صاحب نےکلچرل پالیسی بنائی، وہ مسودہ ابھی تک محفوظ ہے کہ اس پر بحث بھی بہت ہوئی اور اس کے نتیجے میں نیف ڈیک قائم ہوا۔ جس کے لئے باقاعدہ فلم پالیسی کے علاوہ فلمیں بنانے، فلمسازوں کی معاونت، امپورٹ فلم کوٹہ اور مشینری میں معاونت کرنی تھی، باقاعدہ عمارت کے ذریعہ نیف ڈیک نے کام شروع کیا، سینما ہائوس بھی بنایا گیا۔ جاگو ہوا سویرا جیسی فلم بھی بنائی گئی جس کا اسکرپٹ اور گانے بھی فیض صاحب نے لکھے۔ بعدازاں فلم خاک و خون بھی بنائی گئی۔ بھٹو صاحب کا تختہ اُلٹا، ضیا الحق کےزمانے میں بھی نیف ڈیک سسکتارہا، سینما ہائوس تو مشرف کے ابتدائی زمانے تک موجود تھا۔ ا سلام آباد میں میلوڈی ایک اور سینما تھا، جس کو جلا دیا گیا تھا۔ وہاں فوڈ اسٹریٹ بن گئی۔ نیف ڈیک اور سینما بند کر دیا کہ اب چمگادڑوں کا کوئی گھر نہیں۔ ان کی استراحت کیلئے بلڈنگ بنجر کر دی گئی۔
جب مشاہد حسین وزیر اطلاعات بنے، ان کو بھی کلچرل پالیسی بنانے، فلم والوں سے ملنے اور فلم کو صنعت کا درجہ دینے کا خیال آیا۔ لاہور میں پوری فلمی صنعت کے جگمگاتے ستارے بلا کر بھاشن سنایا گیا اور اب پھر فلم کو انڈسٹری کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا۔ بڑے شادیانے بجے اُدھر دیکھا تو کیا شباب اسٹوڈیو، کیا باری اسٹوڈیو، کیا شاہ نور اور ایور نیو اسٹوڈیو ویران ہو گئے وہی 1948 کا شکستہ سامان اور کیمرے استعمال کرتے ہوئے بے چارے سید نور نے کام کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران ہمارے بہت سے نوجوان باہر سے فلم اور اسکرپٹ رائٹنگ سے لے کر، ڈیجیٹل کیمرے اور اتنے سارے الیکٹرانک آلات لے کر آگئے کہ کراچی پھر جوان ہونے لگا اور کام لاہور میں کم اور کراچی میں تجرباتی سطح پر کیا جانے لگا۔
ابھی ایک اور کلچرل پالیسی کا حوالہ رہ گیا ہے وہ بی بی بے نظیر کے زمانے میں فخر زمان صاحب نے بنائی تھی۔ اس کے ترجمے بھی ہوئے اور زیر بحث ان کی وزارت کے زمانے تک رہی۔ بعدازاں مشرف نے بھی فلم والوں کو کئی بار اکٹھا کیا۔ فلم کو انڈسٹری بنانے کا مژدہ سنایا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ انہوں نے بھی فلمی ستاروں کے ساتھ تصویر یںبنالیں۔ بات ختم،، اب سی پیک کے حوالے سے مریم بی بی اور جمال شاہ نے پھر ڈول ہاتھ میں اٹھایا ہے۔ بڑے نازو نعمت اور کروفر کے ساتھ اعلان کیا گیا۔ نیف ڈیک کی عمارت کی خستہ خالی چیخ رہی ہے۔ میری اُجڑی جوانی کو واپس لائو، اب تو آغا ناصر، اسلم اظہر، خواجہ شاہد حسین، کس کس کا نام لوں، سبھی تو رُخصت ہو گئے۔ فاروق لغاری بھی رخصت ہو گئے۔ جنہوں نے پریزیڈنسی میں لگانے کے لئے پاکستان بھر کے مصوروں کو نقوشِ پاکستان بنانے کو کہا سب نے جی جان سے بنائیں مگر ان پینٹنگز کو ایوان صدارت کی دیواریں میسر نہیں ہوئیں۔ میں نے خود، ایوان صدارت میں کئی بڑے آرٹسٹوں کے پرنٹس لگے دیکھے ہیں۔ اب وہ ساری پینٹنگز کہاں گئیں۔ سی ڈی اے کے کسی کباڑ خانے یا پھر جہاندیدہ افسروں کے گھر پر لگی ہوں گی۔ بالکل اس طرح کہ جب نیشنل سینٹر بند ہوئے تو وہاں موجود نوادرات اور کتابیں کہاں گئیں۔ نیف ڈیک کا سینما، لاہور الفلاح بلڈنگ میں بھی تھا۔ اس کا بھی حشر خراب ہوا۔ کراچی میں ضیامحی الدین کا بنایا ہوا ڈانس اور میوزک ٹروپے تھا اس کو یہ کہہ کر بند کر دیا گیا کہ فنڈز نہیں ہیں۔ اب پھر سنا ہے قفس کی طرح زندہ کرنے کا سامان ہے۔ ابھی تو پاک چائنا کلچرل سینٹرز بنیں گے۔ جہاں چینی زبان اور رقص سکھائے جائیں گے۔
