سندھ کرافٹ فیسٹیول ’’ ثقافت کے رنگ پھیلے ہیں ہر سُو‘‘

March 14, 2018

شفق رفیع

عکاسی: محمد اسرائیل انصاری

’’جیے سندھ جیے، سندھ وارا جیئن ،سندھی ٹوپی جرک وارا جیئن ‘‘تیزدھوپ میں سندھی گلوکاروں کی سریلی آواز میں وادیٔ مہران کا مشہور زمانہ گیت، گھونگھٹ ڈالے ،ہاتھ سے کڑھے، روایتی سندھی لہنگوں میں ملبوس مور کی طرح رقص کرتی خواتین ، جن کی چوڑیوں کی کھنک موسیقی میں چار چاند لگاتی تھی، جیسے ہی ڈھول کی تھاپ، سندھی ڈانڈیا میں بدلی تو رقص بھی ایسا بدلا کہ سندھی ڈانڈیا کے رنگ چھا گئے، ڈانڈیا بھی ایسی لاجواب کہ وہاں موجود ہر شخص ان کے کمالِ رقص کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکا۔ ابھی ہم ڈانڈیا رقص ہی دیکھ رہے تھے کہ دوسری جانب فن کاروں کے ’’گڑھا رقص‘‘ نے ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ وہ جس مہارت سے کئی میٹر لمبے ڈنڈے پر لگا گڑھا اپنے سر پر رکھ کر رقص پیش کررہے تھے،اس سے ان کی فنکارانہ مہارت اور برسوں کی محنت و مشق کا اندازہ لگانا ہر گز مشکل نہ تھا۔

یہ مناظر ہیں تین روزہ ’’سندھ کرافٹ فیسٹیول ‘‘ کے، جس کا افتتاح بروز ہفتہ 2مارچ 2018کوصوبائی وزیر ثقافت ، سیاحت و نوادرات سید سردار علی شاہ نے کیا، ان کے ہمراہ وزیر قانون ضیاء لنجار ، یواے ای، چین، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، بحرین، کویت اور دیگر ممالک کے قونصل جنرل بھی موجود تھے، اس موقعے پر صوبائی وزیر ثقافت کا کہنا تھا کہ ’’ایسی نمائشوں سے ہماری ثقافت کو عالمی سطح پر پزیرائی ملے گی،اس نمائش میں رلّی، گج اور سندھ ٹوپی رکھی گئی ہیں،ایسے پروگراموں کے ذریعے سندھی ثقافت کو فروغ ملے گا۔‘‘نمائش کا انعقاد محکمۂ ثقافت ، سیاحت و نوادرات، حکومت سندھ کی جانب سے ، ’’نیشنل میوزیم آف پاکستان‘ ‘میں کیا گیا۔جہاں ہر سُو ثقافت، امن، یگانگت، خوشیوں اور سکون کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔

میوزیم کے گارڈن ایریا میں نمائش کے حوالے سے قد آور پوسٹرز آویزاں تھے، سامنے جنڈی کا جھولا ، لکڑی کے فرش پر نقش و نگاری کا بہترین کام دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا، گویا سندھی حکمرانوں کے دور میں پہنچ گئے ہوں۔تھوڑا اور آگے بڑھے تو ہر طرف اسٹالز نظر آئے ، جہاں رنگ برنگی رلّیاں بچھی اور لٹکی ہوئی تھیں، کچھ اسٹالز پر سندھی ٹوپیاں، سندھی گج (گلے)رکھے ہوئے تھے۔جب کہ عین بیچ میں ایک چھوٹا سا اسٹیج بنایا گیا تھا، جہاں موسیقار روایتی سندھی گانے پیش کر رہے تھے۔

ابھی ہم آگے بڑھے ہی تھے کہ نظر مٹی کے برتنوں کے اسٹال پر پڑی، جہاں سندھی ٹوپی لگائے سادہ کپڑوں میں ملبوس ،چہرے پر مسکان لیے کمہار فقیر محمد بیٹھے تھے،انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’’میں ہالا سے آیا ہوں، ہم خاندانی کمہار ہیں، یہ ہنر میں نے بچپن ہی میں سیکھ لیا تھا، مٹی کی چیزیں بنانا جتنا آسان کام لگتا ہے، اتنا ہوتا نہیں ہے، اس میں ہاتھ کی صفائی اور مہارت کا ہونا لازمی ہے۔ میرے بچے بھی اس کام میں ماہر ہیں۔

