مسائل: قلت آب و توانائی ۔۔۔۔۔ پاکستان کے دو سنگین ترین مسائل اور ان کے حل

March 21, 2018

مشہور ہے اورجوآج نظر بھی آرہا ہے کہ قوموں کے درمیان آئندہ جنگیں صاف اور میٹھے پانی کے حصول پر ہوں گی۔ زندگی پانی ہی سے شروع ہوئی اور پانی ہی اس کی بقا ہے۔ پانی نہ ملے تو انسان تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا ہے۔ آنکھوں کا پانی مرجائے تو انسان ذلیل اور بے وقعت ہوجاتا ہے اور دوسروں کے آگے پانی بھرنے لگتا ہے۔

سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے کہا تھا کہ ’’اگر نوع انسان سمندروں کے کھارے پانی کو میٹھا بنالے اور لامحدود توانائی کا کوئی ذریعہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائے تو یہی دو کارنامے اب تک کی تمام سائنسی کامیابیوں اور دریافتوں پر بھاری ہوں گے۔‘‘ ڈی سیلینیشن پلانٹس کے ذریعے سمندروں کے کھارے پانی کو تومیٹھا بنالیا گیا ہے اور مختلف تجربات کے ذریعے ان کی مقدارکو بڑھانے اور سستے سے سستا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ رہا لامحدود اور مسلسل توانائی کا مسئلہ تو سائنس دان اس کے حل کے لیے کئی سالوں سے جدوجہد میں مصروف ہیں۔

اس سے قبل انہوں نے توانائی کے ایک سستے، لیکن نسبتاً کم محفوظ ذریعے انشقاق (فشن) میں کامیابی حاصل کی تھی۔ یہ ذریعہ سستا تو ہے، لیکن اس سے تابکاری کے اثرات پھیلنے کے بڑے خطرات ہوتے ہیں، اس لیے اسے غیرمحفوظ کہا جاسکتا ہے۔ سورج کے اندر توانائی کا جو عمل جاری و ساری ہے، اسے گداخت (فیوژن) کہتے ہیں۔ اس میں ہائیڈروجن (ہیلیم) کے مرکزے (نیوکلیائی) ایک دوسرے میں پیوست یا ضم ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بے پناہ توانائی خارج ہوتی ہے ، اگر یہ عمل ایک مرتبہ شروع ہوجائے تو لامحدود مدت تک جاری رہتا ہے۔

سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس عمل سے فشن، یعنی انشقاق کے عمل کی طرح تاب کاری بھی خارج نہیں ہوتی، گویا نقصان دہ اثرات بھی نہیں ہوتے، چنانچہ کئی ممالک کے سائنس دان ایک عرصے سے ان کوششوں میں مصروف ہیں کہ سورج میں جاری رہنے والے اس عمل کو زمین پر تیار کرنے میں کامیابی حاصل کرلیں، تاکہ انسان کے لیے لامحدود توانائی کا یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے۔

ابھی تک فیوژن کے عمل کو چند سیکنڈوں سے زیادہ دیر تک برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے، لیکن سائنس دان برسوں سے سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں کہ کسی طرح اس میں کامیابی حاصل ہوجائے، اگر ایسا ہوگیا تو توانائی کا سب سے بڑا اور سنگین ترین عالمی مسئلہ بھی ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا۔

یہ تو بڑے ملکوں کے بڑے مسائل ہیں اور ان کے حل تلاش کرنے میں بھی وقت لگے گا، البتہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کو قلت آب اور توانائی کے جو مسائل درپیش ہیں، ان کا فوری حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ممالک پانی کی کمی اور غذائی بحران جیسے خوفناک مسائل کا شکار ہوجائیں گے۔

پاکستان بھی دنیا کے کئی ممالک کی طرح پانی کی کمی اور توانائی کے بحران جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ یہ مسائل نہ صرف برقرار ہیں، بلکہ سنگین سے سنگین تر ہورہے ہیں، گویا صورتِ حال خاصی تشویش ناک ہے۔

پاکستان میں پانی کی شدید کمی کا مسئلہ دو وجوہ سے پیدا ہوا ہے۔ 1960ء میں ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان اپنے چھ دریائوں میں سے تین دریائوں بیاس، راوی اور ستلج کے پانی کے حق سے محروم ہوا۔ اس مسئلے کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ سال کے جن مہینوں میں پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے، ان دریائوں میں بالکل پانی نہیں ہوتا، لیکن برسات کے موسم میں جب پاکستان کی سرزمین میں ہر طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے تو ہندوستان بھی ان تینوں دریائوں کے ذریعے سیلابی پانی کا رخ ہماری طرف کردیتا ہے۔ اس طرح (پاکستان) پنجاب میں ہر طرف تباہی اور بربادی مچ جاتی ہےاور یہ تماشا کئی سال سے ہورہا ہے۔

