تیرے روپ کے آگے پھیکے چاند ستارے بھی.....

March 18, 2018


قمرصدیقی کی ایک بالکل اچھوتی، بہت منفرد و خُوب صُورت سی غزل ہے؎’’دشمن وشمن، نیزہ ویزہ، خنجر ونجر کیا…عشق کے آگے مات ہے سب کی لشکر وشکر کیا…اِک تِرے ہی جلوے سے روشن ہیں یہ آنکھیں…ساعت واعت، لمحے ومحے، منظر ونظر کیا…تیرے روپ کےآگے پھیکے چاند ستارے بھی…بالی والی، کنگن ونگن، زیور ویور کیا…یار قمر کی باتوں کا کیا، اُس کی ایک ہی رَٹ…لکھتا ہے بس نام تِرا وہ کافر وافر کیا‘‘ مگر وہ کیا ہے ناں کہ کسی کےحُسن و دل کشی، رُوپ سروپ کے آگے لاکھ چاند ستارے بھی پھیکے پڑتے ہوں، مگر ’’عورت اور زیورات‘‘ تو جیسے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

اب خواہ وہ گلے سے لپٹی اِک باریک سی چین ہو یا انگلی میںدمکتی نازک سی رِنگ، کلائی میںکھنکتی چُوڑی، کنگن، بریسلیٹ ہو یا پائوں میں چَھنکتی کومل سندر پائل، ماتھے پہ چمکتی ننّھی سی بِندی، جھومر، ٹیکا ہو یا کانوں میںگُنگناتا کوئی چھوٹا سا جُھمکا، بالی، آویزہ.....اگر حیا کے زیور کے ساتھ، ان زیورات کی آمیزش نہ ہو، تو ’’نسوانیت‘‘ کچھ نامکمل، کچھ ادھوری ادھوری ہی سی لگتی ہے۔ بچّیاں ابھی ٹھیک سے بیٹھنا، کھڑا ہونا بھی نہیںسیکھتیں کہ مائیں اُن کے کان چِھدوادیتی ہیں۔

اور عموماً پہلی سال گرہ بلکہ بچّیوں کو تو پیدایش کے موقعے ہی پر جو زیادہ تر تحفے تحائف ملتے ہیں، وہ رنگا رنگ فراکس کے بعد سونے، چاندی کے زیورات ہی ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ننھیال کی طرف سے جو گفٹس آتے ہیں، ان میں سونے کے کنگن، انگوٹھی، چین، لاکٹس، بالیاں، ٹاپس اور اب تو بعض گھرانوں میں سونے کے سکّے تک دینے کا رواج عام ہے کہ جب چاہیں، ڈھلواکر بچّی کے لیے زیور بنوالیں۔

بیٹی کا ذرا سا قد کاٹھ نکلا نہیں کہ والدین نے اُس کے نام کا زیور جمع کرنا شروع کردیا۔ تب ہی تو آج تک کبھی کسی نے، کسی لڑکی کو زیور کے بغیر دلہن بنا نہیںدیکھا کہ آرایش بِنا زیبایش، ہار بِنا سنگھار کا تصوّر ہی ناممکن ہے۔ صدیوں سے وہ مثل ایسے ہی تو نہیں چلی آرہی کہ ’’سونا عورت کی کم زوری ہے‘‘۔

گرچہ پچھلی کئی دہائیوں میں’’مصنوعی زیورات‘‘ کی صنعت نے جس قدر ترقی کی ہے، جو جدّت و ندرت، کمال و عروج اس فیلڈ کو حاصل ہوا ہے، اُس نے سونے کی قدر و قیمت خاصی کم کردی ہے، مگر اصل پھر اصل، خالص پھر خالص ہی ہے۔ شادی بیاہ کے موقعے پر بیٹیوں کو ہزار میچنگ آرٹیفیشل جیولری سیٹس لے دیئے جائیں، مگر جب تک گولڈ کا ایک بڑا سیٹ، ٹِیکا، جھومر، کنگن، چُوڑیاں نہ ہوں، جہیز مکمل نہیںہوتا اور یہ زورات عموماً دلہن کی اپنی پسند ہی کے ہوتے ہیں۔

