سیاسی،معاشی استحکام اور مصالحت، دنیا میں سَربلندی کی شاہ کلید

March 25, 2018

پاکستان کے ایک عام شہری کے ذہن میں اکثر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ’’کیا دُنیا میں ہمارے مُلک کا وہی مقام ہے، جس کایہ مستحق تھا ؟‘‘ اور اس کا جواب اسے اپنے حُکم رانوں، سیاست دانوں، اہلِ دانش اور ارکانِ پارلیمان کے بیانات اور غیر مُلکی افراد سے ملاقات میں ملتا ہے۔

ہماری پارلیمان میں آئے روز ایسی قراردادیں منظور کی جاتی ہیں کہ جن میں پاکستان کی بے توقیری کرنے والے غیر مُلکی حُکم رانوں کی مذمّت کی جاتی ہے اور پھر مختلف بین الاقوامی فورمز پر بھی ہمیں رُسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس کی حالیہ مثال ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کی ’’گِرے لسٹ‘‘ میں پاکستان کا شامل ہونا ہے۔

تاہم، اس کے تدارک اور حالات سنوارنے کی کوشش کی بہ جائے عوام کو سازش کی لوریاں سُنا کر سُلا دیا جاتا ہے، مگر ان کے دِل میں ٹیسیں اُس وقت اُٹھتی ہیں کہ جب بیرونِ مُلک پاکستانی پاسپورٹ کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور وہ بوجھل دِل کے ساتھ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمارے اربابِ بست و کشاد نے ہمارے پیارے مُلک کو کس مقام پر لاکھڑا کیا ہے؟

کیا بانیانِ پاکستان نے اسی مقصد کے لیے اس مُلک کو قائم کیا تھا اور کیا قیام کے 70برس بعد بھی پاکستان اور اہلِ پاکستان کے مقدّر میں ذلّت و رُسوائی ہی لکھی ہے؟

پاکستان کی آبادی 20کروڑ سے زاید ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں وہ تمام انسانی وسائل موجود ہیں کہ جو اسے ایک ترقّی یافتہ مُلک بنا سکتے ہیں، لیکن اگر ایک طرف پاکستان کی شرحِ خواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے، تو دوسری جانب معیارِ تعلیم روبۂ زوال ہے اور اس کا بنیادی سبب معاشرے میں تعلیم یافتہ افراد کو اُن کی اہلیت کے مطابق رُتبہ، مقام نہ ملنا ہے۔

گرچہ مُلک میں جا بہ جا نئی درس گاہیں قائم ہو رہی ہیں، لیکن انہیںمعیارِ تعلیم بلند کرنے کی بہ جائے پیسا بٹورنے یا پھر اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر جغرافیائی طور پر دیکھا جائے، تو پاکستان جنوبی اور مغربی ایشیا کا حصّہ ہے، لیکن اس پر مشرقِ وسطیٰ کے غیر معمولی اثرات ہیں اور اس کا سبب مذہبی ثقافت اور تیل کی دولت ہے۔ اس وقت صرف سعودی عرب میں27لاکھ پاکستانی تارکینِ وطن آباد ہیں ، جو لگ بھگ ایک کروڑ پاکستانیوں کے نان نفقے کے ضامن ہیں۔

اس وقت پاکستان جس قسم کی جیو اسٹرٹیجک صورتِ حال سے دوچار ہے، اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے پالیسی ساز کوئی قابلِ عمل اور طویل المدّتی عالمی و علاقائی پالیسی بنانے میں ناکام رہے اور آج بھی وہ ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ کی پالیسی پر گام زن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ان کا مذاق ہی اُڑایا جاتا ہے۔

پھر ہمارے بعض سیاست دان ہر دَم ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کی نوید سُناتے ہیں۔ یعنی ان کی نظر میں موجودہ پاکستان کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے اور وہ مُلک و قوم کو ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر لے جا کر نئے سِرے سے سفر کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔

یہ صورتِ حال عوام میں بے اطمینانی پھیلانے اور انہیں اپنے حال و مستقبل سے مایوس کرنے کا سبب بن رہی ہے اور اُن کا ہر ایک سے اعتبار اُٹھتا جا رہا ہے۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ تمام اسلامی ممالک ہمارے برادر ممالک ہیں، لیکن حال یہ ہے کہ اس وقت گرد و پیش کے تقریباً تمام ہی ممالک سے ہمارے اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں اور ہم بھارت و امریکا کو موردِ الزام ٹھہرا کر خود کوطفل تسلّیاں دینے میں مصروف ہیں۔ حالاں کہ باالفاظِ دیگر یہ خارجہ اُمور میں بھارت کی کام یابی اور اپنی ناکامی کا اعتراف ہے۔