پاکستانی سیاسی قیادت اگر دوراندیش اور بصیرت افروز ہو تو اس سالانہ ناگہانی آفت کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے سرحدی ریگستانی علاقوں چولستان اور تھر کی طرف ہندوستان سے آنے والے سیلابی پانی کا رخ موڑ کر اسے سال کے بقیہ مہینوں کے لیے ذخیرہ کرلیا جائے، ایک مرتبہ پیسے خرچ کرکے بھاری مشینری کے ذریعے زمین کی سطح کو نیچے کرکے مصنوعی جھیلیں اور بڑے تالاب بناکر ان میں پانی جمع کرلیا جائے۔ ان علاقوں سےنکالی جانے والی ریت اور مٹی کو کسی مفید مقصد اور ضرورت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، اس ذخیرہ شدہ پانی سے مذکورہ علاقوں کی خشک سالی اور پینے کے پانی کی کمی دور کرنے میں مدد ملے گی اور علاقے کی کل معیشت بھی تبدیل ہوجائے گی۔

پاکستان میں پانی کی کمی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں بہنے والے دریائوں میں پانی کی مقدار دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔ ان دریائوں میں پانی مقبوضہ و آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کی جھیلوں، ندی، نالوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے آتا ہے۔ ہندوستان اپنے علاقے میں ڈیم پر ڈیم بناکر پاکستان میں آنے والے پانی کی مقدار مسلسل کم کررہا ہے۔ پاکستان کے احتجاج کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

علاوہ ازیں گلیشیئرز سے پگھل کر آنے والے پانی کی مقدار بھی کم ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟۔ صرف ٹیکنالوجی کی طاقت سے ہی اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ چناب، جہلم اور سندھ جب پاکستانی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے اطراف کے پہاڑوں میں کئی مقامات پر چھوڑے بڑے گلیشیئرز ہیں،جن کو محفوظ طریقے سے حسب ضرورت پگھلا کر پانی کی موجودہ مقدار کو دوگنا اور تگنا بڑھایا جاسکتا ہے۔

سائنس دانوں، انجینئرز اور ماہرین کی مدد سے ایسے مررنما اسکائی ٹیلی اسکوپ تیار کرکے انہیں مخصوص اور محفوظ مقامات پر نصب کیا جائے۔ ان ڈسک ٹائپ مررز کی ساخت ایسی ہو کہ انہیں مطلوب سمت اور رخ میں گھمایا کیا جاسکے۔ ان کے ذریعے سورج کی شعاعوں کو گلیشیئرز پرمرتکز (فوکس) کرکے پانی کی حسب ضرورت مقدار حاصل کی جاسکتی ہے۔

جب پانی حسب ضرورت محفوظ طریقے سے پگھلا لیا جائے تو ان ڈسک مررز کا رخ اوپر کی طرف کردیا جائے۔ روشنی کی شعاعوں کو منعکس کرنے والے سلور، اسٹیل یا پالش شدہ گلاس کے یہ مرر پاکستان ہی میں تیار کیے جاسکتے ہیں اور یہ کوئی پیچیدہ ٹیکنالوجی نہیں ہے۔

رہا اس پروجیکٹ کے قابل عمل ہونے کا معاملہ تو اس میں ناقابل عمل والی کوئی بات نہیں۔ اس کے چار مراحل میں سے کوئی ایک مرحلہ بھی ناقابل عمل اور ناممکن نہیں ہے۔ پہلا ڈسک مرر کی تیاری ،دوسرا محفوظ مقامات کا انتخاب، تیسرا ہائی ٹینشن ٹاورز کی طرح ان کی تنصیب اور چوتھا ان کا محفوظ طریقے اور ضرورت کے مطابق استعمال۔

البتہ ایک معاملہ ضرور قابل توجہ اور غور طلب ہے کہ گلیشیئرز پگھلانے کی صورت میں وہ لڑھک اور پھسل کر نیچے نہ آجائیں، کیونکہ ایسی صورت میں خوفناک تباہی اور بربادی آجائے گی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ڈسک مررز کی تنصیب کے مقامات کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے گا، اسی طرح صرف ان گلیشیئرز کو پگھلایا جائے گا، جو مضبوطی سے جمے ہوئے ہوں اور اوپر سے پگھلائے جانے پر سلائیڈ نہ کرجائیں، یوں بھی گلیشیئرز خواہ مخواہ سلائیڈ نہیں کرتے۔ ان صدیوں سے جمعے ہوئے گلیشیئرز میں سے کیا کوئی خود بخود سلائیڈ ہوکے نیچے آیا ہے۔ احتیاط اور تدبر سے کام لیا جائے تو اس خطرے کا امکان نہیں ہے۔

