روس میں انتخابات اور میزائل کا تجربہ

March 14, 2018

روس میں نئے صدرکا انتخاب اٹھارہ مارچ کو ہونے والا ہے۔توقع ہے کہ موجود صدر ولادی میر پوٹن ایک بار پھر ملک کے صدر بننے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ اس طرحوہ تقریباً ربع صدی تک روس پر حکومت کرکے جو ز ف اسٹالن کے بعد سب سے طویل عرصے تک بر سر ا قتدار رہنے والے روسی سربراہ بن جائیں گے۔وہ اٹھارہ برس سے روس پر کسی نہ کسی طرححکومت کررہے ہیں، کبھی صدر کے طور پر اور کبھی وزیراعظم بن کر۔

پوٹن دل چسپ شخصیت ہیں جو دراصل رہنے والے تو لینن گراڈ یا سینٹ پیٹرز برگ کے ہیں،لیکن انہیں سابق صدر یلتس ماسکو لے آئے تھے۔ پوٹن نے 1975میں تیئس سال کی عمر میں لینن گراڈ کی یونیورسٹی سے قانون کے شعبے میںڈگری لی تھی اورسابق سوویت یونین کے جاسوسی کے ادارے کے جی بی میں شامل ہوگئے تھے۔

وہ دور کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار کے عروج کا زمانہ تھا۔ لیونڈ بریژنیف پارٹی کے سربراہ تھے اورعالمی سطح پر سوویت یونین کا بڑا دبدبہ تھا۔امریکا کے مقابلے میں سوویت یونین برابر کی سپرپاور تھا اور 1970 کے عشرے میں لگ رہا تھا کہ امریکا مسلسل پس پائی کا شکار ہورہا ہے ۔

1975 میں امریاک کو ویت نام میںشرم ناک شکست ہوئی اور پھر افغانستان، ایران اور نکاراگوا میں امریکا مخالف انقلابات آئے تو عالمی سیاست کا توازن بڑی حد تک سوویت یونین کی طرف ہو گیا تھا۔مگر 1979 کے اواخر میں سوویت فوجیں افغانستان میں داخل کی گئیں تواس کے زوال کا آغاز ہوگیا۔ 1980 کے عشرے کے اواخر تک عالمی سوشلسٹتحریک بڑے نقصانات اٹھاچکی تھی۔ اس دوران پوٹن پندرہ سال تک کے جی پی سے و ا بستہ رہے، مگر 1991 میں سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سیاست میںآگئے۔

1990 کا پورا عشرہ روس میںبورس یلن کا دور تھا جو سوویت یونین کو ختم کرکے روس کے صدر بن چکے تھے۔ 1996 میں پوٹن ماسکو آکریلسن کی انتظامیہ میں شا مل ہوگئے تھے۔بورس یلسن کے دس سالہ دور حکومت میں با ربار وزیراعظم تبدیل ہوتے رہے تھے۔

اس سے قبل لیونڈبریژ نیف کے دور میںالیکسی کوسیگن سولہ برس تک وزیراعظم رہے تھے۔ بریژ نیف نے اٹھارہ برس تک حکو مت کی۔وہ 1964 سے 1982 میں اپنی موت تک سوویت یونین کے سربراہ رہے۔اس دوران کوسیگن 1964 سے 1980 تک سوویت یونین کے وزیراعظم رہے تھے۔اس دور میںسوویت یونین میں تقریباً تمام اعلیٰ عہدےدار ستّر سال سے زاید عمر کے تھے۔

1980 میں بریژ نیف نے کوسیگن کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا تو وہ چھہتّر سال کے تھے اور عہدے سے ہٹنے کے صرف دوماہ بعد دنیا سے رخصت ہوگئےتھے۔ ان کے بعد بریژنیف نے جسے وزیراعظم بنایا وہ پچھتّر سال کے تھے۔ان کانام نکولائی تیخانوف تھا جو 1980 سے 1985 تک سوویت یونین کے وزیراعظم رہے۔انہیں 1985 میں سوویت یونین کے نئے رہنما گورباچوف نے ہٹاکر اپنے ہم عمر رژکوف کو وزیراعظم بنایا تھا جو 1991 تک،یعنی چھ سال سوویت یونین کے وزیراعظم رہے تھے۔

سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد1991 میں بورس یلسن صدر بنے تو دس سالہ دورحکومت میںسات مرتبہ وزیراعظم تبدیل کیے۔پہلے تو وہ خودچھ مہینے تک روس کے صدر اور وزیراعظم کے عہدوں پر براجمان رہےپھر انہوںنےوکٹر چرنام دن کو وزیراعظم بنایا جو 1992 سے 1998 تک اس عہدے پر رہے۔پھر اپریل 1998 سے اگست 1999 تک روس نے چار وزیراعظم دیکھے۔ بالآخر اگست 1999 میں یلسن نے پوٹن کو وز یر ا عظم بنایا جو اس وقت سینتالیس برس کے تھے۔ یلسن کی صحت خاصی خراب تھی لہذا انہوںنے اکیس دسمبر 1999کو اقتدار چھوڑنے کا اعلان کردیا اور پوٹن کو صدر بنادیاتھا۔

یوںپوٹن پہلے قائم مقام صدر رہے ،مگر 2000 میں صدارتی انتخاب جیت کر 2008 تک دو مدت تک صدر رہے۔روس کا آئین کسی شخص کومسلسل دو مدت سے زیادہ عرصے تک صدر رہنے کی اجازت نہیں دیتا لہذا انہوں نے اپنے وزیراعظم میدوی دیف کو صدر بنادیا اور پھر چار سال بعد 2012 میں ایک بار پھر صدر بن گئے اور میدوی دیف کو وزیراعظم بنادیا۔

اس طرحاٹھارہ برس سے روس پرولادی میر پوٹن ہی کااقتدار قائم ہے۔اٹھارہ مارچ کو ہونے والے صد ا ر تی انتخابات میں پھر ان کی کام یابی یقینی بتائی جاتی ہے، کیو ںکہ انہوں نے ریاستی مشینری کا بے دریغاستعمال کیا اور مخالفین کو کچل دیا ہے۔علاوہ ازیںوہ روس کے عوام میں قوم پرستانہ جذبات ابھارنے میں بھی کام یاب رہے ہیں ۔تاریخ میں یہ بات اکثر دیکھی گئی ہے کہ جو بھی حکم راں غیرجمہوری طریقے اپناتے ہیںان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ جنگ کا ماحول برقرار رکھا جائے اور عوام کو ’’دشمن‘‘ سے مسلسل ڈرا کر رکھا جائے اور اس مقصد سے نت نئے ہتھیاروں کے تجربات کیے جاتے رہیں۔

چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو روس نے اپنے کم زور پڑوسی یوکرین کے علاقوںکریمیا وغیرہ پر قبضہ کرکے پوٹن کو طاقت ور رہنما کے طور پر پیش کیا اور دوسری جانب ا مر یکا کے ساتھ کشیدگی مسلسل بڑھائی گئی جس میںخود امریکاکے حکم راں ٹولے کا بھی فائدہ ہے۔ اس طرح کی حرکتوں میںغیر سویلین قوتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔

یہ ایجنڈا آگے بڑھاتے ہوئے گیارہ مارچ کو روس نے نئے ہائپر سونک میزائل کا کام یاب تجربہ کیا۔اس میز ا ئل کی رفتار آواز سےدس گنا زیادہ بتائی گئی ہے۔ یہ ان کئی جوہری میزائلوں میں سے ایک ہےجن کے با ر ے میں صدر پوٹن گزشتہ ہفتے اعلان کرچکے ہیں۔

اس نئے ہائپرسو نک میزائل،جسے کنزحال میزائل کا نام دیا گیا ہے، کی ایک اورخاص بات یہ ہے کہ اسے صرف زمین ہی سے نہیں بلکہ لڑاکا طیارے سےبھی داغا جاسکتا ہے اوریہ د و ہزار کلومیٹر زسے زیادہ دور تک مار کرسکتا ہے۔اسے تجربے کے دوران روس کے اپنے تیارکردہ جدید لڑاکا طیارے مگ اکتیس (MIG31) سے داغا گیا اوریہ اپنے نشانے پر لگا۔

