تپِ دق: 2030ء تک مرض پر قابو پالیا جائے گا۔۔۔۔؟؟

March 18, 2018

ڈاکٹر اقبال پیرزادہ

عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام ہر سال24مارچ کو تپِ دق (ٹی بی) کا عالمی یوم منایا جاتا ہے، جس کا مقصد اس مُوذی مرض سے متعلق ہر سطح تک عوام النّاس میں شعور و آگاہی عام کرنا ہے۔ امسال اس دِن کے لیے جس تھیم کا اجراء کیا گیا ہے، وہ "Wanted: Leaders For A TB-Free World-U Can Make A History, End TB" ہے۔ یعنی ’’دنیا سے تپِ دق کے خاتمے کے لیے رہنما درکار ہیں، تاکہ مرض کا خاتمہ ہو اور ایک تاریخ رقم کی جاسکے۔‘‘

عالمی ادارۂ صحت کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بَھر میں تپِ دق کے حوالے سے جاری آگہی مہم اور علاج کی بدولت مرض کے پھیلائو میں سالانہ دو فی صد کمی واقع ہورہی ہے، جب کہ یہ اُمید بھی ظاہر کی گئی ہے کہ 2020ء تک کام یابی کی اس شرح میں چار سے پانچ فی صد تک اضافہ متوقع ہے۔

یہاں تک کہ 2030ء تک مرض پر قابو پالیا جائے گا۔ یاد رہے کہ تپِ دق کا شمار دنیا بَھر کے دس مُہلک امراض میں کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تپِ دق کے شکار 80فی صد مریضوں کا تعلق افریقا، جنوبی ایشیا اور مشرقی یورپ کے غریب اور پس ماندہ مُمالک سے ہے، جب کہ20فی صد مریض ترقی یافتہ مُمالک میں مقیم ہیں۔ نیز، دنیا بَھر میں سالانہ تقریباً ایک کروڑ افراد اس عارضے کا شکار ہوجاتے ہیں، جن میں سے 15لاکھ لقمۂ اجل بھی بن جاتے ہیں۔ بچّوں کے حوالے سے بات کی جائے، تو سالانہ دس لاکھ بچّے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، جن میں سے ڈھائی لاکھ مختلف پیچیدگیوں کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔

پاکستان بھی دنیا کے ہائی رسک مُمالک میں شامل ہے، جہاں ایک اندازے کے مطابق سالانہ5لاکھ افراد اس عارضے کی لپیٹ میں آرہے ہی، جن میں سے70,000موت کے مُنہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔ جب کہ تپِ دق کی خطرناک قسم، جو ایم ڈی آر (Multi Drug resistance T.B) کہلاتی ہے،سالانہ30ہزار افراد کو متاثر کررہی ہے اور دنیا بَھر میں اس کی شرح سالانہ چھے لاکھ مریض ہیں۔

تپِ دق، جسے سِل بھی کہا جاتا ہے، ایک سخت جان اور مُہلک جرثومے’’مائیکو بیکٹریم ٹیوبر کلوسز (Mycobacterium Tuberculosis) کے سبب لاحق ہوتی ہے۔ یہ مرض تاریخ کا سب سے قدیم اور متعدی عارضہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا بَھر کی کل آبادی کا ایک تہائی حصّہ ایسا ہے، جن کے پھیپھڑوں میں تپِ دق کا جرثوما پایا تو جاتا ہے، لیکن فعال نہیں، کیوں کہ یہ جرثوما فعال تب ہی ہوتا ہے، جب انسان کی قوتِ مدافعت کم زور پڑ جائے۔

بہ صورتِ دیگر جرثوما جسم میں موجود ہونے کے باوجود بے ضرر ہی رہتا ہے اور قوتِ مدافعت کم زور ہونے کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم، چند ایک وجوہ ایسی ہیں، جن پر ماہرین متفق ہیں۔

جیسا ک تمباکو نوشی، ذیابطیس، ایڈز، غذائی قلّت اور پُر ہجوم رہایش مثلاً جیلیں، یتیم خانے اور اولڈ ہائوسز وغیرہ۔ دراصل ٹی بی کے جراثیم ہوا کے ذریعے ایک فرد سے دوسرے فرد تک منتقل ہوتے ہیں، اس لیے جب مریض کھانستا، چھینکتا یا تھوکتا ہے، تو یہ جرثوما ہوا میں پھیل کر کسی دوسرے فرد کو متاثر کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اگر یہ جرثوما سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوجائے، تو قوتِ مدافعت فوری طور پر اس کے خلاف ردِّعمل ظاہر کرتی ہے، لیکن اگر کسی مقام پر قوتِ مدافعت اور جرثومے کے درمیان مقابلے کا توازن بگڑ جائے، تو مائیکو بیکٹیریم ٹیوبر کلوسز تقسیم در تقسیم ہوکر افزایش کرنے لگتا ہے۔