موسمِ بہار کا آغاز ہے، چہار سُو شادی بیاہ کی تقریبات کی بھی جیسے بہار سی چھائی ہوئی ہے۔ کوئی دن نہیںجاتا کہ کسی شادی، ولیمے کا بلاوا نہ آتا ہو۔ بیش تر شادی ہالز رمضان المبارک تک کے لیے بُکڈ ہیں۔ تو ایسے میںبھلا کیسے ممکن ہے کہ ہم آپ کے لیے سال کے اس پانچویں موسم (شادی سیزن) کی مناسبت سے اِک حسین و دل کش، بہت منفرد و مختلف سا انتخاب نہ پیشکریں۔

تو ذرا دیکھیے، اس بار ’’عروسِ بہار‘‘ کی زندگی کے سب سے خُوب صُورت، سب سے خاص موقعے کے لیے ہم لاکھوں کیا، کروڑوں میںایک، بلکہ یوں کہہ لیں، کروڑوں ہی کے کیسے منفرد و اچھوتے تحائف (اوریجنل گولڈ، ڈائمنڈ برائیڈل نیکلس سیٹس) کے ساتھ حاضر ہیں۔ چاروں ماڈلز نے طلائی اور نقرئی رنگ کے بھاری بھرکم حسین عروسی ملبوسات کے ساتھ جن انتہائی نفیس و قیمتی زیورات کا انتخاب کیا ہے۔ اُن میںاینٹیک اسٹائل کا قدیم مصری طرز بھاری نیکلس، جُھمکا سیٹ ہے، جس میں پیور ایمرلڈ، یاقوت کی ہم آمیزی ہے، تو بڑے آویزوں کے ساتھ سبز کے شیڈ میں کندن کا خُوب صُورت گلوبند بھی ہے۔

زرقون کا نسبتاً ہلکا مگر بہت دیدہ زیب نیکلس سیٹ ہے، تو مغلئی طرز بھاری رانی ہار بھی۔ عنّابی رنگ کے کرسٹل لڑیوں، پرلز اور کُندن کے ساتھ مغربی طرز اسٹائلش نیکلس سیٹہے، تو دل کش یاقوت سے مرصّع دل فریب رھوڈیم نیکلس سیٹبھی اور پھر گرین ایمرلڈ ہی کے شیڈمیں بھاری آویزوں، جُھمکوں کے ساتھ ایک دو اور بھی جداگانہ سے انداز ہیں۔

وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ؎ جو سجتا ہے کلائی پر کوئی زیور حسینوں کی.....تب ہی بڑھتی ہے قیمت جوہری تیرے نگینوں کی۔ تو ان نگینوں کی قیمت تو ویسے ہی آسمانوں کو چُھو رہی ہے، کسی دلہن کے تَن پہ سج کے مول کہاں تک پہنچے گا، آپ خود اندازہ لگالیں۔ ’’عروسِ نوبہار‘‘ کے پہناووں سے ہم آہنگ ان زیورات کو دیکھ کر بزم کی بزم نہ یہ گنگنا اُٹھی، تو کہیے گا ؎ یہ موتیا، یہ چنبیلی، یہ موگرا، یہ گلاب.....یہ سارے گہنے، یہ زیور اسی سے ملتے ہیں.....عقیق گوہر و الماس، نیلم و یاقوت......یہ سب نگینے، یہ کنکر اسی سے ملتے ہیں۔ اور یہ بھی ؎ پھر اُس کے بعد گرگیا سونے کا بھائو بھی.....اِک شام اُس نے کان سے جھمکا اتارا تھا۔