ہم تو گاؤں والے لوگ ہیں، شہر میں آکر، یہاں نئے نئے لوگوں سے مل کر اچھا لگ رہا ہے، اس کام سے جتنی بھی کمائی ہوتی ہے، اس پر بہت شکر ہے، عزت کی روٹی کھاتے، اور پُرسکون نیند سوتے ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کو بھی یہی کام سکھایا ہے، یوں کہ اسکول بھیجنے یا اعلیٰ تعلیم دلوانے کے پیسے نہیں ہوتے، اگر اتنے وسائل ہوتے کہ بچوں کو تعلیم دلواسکیں، تو ضرور پڑھاتے، ساتھ میں ہنر بھی سکھاتے، لیکن اب میرے بچے بھی اسی کام میں میرا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ ‘‘

فقیر محمد کے برابر والے اسٹال پر عبد الحسیب بیٹھے تھے، ان کا اسٹال اس اعتبار سے قابل دید تھا کہ وہاں گاؤں، دیہات اور سندھی ثقافت کا عکس پیش کرتی چیزوں کے ماڈلز رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تقریباً پندرہ ، بیس برسوں سے یہ کام کر رہے ہیں، یہاں ہم یہ ماڈلز فروخت کرنے کے لیے نہیں آئے ہیں بلکہ اپنے کام کو دوسروں کو دکھانے کا مقصد اپنی ثقافت کو فروغ دینا ہے، میں کراچی کا ہی رہائشی ہوں، میں اور میرا بھائی بہت شوق سے یہ ماڈلز تیار کرتے ہیں۔ اصل میں شہروں میں بسنے والوں کو اندرون سندھ کے رہن سہن کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہوتا، اپنے کام کے ذریعے ہم انہیں گاؤں کی ثقافت، رہن سہن سے آشنا کراتے ہیں۔

چھوٹے چھوٹےماڈلز دیکھ کر نئی نسل بھی متاثر ہوتی ہے، اس میں سندھ کی ثقافت کو جاننے کا شوق پروان چڑھتا ہے، جب تک ہم اپنی ثقافت کو نسل نو میں منتقل نہیں کریں گے، تب تک وہ دنیا میں کیسے فروغ پائے گی۔‘‘

اگلااسٹال سندھی ٹوپیوں سے سجا تھا، وہاں بیٹھے ہوئے خالد حسین نے بتایا کہ میں بھٹ شاہ، مٹیاری سے آیا ہوں، یہ تمام ٹوپیاں اور ان پر کیا گیا کام ، ہاتھ کا ہے، ہمارے گھر کی خواتین بھی اس کام میں ماہر ہیں اور ہم بھی۔ میں بی بی اے کا طالب ہوں، صوفی یونیورسٹی بھٹ شاہ سے تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ ہنر اور تعلیم کے ذریعے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سندھی ٹوپی بنانا ہمارا کاروبار ہے، بزنس کی تعلیم حاصل کرکے میں اپنے آباؤاجداد کے کاروبار کو وسعت دوں گا۔ ایک ٹوپی بنانے میں تقریباً پندرہ دن لگتے ہیں، محنت طلب کام ہے، اس لیے اس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔‘‘

اس سے قبل ہم اور آگے بڑھتے ہماری ملاقات ایک جاپانی سے ہوئی، ہم سمجھے کہ شاید وہ سیاح ہیں، لیکن انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ماہر آثاریات ہیں، اور شاہ عبد اللطیف یونیورسٹی میں تحقیق کر رہے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے یہاں آکر بہت اچھا لگ رہا ہے، میرا کام ہی ثقافت کو دیکھنا ، پرانی چیزوں پر تحقیق کرنا ہے، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ سندھ کے گوشے گوشے میں جاؤں، اس نمائش کے ذریعے ایک ہی چھت کے نیچے ثقافت، تہذیب ، تمدن سب دیکھنے کو ملا یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سندھ کے عوام انتہائی ملن سار اور مہمان نواز ہیں۔