عمومی طور پر اس کا زہریلا مواد پھیل کر سب سے پہلے پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے اور پھر مرض کی مخصوص علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ مثلاً مسلسل دو ہفتے یا اس سے زائد مدّت تک کھانسی کا رہنا، جو عام علاج سے ٹھیک نہ ہو، بخار، زائد پسینہ، سینے میں درد، سانس کا پھولنا، بلغم میں خون کا اخراج، بھوک نہ لگنا اور وزن میں کمی وغیرہ۔ واضح رہے کہ آخری چار علامت لازم نہیں کہ ہر مریض میں ظاہر ہوں۔ تاہم، پہلی دو علامات سرِفہرست ہیں۔ ٹی بی جسم کے کسی بھی حصّے میں ہوسکتی ہے، لیکن یہ عارضہ زیادہ تر پھیپھڑوں ہی کو متاثر کرتا ہے۔

مرض کی تشخیص کے لیے معالج خون کے ٹیسٹس، بلغم کا معائنہ اور سینے کا ایکسرے تجویز کرتا ہے اور جب حتمی تشخیص ہوجائے، تو پھر علاج کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر خدانخواستہ مرض کی بروقت تشخیص اور علاج میں تاخیر ہوجائے، تو اس عارضے میں مبتلا مریض سال بَھر میں دس سے پندرہ صحت مند افراد میں جرثوما منتقل کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

تاہم، مریض بروقت تشخیص اور مستند علاج کی بدولت مکمل صحت یاب ہوکر زندگی کی بھاگ دوڑ میں شامل ہوسکتا ہے، کیوں کہ یہ مرض مکمل طور پر قابلِ علاج ہے بہ شرط یہ کہ علاج کا دورانیہ پورا ہو، جو چھے ماہ پر مشتمل ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر علاج ادھورا چھوڑ دیا جائے یا پھر غیر معیاری ادویہ استعمال کی جائیں، تو تپِ دق ایم ڈی آر ٹی بی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور اگر پھر ایم ڈی آر کے علاج میں کسی قسم کی کوتاہی برتی جائے، تو یہ یکس ڈی آر ٹی بی (Extensively Drug Resistant T.B) کا سبب بن جاتی ہے۔ واضح رہے کہ موخرالذکر قسم میں پھر ٹی بی کی کوئی دوا مؤثر ثابت نہیں ہوتی، جس کی وجہ تپِ دق کے جرثومے کا عام ٹی بی کی ادویہ کے خلاف اپنے اندر مدافعت پیدا کرلینا ہے۔

یاد رہے کہ ایم ڈی آر میں مبتلا مریض بھی سالا بَھر میں10سے5افراد کو متاثر کرتا ہے، جب کہ علاج کا دورانیہ چھے ماہ کی بجائے دو برس پر محیط ہوجاتا ہے۔ نیز، مکمل طور پر صحت یاب ہونے کے امکانات بھی 60فی صد سے زائد نہیں ہوتے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ لمف گلینڈ، ہڈیوں، تولیدی اعضاء، جِلد، مثاے اور گُردے کی ٹی بی متعدی نہیں۔ یعنی یہ مریض سے صحت مند فرد میں منتقل نہیں ہوتی، البتہ علاج کا دورانیہ عام پھیپھڑوں کی ٹی بی جتنا ہی ہے۔

ہمارے ویکس نیشن پروگرام میں بی سی جی کا ٹیکا شامل ہے، جو ہر بچّے کو پیدایش کے فوراً بعد لگادیا جاتا ہے، مگر اس کا اثر دس سے بارہ سال تک ہی رہتا ہے۔ یعنی مرض کا خدشہ برقرار رہتا ہے۔ اگر کوئی فرد اس مرض کا شکار ہوجائے، تو سب سے ضروری درست طریقۂ علاج اپنانا ہے، جس کے لیے ماہرِ امراضِ سینہ سے رجوع کیا جائے۔ مریض کھانستے اور چھینکتے ہوئے مُنہ پر کپڑا رکھے یا پھر ماسک کا استعمال کرے، جب کہ سرِعام تھوکنے سے قطعاً اجتناب برتا جائے۔ یاد رکھیے، ٹی بی موروثی مرض نہیں، بلکہ چھوت کی بیماری ہے، جس کے لیے احتیاط ناگزیر ہے۔

تاہم، اگر کوئی ماں اس مرض سے متاثر ہے، تو وہ شیر خوار کو اپنا دودھ پلاسکتی ے، جب کہ ٹی بی کا مریض، جب باقاعدہ علاج شروع کردے، تو اس سے ہاتھ ملانے، ساتھ کھانے پینے، اس کے برتن، کپڑے استعمال کرنے سے مرض منتقل نہیں ہوتا۔

(مضمون نگار، سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر، اوجھا انسٹی ٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز اور معروف ماہرِ امراضِ سینہ اور تپِ دق ہیں)