مُلکی معیشت کی ابتر صورتِ حال اور روزگار کے ذرایع نہ ہونے کے سبب ملازمت کی غرض سے بیرونِ مُلک مقیم 90لاکھ سے زاید پاکستانی تارکینِ وطن سے متعصبانہ سلوک کی شکایات عام ہیں اور دُنیا میں پاکستان کی گِرتی ساکھ کا اندازہ پاکستان کی معروف اداکارہ، ماہرہ خان کے ساتھ بیرونِ مُلک پیش آنے والے ایک تکلیف دہ حد تک ناخوش گوار واقعے سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔

گزشتہ دِنوں اُن کا ایک انٹرویو منظرِ عام پر آیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ شوٹنگ کے لیے تلبسی (وسطی ایشیا کی اسلامی ریاست کا ایک شہر) گئیں، تو وہاں ان کے ساتھ موجود بھارتی عملے کی خوب آئو بھگت کی گئی، جب کہ گرین پاسپورٹ کی حامل ہونے کے سبب اُن سے نہ صرف کئی گھنٹوں تک تفتیش کی گئی، بلکہ ان کی تلاشی بھی لی گئی۔

یہ اذیّت ناک داستان بیان کرتے ہوئے وہ آب دِیدہ ہو گئیں اور اہلِ اقتدار سے سوال کیا کہ ’’ کیا ’’سب اچّھا ہے‘‘ کہنے والوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ ان کے ہم وطنوں کو بیرونِ مُلک کس قدر رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟‘‘سو، کیا اس قسم کے واقعات اس اَمر کا تقاضا نہیں کرتے کہ ہم اپنی داخلی حکمتِ عملی اور ترجیحات میں تبدیلی لائیں، جس کا عکس ہماری خارجہ پالیسی میں بھی دکھائی دے اور ہم بڑے فخر کے ساتھ اپنا پاسپورٹ دُنیا کے سامنے پیش کر سکیں اوراس سلسلے میں ہمیں دوسروں پر انگلیاں اُٹھانے کی بہ جائے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا ۔

اپنی کم زوریوں، خامیوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اس وقت پاکستانی قوم مختلف سیاسی، سماجی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ دَھڑوں میں منقسم ہے اور عدم برداشت و شدّت پسندی نے اس تقسیم کو مزید تکلیف دہ بنا دیا ہے، جب کہ ہمارے لیڈرز عوام کو یک جا کرنے کی بہ جائے گِھسے پِٹے نعرے لگانے میں مصروف ہیں۔ اس وقت ہمارا مُلک سیاسی طور پر ایک بھیانک صورتِ حال سے دوچار ہے، جس نے ہمارے جمہوری نظام کو دُنیا کے سامنے تماشا بنا رکھا ہے اور اسی لیے کوئی بھی ہماری باتوں پہ کان دھرنے پر آمادہ نہیں۔

یعنی مُلک کی اندرونی صورتِ حال خارجہ پالیسی میں بھی جھلک رہی ہے، جو پے در پے ناکامیوں سے دوچار ہے ۔ سَستی شُہرت کے لیے غیر مُلکی سفارت کاروں کی بے توقیری، ہمارے وزرا کے لیے ایک قابلِ فخر عمل بنتا جا رہا ہے، توسفارتی تقاضوں سے نابلد ہمارے یہ حُکّام کس طرح پاکستان کے دوست ممالک کی تعداد میں اضافہ کریں گے، اُلٹا یہ تو اقوامِ عالم کو پاکستان کا دشمن بنانے کی پالیسی پر گام زن ہیں۔ پھر ہمارے بعض نا تجربہ کار اینکرز بھی بِلا سوچے سمجھے دوسرے ممالک پر الزامات عاید کرتے رہتے ہیں ۔ ’’منہ توڑ جواب دینا‘‘توجیسے ہمارا مقبولِ عام سفارتی بیانیہ بن چُکا ہے۔