اگلے اسٹال پر، تمام تر موسیقی، میلے کی رنگینیوں سے بے نیاز سادہ لباس میں ایک خاتون ٹکریاں(کپڑوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے)، سوئی دھاگے سے جوڑنے میں مصروف تھیں، ہمارے مخاطب کرنے پر انہوں نے ایک ٹکری میں ٹانکہ لگا کر، اپنا چشمہ سر پہ رکھتے ہوئے ، ہماری طرف دیکھا اور اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’’میرا نام شاہدہ ہے، میں سکھر سے آئی ہوں،رلّی سندھی ثقافت کا اہم حصہ ہے، اگر ایک عورت بنائے تو اسے بنانے میں دس دن تک لگ جاتے ہیں، یہ کام ہمیں کوئی سکھاتا نہیں ہے بلکہ ، گھروں میں نانی ، دادی کو دیکھ کر ہی سیکھ لیتے ہیں۔مگر آج کل دیہات میں بھی لڑکیاں اس کام سے دور ہوتی جا رہی ہیں، گج(گلے) بنانا بھی کوئی آسان کام نہیں اسے بنانے میں مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، جو وقت کے ساتھ آجاتی ہے۔انہوں نے مزید کہا، کہ یہاں آکر بہت اچھا لگ رہا ہے، محکمۂ ثقافت نے بہت اچھا انتظام کیا ہے۔بس ایک شکایت ہے کہ شرکاء چیزیںخرید نہیں رہے، بس دیکھ کر چلے جاتے ہیں۔‘‘

جیکب آباد سے آئی ہوئی سومری بھٹی نے بتایا کہ میں پہلی مرتبہ کراچی آئی ہوں، اور اپنے کام کو نمائش کے لیےپیش کیا ہے، جب لوگ ہمارے کام کی تعریف کرتے ہیں، تو بہت خوشی ہوتی ہے، میں بچپن ہی سے گج بنانے میں ماہر ہوں، میری دادی، نانی، ماں سب کڑھت کرتے ہیں۔

میر پور خاص، جڈھو سے آئی ہوئی اسماء عامر نے بتایا کہ ’’میں بچیوں کو رلّی بنانا بھی سکھاتی ہوں، میں نے یہ کام بارہ سال کی عمر میں سیکھ لیا تھا۔ میری امّی، دادی، گھر کی تمام خواتین ہی یہ کام کرتی تھیں، کسی سے سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی، بس دیکھتے ہی دیکھتے سیکھ گئی۔یہ کام زبان کی طرح ہے، جیسے بچے کو زبان سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی، خود بہ خود سیکھ جاتا ہے، بالکل اسی طرح سندھ کی بچی، بچی یہ ہنر جانتی ہے۔‘‘

تھوڑا اور آگے بڑھے تو موسیقی سے محظوظ ہوتے ایک نوجوان فہد ذکاسے ملاقات ہوئی،انہوں نے بتایا کہ میں چینی سفارت خانے میں بہ طور انٹرپریٹر ملازمت کرتا ہوں، یہاں پہلی مرتبہ آیا ہوں، سندھی ثقافت کے رنگ ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں، مگر جتنی تعداد میں لوگوں کو آنا چاہیے تھا، اتنی تعداد نظر نہیں آرہی، نیز یہاں جو چیزیں فروخت کے لیے رکھی گئی ہیں، ان کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے، اگر یہ مناسب قیمت ہوں تو شاید زیادہ لوگ خریدیں۔

فہد سے بات کرکے اگلے اسٹال کی جانب بڑھے تو دیکھا ایک بچہ ہاتھ میں سوئی دھاگہ لیے کڑھت کر رہا تھا، اس کا نام شفیق احمد تھا، اس نے بتایا کہ میں میر پور خاص سے آیا ہوں، میری امی، بہنیں، سب گج اور رلّی بنانے میں ماہر ہیں، میں بھی کڑھائی کرنے میں ان کی مدد کرتا ہوں،اس کے ساتھ ساتھ میں تعلیم بھی حاصل کررہا ہوں ، فرسٹ ایئر کا طالب علم ہوں۔