اس تجربےسے ایک ہفتے قبل چین نے اعلان کیا تھاکہ وہ آواز سے پانچ گنا تیزرفتار طیارہ بنانے کے منصوبے پر کام کررہا ہے اور جس کے ذریعے بیجنگ سے نئی دہلی تک سفر آٹھ گھنٹے کے بجائے صرف آ دھے گھنٹے میںطے کیا جاسکے گا۔چین نے تو صرف تیا ر ی کا اعلان کیا تھا،لیکن روس نے آواز سے دس گنا تیز ر فتا ر میزائل کا کام یاب تجربہ کربھی لیا۔

ان حالات میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکا، چین اور روس نئے دور میںداخل ہورہے ہیں جس میںایک دو سرے پر فوجی سبقت حاصل کرنے کی دوڑ تیز ہوجائے گی۔ امریکا نے اعلان کردیا ہے کہ وہ چین اور روس کے مقابلے میں اپنی فوجی بالادستی اور جدت قائم رکھنے کے لیے مزید فوجی اخراجات کرے گا۔

یادرہے کہ اس وقت امریکا کےفوجی اخراجات اس ملک کے بعد دس بڑی فوجی طاقتوں کے مجموعی اخراجات کے برابر ہیں جن میںروس، چین، برطانیہ، فرانس، بھارت، جرمنی، جاپان، برزایل اور دیگر ممالک کے مشترکہ فوجی اخراجات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے روس کے حوالے سے ایک ا ور اہم خبر سامنے آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ میں مقیم روس کے ایک سابق جاسوس پرحملہ ہوا ہے۔ روس کی فوج کے سابق کرنل اسکریبل فوج میں انٹیلی جنس افسر تھے اور 2006 میں برطانیہ کے لیے جاسوسی کرنے کے جرم میں انہیں روس میں تیرہ سال قید کی سزا دی گئی تھی ۔

لیکن 2010 میں امریکا اور روس کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت جاسوسوں کا تبادلہ ہواتواسکریبل کو برطانیہ میں پناہ دے دی گئی تھی۔دس مارچ کو اسکریبل اور ان کی بیٹی برطانیہ کے علاقہ ویسٹ شائر میں نامعلوم مو ا د سے شدید زخمی ہوگئے تھے۔ روس کا کہنا ہے کہ اسکریبل نےبرطانیہ کو روس کی خفیہ معلومات فراہم کرنے کے عوض ایک لاکھ ڈالرزلیےتھے۔

ان تمام خبروںکے ساتھ جب پوٹن صدارتی انتخاب لڑیں گے تو روسی عوام انہیں عقل مند اور ذہین رہنما سمجھتے ہوئے اگلی مدت کے لیے بھی صدر منتخب کرلیں گے۔ اس طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سوشلسٹنظام میں طویل عر صے تک ایک ہی شخصحکم رانی کرتا تھا وہ دیکھ سکیں گے کہ سوشلسٹنظام ختم ہونے کے بعدروسی عوام سرمایہ دارانہ نظام میں طویل شخصی حکم رانی کا انتخاب کریں گے۔

فرق صرف یہ ہوگا کہ سابق سوویت یونین میں ہر برائی کا ذ مے دار سوشلسٹ نظام کو قرار دیا جاتا تھا اور یہ نہیںبتایا جاتا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام ذرا مختلف طریقے سے عوام کو یہ احساس دلایاجاتا ہے کہ وہ آزاد ہیں اور اس آزادی کی آڑ میں حکم راںطبقات اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں تاکہ اپنے اقتدار کو طول دیا جاسکے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ روس کے صدارتی انتخاب کے بعد پوٹن اسلحے کی دوڑاس طرحجاری رکھتے ہیںیا پھر عالمی کشیدگی میںکوئی کمی آتی ہے۔