دُنیا میں پاکستان کی ساکھ بہتر بنانے کے لیے سب سے پہلے ہمیں مُلک میں امن اور جمہوری حکومتوں کا تسلسل قائم کرنا ہو گا۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ کوئی غیر معمولی قابلیت رکھنے والا ماہرِ بین الاقوامی اُمور دُنیا کو بے وقوف بنا سکتا ہے۔ ایسا تاثر ذوالفقار علی بُھٹّو کی وزارتِ خارجہ کے زمانے سے پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن اگر بہ غورجائزہ لیا جائے، تو بُھٹّو کی خارجہ پالیسی ہی کے سبب مُلک کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔

اِس وقت مُلک میں ایک ایسی جمہوری حکومت قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ جس پر پاکستانی عوام کو مکمل اعتماد ہو اور وہ اس کے منشور سے بھی متّفق ہوں، کیوں کہ اپنے عوام کی حمایت یافتہ حکومت ہی دُنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتی ہے اور دُنیا بھی اس کی بات پر یقین کرتی ہے۔ پھر قومی ترقّی کی سمت کا تعیّن کیا جائے، تاکہ مُلک کی معیشت بہتر اور پائے دار ہو اور اگلے مرحلے میں خارجہ پالیسی کی سمت کا تعیّن کیا جائے اور اس ضمن میں علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے۔

یہاں یہ اَمر باعثِ اطمینان ہے کہ آج مُلک میں دہشت گردی اور شدّت پسندی کے خلاف ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور حال ہی میں مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے تقریباً 200علماء نے سرکاری مٔوقف کی تائید کی، جسے ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا۔ ہمیں مذہبی قیادت کے اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ میں ریاست کو جہاد کی ذمّے داری سونپی گئی ہے، لیکن اس کا نفاذ تبھی ممکن ہے کہ جب مُلک میں غیر ریاستی عناصر کا کردار مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارے پڑوسی ممالک کی شکایات ختم ہو جائیں گی اور پھر ہم بھی اُن سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بہ جانب ہوں گے کہ ہمارے مُلک میں بھی در اندازی روکی جائے۔تاہم، اس ضمن میں اسلام آباد اور دہلی اور اسلام آباد اور کابل میں اعتماد کی فضا قائم کرنا ہو گی۔

گزشتہ دِنوں پیرس میں منعقدہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں ہم پر جو بیتی، اس پر وزیرِ اعظم کے مُشیرِ خزانہ، مفتاح اسمٰعیل کے ان الفاظ سے بہتر کوئی تبصرہ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’دُنیا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیے گئے ہمارے اقدامات سے مطمئن نہیں۔‘‘ خیال رہے کہ گزشہ دس برس سے زاید عرصے سے ہم پر کالعدم تنظیموں کے خلاف عملی اقدامات کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے اور جب ہم نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جدوجہد اور قربانیوں کا ریکارڈ پیش کیا، تو دُنیا نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، جب کہ ہمارے وزیرِ خارجہ، خواجہ آصف نے ’’ڈُو مور‘‘ کا مطالبہ مسترد کر دیا۔

وزیرِ خارجہ کا گمان تھا کہ وہ اپنے اس ’’دبنگ بیان‘‘ سے عوام میں مقبول ہو جائیں گے کہ انہوں نے عالمی طاقت کو منہ توڑ جواب دیا، لیکن اس کا ایسا ردِ عمل آیا کہ وہ خود لا جواب ہو گئے اور اب پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گِرے لسٹ میں آ چُکا ہے اور جون میں بلیک لسٹ میں شامل ہونے کی تلوار بھی ہمارے سَروں پر لٹک رہی ہے، جس سے بچنے کے لیے اب ہم بہ امرِ مجبوری وہ اقدامات کر رہے ہیں، جو ہمیں پہلے ہی رضا کارانہ طور پر کر لینے چاہیے تھے۔

