تدریس جزوقتی نہیں کل وقتی ہے

March 18, 2018

نجم الحسن عطاء

جب عطا الرحمن ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ تھے تو انہوں نے میرے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے کالجوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ نہایت ہی بوسیدہ اور روایات سے گری ہوئی ہے۔ اُن کا ایسا کہنا کوئی اچنبے کی بات نہیں کیونکہ تعلیمی کورس کے علاوہ دوسری اہم چیز تربیت یافتہ اساتذہ کا نہ ہونا ہے۔

اب جب معاشرے میں تعلیم کی یہی صورت حال ہو تو دونوں عوامل کو بہتر کرنا وقت کی اہمیت ہے۔ ایک اور اہم بات جو اُن سے پوچھی گئی وہ یہ ہے کہ جو خام مال ہے وہ بی ایس سی، بی کام اور بی اے ہے۔ اب اس سے جو ہائر ایجوکیشن میں تعلیم حاصل کریں گے کیا وہ اُس نصاب کے ساتھ انصاف کرپائیں گے؟

اُن کا کہنا یہ تھا کہ ہم بہترین طالب علموں کو لیکر، اچھی فیکلٹی اور لیکچرر پیدا کریں گے تاکہ وہ لیکچرار بن کربہتر تعلیم فراہم کرسکیں اور جو خام مال ابھی موجود ہے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

لیکن ہماری پوری کوشش ہے کہ ہم بہترین طالب علموں کو مستقبل کا لیکچرار بنائیں۔ البتہ جزوقتی پڑھانا اس لئے درست نہیں کہ استاد اور طالب علم کے درمیان ایک مسلسل رابطہ اور انسیت رہنی چاہیے اس کے لئے کل وقتی لیکچرارشپ بہت ضروری ہے۔

مستقبل کے اساتذہ کے بارے میں ان کا جو نقطہ نظر ہیاس پر ہمارے ملک میں خاطر خواہ عمل تو نہ ہوپایا جس کی وجہ سے استاد وشاگرد کا جو مستحکم رشتہ تھا، وہ پہلے سے کافی کمزور پڑگیا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب استاد کو معمار قوم تصور کیا جاتا تھا اور حاکم وقت بھی اپنے استاد کے احترام میں سرجھکا دیتے تھے، سکندر اعظم کا مشہور واقعہ ہے کہ وہ اپنے استاد ارسطو کے ساتھ سفر کررہا تھا۔

راہ میں ایک دریا آیا تو دونون میں یہ مشورہ ہوا کہ پہلے پانی میں اتر کر کون اس کی گہرائی کا اندازہ لگائے، سکندر اعظم کی ضد تھی کہ دریا کی گہرائی اسے ناپنے کا موقع دیا جائے، ارسطو نے سکندر کو اس سے باز رکھتے ہوئے کہا کہ میں تمہارا استاد ہوں، تمہیں میری بات ماننا ہوگی، پانی میں پہلے میں اترونگا، سکندر کا برجستہ جو اب تھا کہ استاد محترم اس عمل میں آپ کی جان بھی جاسکتی ہے لہذا میں ہرگز نہیں گوارہ کروں گا کہ دنیا آپ جیسے لائق استاد سے محروم ہوجائے کیونکہ سینکڑوں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو پیدا نہیں کرسکتے جبکہ ایک ارسطو سینکڑوں کیا ہزاروں سکندر پیدا کرسکتا ہے۔

استاد کی اس اہمیت کے باوجود ہمارے یہاں کی کارپوریٹزم نے مستقل اور پارٹ ٹائم اساتذہ کی اصطلاحیں متعارف کروادی ہیں۔ باوجود اس حقیقت کے کہ استاد پارٹ ٹائم ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کارپوریٹ ازم کی وجہ سے ادارے اساتذہ کی تربیت پر اخراجات برداشت کرنے کے بجائے چند مخصوص مضامین کے ماہرین کو بطور استاد اپنے ادارے میں پارٹ ٹائم جگہ دے دیتے ہیں۔