اس نے مزید بتایا کہ گھر کا خرچ چلانے کے لیے ہم سب مل کر محنت کرتے ہیںاور مجھے تعلیم حاصل کرنے کا بھی شوق ہے اس لیے یہی کوشش کرتا ہوں، کہ کام کی وجہ سے میری پڑھائی متاثر نہ ہو۔ شفیق کا جذبہ اور شوق اس کی آنکھوں میں صاف جھلک رہا تھا، اس کی ہمت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ا س کا مستقبل تابناک ہی ہوگا۔

ابھی ہم شفیق سے باتیں ہی کر ہے تھے کہ سامنے یونیفارم پہنے چند لڑکے نظر آئے،جو نمائش کی سب سے پُرکشش اور دیدہ زیب سندھی اوطاق دیکھ رہے تھے، ہم بھی ان کی جانب چل دئیے۔ اوطاق کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا، گویا کسی گاؤں میں آگئے ہیں۔ اسی کے ساتھ چوئنرا(تھری طرز کے گھر کو کہتے ہیں)بھی بنایا گیا تھا، گھر اور اوطاق اتنے دل کش تھے کہ ان پر سے نظریں ہی نہیں ہٹ رہی تھیں۔ہم نے سوچا نوجوانوں سے بھی نمائش کے حوالے سے کچھ تاثرات لیے جائیں، ولید علی اور انس رضا نے بتایا کہ ہم گورنمنٹ کالج میں سیکنڈ ایئر کے طلباء ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے اس نمائش کے بارے میں معلوم ہوا، اس لیے دیکھنے آئے ہیں۔

ولید کا کہنا تھا کہ میں پچھلے سال اپنی فیملی کے ساتھ یہاں آیا تھا، سندھی ثقافت کے بارے میں معلومات حاصل کرکے بہت اچھا لگتا ہے، لیکن اس سال یہاں اتنا مزا نہیں آرہا ، جتنا پچھلے برس آیا تھا، جب کہ انس رضا نے کہا کہ میں پہلی مرتبہ آیا ہوں اور میں بہت انجوائے کر رہا ہوں۔ ابھی ہم نوجوانوں سے بات کرہی رہے تھے کہ نظر ایک ایسے اسٹال پر پڑی جہاں صرف رلّی، گج یا دبکی(روٹی دان)نہیں بلکہ ’’یک تارو‘‘ (سندھی ساز)بھی رکھا ہوا تھا، اس اسٹال پرروایتی سندھی لباس میں ملبوس معشوق علی ،تمام شرکاء کا مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کر رہے تھے، انہوں نے بتایا کہ ’’میں نواب شاہ سے آیا ہوں، ہم صرف کڑھت ہی نہیں کرتے بلکہ میں یک تارا بنانے کا کاریگر بھی ہوں، اسے بنانے میں تقریباً ایک مہینہ لگتا ہے، یہ ہماری ثقافت کا اہم جزو ہے، میں نے یہ ہنر اپنے والد سے سیکھا ہے۔

میں پہلی بار کراچی آیا ہوں، یہاں آکر بہت اچھا لگ رہا ہے، سب سے زیادہ اچھا تب لگتا ہے جب نوجوان لڑکے، لڑکیاں اسٹال پر آکر میرے بنائے ہوئے یک تارا کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہیں۔

محکمۂ ثقافت کی جانب سے ایسے پروگرامز کا انعقاد یقیناً خوش آئند ہے، اس سے شہر میں صحت مند سرگرمیوں کو بھی فروغ ملتا ہے، لیکن اگر نمائش میں رکھی جانے والی اشیاء کی قیمتیں تھوڑی مناسب ہوتیں، تو شہری بہتر طور پر خریداری کر پاتے۔ سندھ کرافٹ فیسٹیول کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں غیر ملکیوں نے بھی بھر پور تعداد میں شرکت کی اور انجوائے کیا، جس سے یقیناً پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا۔