ایف اے ٹی ایف کے اس فیصلے کے بعد بعض ماہرین ایک مرتبہ پھر پاکستان کے خلاف کسی بین الاقوامی سازش کا سرا ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ ایف اے ٹی ایف کی نائب صدارت چین کے پاس ہے۔ ہمیں اس نکتے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ غیر ریاستی عناصر نے نہ صرف ہمارے شہریوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے، بلکہ ان کے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان دُنیا میں دِن بہ دِن تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور اب دوست ممالک بھی ہماری حمایت سے ہاتھ کھینچ چُکے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کا فیصلہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اب پوری دُنیا ہی ہم سے کالعدم تنظیموں اور غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ دُنیا میں اقتصادی طور پر طاقت وَر ممالک کی عزّت کی جاتی ہے اور اطمینان بخش بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے مُلک کے معاشی استحکام کو اپنی پالیسی کا محور بنایا اور عالمی جراید اور مالیاتی اداروں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ حکومتِ پاکستان کی اقتصادی پالیسی کی سمت دُرست ہے اور اس کے نتیجے میں مُلک میں ترقّی ہو رہی ہے۔ نیز، اس میں مزید اضافے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔

اب صنعتوں کا پہیہ چلنے لگا ہے اور اسے بنیاد بناتے ہوئے مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو ترقّی دینے کی ضرورت ہے، جس کے بے حس و حرکت ہونے کی وجہ سے ہمیں بے روزگاری جیسا خوف ناک چیلنج درپیش ہے اور روزگار نہ ملنے کے سبب پاکستانی نوجوان، جن کا مُلک کی آبادی میں ایک بڑا حصّہ ہے، جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ اب سیاست دانوں کو اپنے کھوکھلے نعروں سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا کہ یہ سوشل میڈیا کا دَور ہے اور عوام کو صرف وعدوں کا ’’لالی پاپ‘‘ دینے پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا، بلکہ عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہم بہ ظاہر مغربی ممالک سے اپنی دُشمنی کا اظہار کرتے ہیں، لیکن عملاً ہمارا نوجوان ’’جینز اور برگر کلچر‘‘ اپنا چُکا ہے اور مغرب ہی اس کا آئیڈیل ہے۔ کل ہم انگریزی کو’’ نوآبادیاتی دَور کی نشانی‘‘ کہتے تھے، جب کہ آج کیمبرج سسٹم فخر کی علامت بن چُکا ہے۔

یعنی آج ہر جا ہی مغربی ثقافت کے نمونے دِکھائی دیتے ہیں ۔ کیا ہم کسی قانون کے نفاذ یا جبر سے ان کا صفایا کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ تاہم، ہمیں معاشرے میں رُونما ہونے والی ان تبدیلیوں کا ادراک کرتے ہوئے ان سے مستفید ہونے کے طریقے وضع کرنے ہوں گے۔ ہمیں اپنی معیشت کو قومی پالیسی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت دینی چاہیے اور پاکستان جیسے غریب مُلک کی سیاسی جماعتوں کے منشور میں معاشی ترقّی کے لیے جدوجہد کا عکس نظر آنا چاہیے۔ بد قسمتی سے ہمارے سیاسی رہنما معروضی حقائق اور معیشت کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کاش وہ چین، بھارت، بنگلا دیش اور برما سمیت دوسرے چھوٹے ممالک میں ہونے والی ترقّی ہی کو دیکھ لیتے اور سڑکوں کی تعمیر سمیت دوسرے میگا پراجیکٹس کو ایک بُرائی کے طور پر پیش نہ کرتے۔ خیال رہے کہ کرپشن کے خاتمے سے زیادہ اقتصادی ترقّی ضروری ہے۔ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یورپ، امریکا اور کینیڈا اسلامی ممالک نہ ہونے کے باوجودپاکستانی نوجوانوں کے لیے پُرکشش کیوں ہیں؟

ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم آزاد خارجہ پالیسی کا دعویٰ تو کرتے ہیں، لیکن اقوامِ عالم میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے دیکھتے عالمی طاقتوں کی طرف ہیں۔ پہلے ہماری توقّعات امریکا سے وابستہ تھیں اور آج چین ہماری امیدوں کا مرکز ہے۔ پھر ہم نے یہ خواہش بھی پال رکھی ہے کہ ہماری قیادت میں تمام اسلامی ممالک ایک ریاست میں تبدیل ہو کر باقی دُنیا کو نیچا دِکھا دیں۔ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کے پالیسی سازوں میں خود اعتمادی کی کمی ہے۔