جو بنیادی طور پر استاد نہیں ہوتے اس لئے وہ اپنا علم درست انداز میں منتقل نہیں کرپاتے۔ تمام مذاہب نے بھی استاد کی تعظیم وتکریم پر زور دیا ہے، خاص طور پر اسلامی معاشرہ میں تعلیم دینے والے یا سکھانے والے کی جو قدر دانی کی جاتی ہے، کسی اور مذہب میں نہیں ملتی، اسلام نے اللہ کے حقوق کے ساتھ والدین اور استاد کے حقوق واحترام ادا کرنے کی تلقین کی ہے ایک موقع پر رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معلم یعنی استاد کا مرتبہ کتنا اہم ہے، عام طو رپر کسی قانونی بندش کے بغیر اسے تسلیم بھی کیا جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ استاد اپنے فرائض ادا کرنے میں جہاں کوتاہی کے مرتکب ہورہے ہیں شاگردوں میں بھی ان کا پہلے جیسا احترام باقی نہیں رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں، پانچ چھ سال پہلے بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے اجین شہر میں طلباء کے ہاتھ کالج کے ایک پروفیسر کا قتل ہوگیا تھا، ایک اسکول کا لڑکا بھی اپنی ٹیچر پر کلاس روم میں حملہ کرکے اس کی جان لے چکا ہے۔ ان واقعات پر ہندوستان بھر میں زبردست احتجاج دیکھنے میں آیا لیکن یہ رجحان بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے سے موجود ہے جس پر کوئی خبر صرف کچھ دیر کے لئے ہمارے میڈیا کی زینت بنتی ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ دوسری طرف ٹیچر پہلے جیسے ذمہ دار اور محنتی نہیں رہے بلکہ بعض استاد وشاگرد کے مقدس رشتے کو پامال کررہے ہیں، اساتذہ کلاس سے پیسے والوں کے بچوں پر نظر رکھتے ہیں اور کم پڑھا کر مزید علم حاصل کرنے کے لئے والدین کو ٹیوشن کی جانب راغب کرتے ہیں۔

ٹیوشن سینٹر بھی کمائی کا ایک بد ترین ذریعہ بن کر سامنے آیا ہے۔ جس میں پڑھانے والے اساتذہ اسکولوں میں پڑھانے میں دلچسپی نہیں لیتے اور کوشش کرتے ہیں کہ بچے کو بات سمجھ نہ آئے۔ پھر بچے کو والدین کے سامنے کمزور بیان کرکے ٹیوشن کا کہتے ہیں اور خوب کماتے ہیں۔ یہ ہمارے اطراف کھلم کھلا ہورہا ہے لیکن ہم سب اپنی سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں۔

اسی طرح معیارِ تعلیم میں بھی کافی گراوٹ آئی ہے اور رفتہ رفتہ تعلیم تجارت بنتی جارہی ہے آج کے دن ہونا یہ چاہئے کہ اساتذہ کی حالت بہتر بنانے یا سماج میں انہیں ایک باوقار مقام

دلانے کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں ان کے کردار پر غور وخوض ہوتا کیونکہ سماج کی تربیت میں جو حصہ ماں ادا کرتی ہے وہی ایک استاد نبھاتا ہے۔ جو بچہ کل کا شہری بنے گا اسے پہلا سبق اپنے استادوں سے ہی لینا پڑتا ہے اور ان کی نگرانی میں بچہ جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھتا ہے، اسے اپنے اساتذہ سے صرف کتابی علم حاصل نہیں ہوتا۔ اخلاق، تہذیب اور ثقافت کا درس بھی ملتا ہے۔

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ماضی قریب تک استاد اور شاگردوں کا یہ تعلق ایک مقدس رشتہ تصور کیا جاتا تھا لیکن مشینی زندگی نے جہاں دوسرے سماجی تعلقات کو کمزور کیا، وہیں گرو اور چیلے کا رشتہ بھی پہلے جیسا نہیں رہا، رہی سہی کسر ہمارے جمہوری نظام کی ہر سطح میں سیاست کے عمل دخل نے پوری کردی۔

کیونکہ کئی اساتذہ اپنا کارِ منصبی فراموش کرکے پارٹ ٹائم ٹیچر اور فل ٹائم سیاست داں بن گئے ہیں۔ پرائمری یا سیکنڈری اسکولوں میں تو پھر استاد پڑھنے پڑھانے پر توجہ دیتے ہیں لیکن کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تو ان کی ساری توجہ عہدوں اور سیاسی مواقع کے حصول میں صرف ہوجاتی ہے۔

سوال صرف پرائمری، سیکنڈری یا کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کا نہیں، زوال ہر سطح پر ہوا ہے بلکہ یونیورسٹی اور کالج کی سطح پر تو بعض صوبوں میں صورت حال پہلے سے کچھ سدھری ہے، وقت پر امتحانات ہورہے ہیں اور نتائج نکل رہے ہیں ایک طے شدہ تعلیمی کلینڈر کے مطابق پڑھائی بھی ہورہی ہے لیکن اصلاح کا یہ عمل نچلی سطح تک اسی وقت پھیلے گا جب حکومت کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی اپنی ذمہ داری محسوس کریں گے۔

اس پر حکومت کو مربوط حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اساتذہ کو پابند کیا جاسکے کہ وہ پارٹ ٹائم تعلیم نہیں دے سکتے اور پرائیویٹ اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ کسی استاد کو جز وقتی ملازمت فراہم نہیں کرسکتے، انہیں ہر صورت مکمل ملازمت دینی ہوگی۔