پاکستان کے دریائوں میں اگر پانی کی مقدار خاطر خواہ بڑھ جائے، جو بالکل ممکن ہے تو کابالاغ ڈیم سمیت دوسرے ڈیم بنانے کا مسئلہ بھی آسانی سے حل ہوجائے گا۔ کے پی کے اور سندھ کو اصل اعتراض یہی ہے کہ دریائے سندھ میں پانی کی مقدار بہت کم رہ گئی ہے۔ اگر دریا میں پانی ضرورت کے مطابق یا اس سے زیادہ ہو تو سندھ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، بلکہ سندھ کا بنجر علاقہ بھی زیرکاشت لایا جاسکتا ہے اور ملک میں زرعی خوش حالی آسکتی ہے۔ اب آئیے توانائی کے مسئلے کی طرف، جو پاکستان کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے ملک لوڈشیڈنگ کے عذاب میں گرفتار ہے۔

یہ بات طے شدہ اور مسلم ہے کہ بجلی پیدا کرنے کا سب سے سستا ذریعہ آبی توانائی ہے اور اس کے ذریعے آلودگی بھی نہیں ہوتی۔ آبی، یعنی ہائیڈل ذریعے سے بجلی پیدا کرنے کی ایک صورت تو ڈیم بنانا ہے، یعنی پانی کے بہائو کی طاقت سے ٹربائن چلتے ہیں اور ان سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔

پانی کے بہائو کی طاقت صرف ڈیم بناکر نہیں اور طریقوں سے بھی حاصل کی جاتی ہے، یعنی دریا کے پانی کے بہائو اور سمندری لہروں کی افقی حرکت کو عمودی حرکت میں تبدیل کرکے ٹربائن چلائے جاسکتے ہیںاور جنریٹروں سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں توانائی کے مسئلے کا حل یہی ہے کہ ہر ذریعے اور موقع کو استعمال کیا جائے اور صرف ڈیم بنانے پر اکتفا نہ کیا جائے، اس معاملے میں چین نے دنیا کے لیے ایک انقلابی مثال قائم کی ہے،جہاں ایک مقام پر صرف آٹھ یا دس فٹ کی بلندی سے آبشار کی صورت میں پانی گر رہا تھا ،اس سے بھی ٹربائن چلاکر لاکھوں میگا واٹ کی صورت میں ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرلی۔

توانائی کا مسئلہ حل ہونے سے چھوٹی بڑی صنعتوں کا جال پھیل گیا اور طرح طرح کی اشیاء تیار ہوکے برآمدات میں اضافہ ہوگیا۔ کسی ملک کی ترقی کا راز پانی اور بجلی ہی ہے۔ پاکستان کے دریا، بالخصوص دریائے سندھ جس شمالی حصے سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اس کے پانی کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے ،اس دو سو میل کی پٹی میں متعدد مقامات پر تین تین سو اور پانچ پانچ سو میگا واٹ کے کئی جنریٹرز چلائے جاسکتے ہیں۔

اس طرح چین کی طرح ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ٹربائن اور جنریٹروں کی تیاری کے لیے غیرملکی ماہرین کے تعاون کی ضرورت نہیں، یہ کام ہمارے ماہرین اور انجینئرز خوش اسلوبی سے کرسکتے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت ہے، وہ اس سلسلے میں انقلابی اقدام کرسکتی ہے۔ بجلی کی کمی کو دور کرنے کے لیے صرف پانی اور کوئلے ہی پر کیوں اکتفا کیا جائے۔

بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں اکثر زوردار ہوائیں چلتی ہیں، اس سےبھی ٹربائن چلاکر ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ نیت اور عزم ہو تو سب کچھ کیا جاسکتا ہے، اگر نہیں توایسےہی گزارا کرنا پڑتا ہے؟

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیر ے

ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

ٹیکنالوجی کی طاقت کا اندازہ صرف اس ایک مثال سے کرلیجئے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے صحرائے سینائی کے تیس ہزار مربع میل رقبے پر قبضہ کرلیا تھا، پھر اس وسیع ریگستان سے فائدہ اٹھانے کا منصوبہ تیار کیا۔ ریگستان کے شروع کےرقبے پر ہیلی کاپٹروں سے ربڑ کا چھڑکائو کرکے ایک تہہ بچھائی،پھر ربر کے اس فرش پر جگہ جگہ سوراخ کرکے پانی کا چھڑکائو کیا اور سفیدے (یوکلپٹس) کے بیچ پھیلادیئے، جسے بہت کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ درخت جڑ پکڑنے کے بعد زمین سے پانی کھینچ کر سطح آب کو بلند کردیتا ہے، چنانچہ مرحلہ وار سارا علاقہ تبدیل ہوا اور طرح طرح کی سبزیاں کاشت ہونے لگیں۔ یہ سبزیاں افریقی ممالک کو برآمد کرکے خاصی بڑی مارکیٹ حاصل کرلی۔ اسے کہتے ہیں بصیرت، ارادہ اور حوصلہ جس سے مسلم ممالک محروم ہیں۔