وہ علاقائی و عالمی تبدیلیوں کا اداراک ہی نہیں رکھتے اور اپنے خول میں سمٹے ہوئے ہیں، لیکن جب ایک عام پاکستانی کسی غیر مُلک میں قدم رکھتے ہی اپنے پاسپورٹ کی ’’قدر و منزلت‘‘ دیکھتا ہے، تو اس کے وہ تمام خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں، جو اسے اپنے مُلک کے سیاست دانوں اور اہلِ دانش نے دِکھائے تھے۔ وہاں ہر فرد اُسے مشکوک اور مضحکہ خیز نگاہوں سے دیکھتا ہے۔

ان تمام حقائق کے پیشِ نظر ہماری سیاسی قیادت اور دانش وَروں کو اقتصادی ترقّی کو ترجیح دینا ہو گی۔ یعنی پہلے اندرونِ مُلک معاشی خوش حالی اور پھر بیرونِ مُلک اپنی طاقت کا اظہار۔ تاہم، اس مقصد کے لیے بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات لانا ہوں گی اور ان کے نتیجے ہی میں ایک تجارتی کلچر فروغ پائے گا۔ پھر وہ ٹھوس ڈھانچا تشکیل دینا ہو گا کہ جس کے ذریعے اندرونِ مُلک اور بیرونِ مُلک عالمی معیار کی حامل مقامی مصنوعات کی تیز رفتار ترسیل ممکن ہو ، مگر یہ اہداف حاصل کرنے کے لیے ہمیں دُنیا کو اپنا دشمن سمجھنے کی بہ جائے اس کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے اور ہر عالمی ادارے میں فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

اس مقصد کے لیے ہمیں اپنا معیارِ تعلیم بہتر کرنا ہو گا اور اپنے خیالات کو دُنیا کے مٔوقف سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ یعنی ہمیں دُنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنا ہو گا اور اس سے استفادہ کرتے ہوئے خود کو پوری دُنیا کے لیے مفید بنانا ہو گا۔ واضح رہے کہ کسی قوم کی یہی خصوصیت ہی اسے دُنیا میں ایک معتبر مقام عطا کرتی ہے اور قرضوں کے بل ہونے والی ترقّی پائیدار نہیں ہوتی، بلکہ یہ کم مائیگی کا احساس پیدا کرتی ہے۔

اس وقت دُنیا میں ایک ہی مُلک سُپرپاور ہے اور وہ ہے، امریکا۔ چین، یورپ، رُوس، بھارت اور جاپان بڑی طاقتیں کہلاتی ہیں، جب کہ باقی ماندہ ممالک میں اُبھرتی ہوئی معیشتیں اور غریب ممالک شامل ہیں۔ اس وقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات خاصے خراب ہیں، حالاں کہ امریکا ہم سے 6ہزار میل کی دُوری پر واقع ہے اور ہمارا اس سے کوئی سرحدی تنازع بھی نہیں۔

پاکستان اور امریکا 70برس تک اتحادی رہے اور آج بھی امریکا ہی پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ اس وقت پاک، امریکا اختلافات کی تین وجوہ ہیں۔افغانستان، امریکا، بھارت دوستی اور مسئلہ فلسطین۔ تاہم، ان سب پر اوّل الذّکر کو فوقیت حاصل ہے۔ امریکا، افغانستان میں گزشتہ 17برس سے طالبان کے خلاف برسرِ پیکار ہے، جب کہ پاکستان گزشتہ 44برس سے افغانستان کے معاملات میں دخیل رہا ہے۔ کبھی سوویت یونین کے خلاف جنگ کی صُورت میں، کبھی مجاہدین کی حکومت کی شکل میں، کبھی طالبان حکومت تسلیم کرنے کے نتیجے میں اور کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صُورت ۔

اس پورے عرصے میں زیادہ تر معاملات میں امریکا اور پاکستان اتحادی کے طور پر کام کرتے رہے، لیکن پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے طریقۂ کار پر دونوں میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ اب امریکا، پاکستان پر حقّانی نیٹ ورک کو پناہ دینے کا الزام عاید کرتا ہے، جسے پاکستان یک سَر مسترد کر دیتا ہے۔ افغانستان ہی کے معاملے پر واشنگٹن اور دہلی کے درمیان قُربتیں بڑھیں، جس پر اسلام آباد کو شدید تحفّظات ہیں۔ اس وقت ہمارے پالیسی سازوں کے لیے اس سوال کا جواب تلاش کرنا اہم ہے کہ پاک، امریکا تعلقات میں کشیدگی کیوں کر پیدا ہوئی؟