لاہور فیسٹیول میں امریکی رہنما کہہ رہے تھے کہ ہم لوگ کچھ بے معنی لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً اُمہ کا لفظ، جوسارے مسلمانوں اور مسلم ممالک کی مشترک آبادی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہر ملک جو مسلمان ہیں ان کا اپنا اسلامی نظام ہے، کہیں اُسے بادشاہت کہا جاتا ہے اور کہیں جمہوریت، تقابل کیلئے آپ برونائی اور سعودی عرب دیکھ لیں، نہیں انڈونیشیا اور ایران دیکھ لیں او آئی سی میں اتنی طاقت نہیں کہ یمن اور شام میں روزانہ ہزاروں لوگوں کے بے گھر ہونے اورمرنے کو رکوا سکے۔ سب جانتے ہیں، یہ لڑائی دو اسلامی ممالک کی حاکمیت کی لڑائی ہے۔ واپس پاکستان آئیں، اُسی فیسٹیول میں جو ہمارے محنتی نوجوان رضی احمد نے خوبصورتی سے آراستہ کیا تھا۔ وہاں امریکہ سے آئی ڈاکٹر عذرا رضا نے اپنے کلیدی خطبے میں کہا کہ عورتوں اور نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے کے زمانے سے بہت آگے آکر دنیا کے نوجوان کہہ رہے ہیں کہ اب ہمیں اجتماعی طور پر عملی کام کرنے چاہئیں۔ ورنہ یہی کہتے رہیں گے کہ ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے کہ آج کل بھی بیوی کی کڈنی نکال کر شوہر اس لئے بیچ رہا ہے کہ وہ جہیز کم لائی تھی۔ ڈاکٹر عذرا تہذیب کی بات پر زور دے رہی تھیں۔ ہم سوچتے رہے کہ کون سی تہذیب، خربوزے سے روٹی کھانے کو سل پر پسی ہوئی مرچوں سے روٹی لگا لگا کر پیٹ بھرنے اور خدا کا شکر ادا کرنے والوں کی تہذیب کو، سڑک پر روڑے کوٹتی گھونگھٹ نکالنے والی عورت کی تہذیب، ہم جانتے ہیں کہ بوتلوں میں ملنے والا پانی وہی ہے جو گوٹھ کے تالاب میں، عورتیں کپڑے دھوتی اور جانور پانی پیتے ہیں۔ پھر بھی فیشن میں ہم بوتل کا پانی پیتے ہیں۔ خیر جانے دیں!
جس وقت مریم بی بی فلم انڈسٹری کا اعلان اسلام آباد میں کر رہی تھیں بالکل اس وقت بلکہ اسی شام بلاول بھٹو زرداری، بین الاقوامی فلمی میلے کا افتتاح کراچی میں کر رہے تھے۔ یہ میلہ نوجوانوں نے بالکل لاہور کے رضی احمد کے میلے کی طرح، اپنی توانائیاں خرچ کر کے منعقد کیا ہے کام چاہے لاہور میں، اسلام آباد یا کراچی میں ہو، جلدی جلدی آگے بڑھنا چاہئے کہ بین الاقوامی دنیا کے حصار میں ہم بحیثیت پاکستان ’’گرے‘‘ ایریا میں ہیں۔ اگلے تین مہینوں میں کیا ہم صرف دہشت گردی نہیں، ذہنی دہشت گردی کو بھی ختم کر کے نئی کلچرل پالیسی کے تحت، ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح نہیں، بلکہ حکم کے مطابق علم حاصل کرنے چین تک جائیں گے۔ کڑاہی کلچر سے کتاب کلچر کی سمت سفر کریں گے۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998