آج امریکا ہماری کسی بات پر یقین کرتا ہے اور نہ ہم اس کی کوئی بات سُننے کے روادار ہیں، حتیٰ کہ ہمارے اہلِ دانش و سیاست امریکا مخالف بیانات کو حُبّ الوطنی کی سند قرار دے چُکے ہیں اور امریکا سے تعلقات معمول پر لانا، بھارت سے دوستی کی طرح مُلک سے غدّاری کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔

دراصل، ہمارے پالیسی ساز بھارت اور افغانستان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی تیار کرتے ہیں، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے دوست ممالک بھی، جن پر ہمارا تمام تر انحصار ہے، اسی فارمولے پر عمل پیرا ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے۔ اس وقت چین کے امریکا سے نہایت قریبی تعلقات ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت کا حجم 600ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ نیز، دونوں ممالک کے رہنما بھی ایک دوسرے کی عزّت کرتے ہیں۔ چین اور بھارت بھی کئی بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

مثال کے طور پر یہ دونوں ہی ’’برکس‘‘ کے اہم رُکن ہیں، جو مستقبل میں اقتصادی تبدیلیوں کا ایک اہم محرّک ثابت ہوگا۔ اسی طرح ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کے اجلاس میں اسلام آباد کے ساتھ دہلی کو بھی پزیرائی ملتی ہے۔ نیز، چینی صدر نے نریندر مودی کو اپنے گھر مدعو کیا، تو بھارتی وزیرِ اعظم نے شی جِن پِنگ کو گجرات میں اپنا مہمان بنایا، جب کہ ہمارے سیاسی رہنمائوں کا حال یہ ہے کہ اگر ہمارا وزیرِ اعظم اپنے بھارتی ہم منصب یا امریکی صدر سے ملاقات کرتا ہے، تو اس پر فوراً مُلک فروخت کرنے کا الزام عاید کر دیا جاتا ہے اور پھر ہمارا میڈیا بھی اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور وزیرِ اعظم کو ’’سیکوریٹی رِسک‘‘ تک قرار دے دیا جاتا ہے۔

کیا اب دوسرے ممالک کے رہنمائوں سے خفیہ ملاقاتیں کی جائیں؟ یہ تمام حقائق پیشِ نظر رکھتے ہوئے پاکستانی پالیسی سازوں کو اس بات کا فیصلہ بھی کرنا چاہیے کہ انہیں اپنے مفادات حاصل کرنے ہیں یا پھر کسی غیر معیّنہ مدّت کی جنگ کا طبل بجانا ہے، تاکہ محض عوام کے جذبات کو تسکین مل سکے۔

ہمیں ماہرینِ عالمی اُمور کی اس رائے پر توجّہ دینے کی ضرورت ہے کہ مذاکرات کے ذریعے اختلافات ختم کر کے تعلقات معمول پر لانے ہی میں بہتری ہے اور ہمیں امریکا سے دُشمنی کی بہ جائے اپنے مفادات کو مقدّم رکھنا چاہیے۔ تاہم، یہ بات خوش آیند ہے کہ دونوں اتحادیوں کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطے جاری ہیں۔

چین سے ہمارے تعلقات بہت اچّھے ہیں اور ان میں مزید بہتری آ رہی ہے اور یہ اَمر باعثِ اطمینان ہے۔ پاک، چین اقتصادی تعاون کی بنیادیں سی پیک منصوبے میں پوشیدہ ہیں۔ گوادر پورٹ سے جتنا فائدہ پاکستان کو پہنچے گا، اتنا ہی یا شاید اس سے کچھ زیادہ چین کو بھی ہو گا۔ اس وقت پاکستان اور چین کے درمیان سیاسی و عسکری سطح پر اچّھے تعلقات ہیں۔

تاہم، انہیں عوامی سطح پر بھی لانا ہو گا اور پھر ہمارے پالیسی سازوں کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہو گی کہ آج چین ایک بڑی طاقت بن چُکا ہے اور اسے منزل تک پہنچانے کے لیے حال ہی میں کمیونسٹ پارٹی نے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے شی جِن پِنگ کو تا حیات چین کا صدر رہنے کی اجازت دے دی ہے۔

خیال رہے کہ چیئرمین مائو کے بعد پہلی مرتبہ یہ اعزاز کسی چینی رہنما کو ملا ہے اور اسی لیے دُنیا کی دو سری بڑی اقتصادی قوّت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ دُنیا کے مرکزی اسٹیج پر فعال کردار ادا کرے گی۔ چین کی جانب سے بین الاقوامی فعالیت کی یہ خواہش صدیوں بعد دیکھنے میں آئی ہے، کیوں کہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وسیع علاقے اور آبادی کے باوجود چینی شہنشاہ ہمیشہ علاقائی طاقت ہی پر قانع رہے۔

چین کے علاوہ رُوس بھی ایک علاقائی و عالمی طاقت ہے، جب کہ یورپی یونین کی اہمیت بھی مسلّمہ ہے۔ ماضی میں رُوس اور پاکستان کے درمیان کشیدگی پائی جاتی تھی۔ 1965ء کی پاک، بھارت جنگ کے بعد ماسکو نے ثالث کے طور پر اسلام آباد اور دہلی کے درمیان معاہدۂ تاشقند کروایا، جس پر اندرونِ مُلک خاصی تنقید ہوئی اور بعدازاں بُھٹّو کا کہنا تھا کہ’’ ہم نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ ٹیبل پر ہار دی۔‘‘ اس کے برعکس رُوس کے بھارت سے ہمیشہ ہی نہایت قریبی تعلقات رہے ، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ فوجی و اقتصادی تعاون کرتے رہے۔ نیز، عالمی فورمز پر دونوں ہی یکساں مٔوقف رکھتے۔ 1971ء کی پاک، بھارت جنگ کے دوران رُوس نے بھارت کا کُھل کر ساتھ دیا۔

بعد ازاں، پاکستان نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی، جس میں امریکا بھی آ شامل ہوا۔ اس جنگ کے نتیجے میں سوویت یونین بکھر گیا اور اس کی معاشی طاقت بھی جواب دے گئی۔ اب اس واقعے کو 30برس گزر چُکے ہیں اور امریکا سے تعلقات میں خرابی دَر آنے کے بعد ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان خاصی گرم جوشی دیکھنے میں آئی ہے، جو یقیناً خوش آیند ہے، لیکن یاد رہے کہ رُوسی صدر، ولادی میر پیوٹن بھی ایک قوم پرست رہنما ہیں اور وہ رُوس کی ایک عالمی طاقت کے طور پر بحالی کا ایجنڈا رکھتے ہیں اور اگر کسی موقعے پر ماسکو کابیجنگ سے ٹکرائو ہوتا ہے، تو پھر اسلام آباد کس سمت جائے گا؟ کیا پاکستان کو رُوس کی افغانستان میں فعالیت قابلِ قبول ہوگی؟ نیز، اس وقت رُوس، شام میں جو کردار ادا کر رہا ہے، اُسے پیشِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان، رُوس کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دے سکتا ہے؟ یعنی پالیسی سازوں کو پاک، رُوس تعلقات کو مشرقِ وسطیٰ کے تناظر میں بھی جانچنا ہو گا۔ علاوہ ازیں، بھارت کے رُوس سے دیرینہ تعلقات ہیں اور ماسکو، اسلام آباد کی خاطر کس قدر کشادگی کا مظاہرہ کرے گا؟ کیا وہ مسئلہ کشمیر پر ہمارا ساتھ دے گا؟ کیا بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعے پر اسے ہمارا مٔوقف قبول ہو گا اور کیا وہ اسلام آباد کے کابل میں دہلی کے کردار پر اعتراضات کو بجا سمجھے گا؟ پھر یہ اہم ترین سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا رُوس، افغانستان میں امریکی پالیسی کی مخالفت کر سکتا ہے؟ خیال رہے کہ جب پاکستان نے نیٹو رسد پر پابندی عاید کی تھی، تو تب رُوس ہی نے اسے متبادل راہ داری فراہم کی تھی۔ سو، ہمارے پالیسی ساز کس طرح اس تنی ہوئی رسی پر چلیں گے؟

اب جہاں تک یورپی ممالک کی بات ہے، تو انہوں نے تجارتی معاملات میں پاکستان کے لیے ہمیشہ نرم گوشہ رکھا ہے اور جی ایس پی پلس جیسی رعایتیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جس سے پاکستان کو اپنی اقتصادی حالت بہتر بنانے میں مدد ملی۔ تاہم، یہ بھی طے ہے کہ برطانیہ سمیت دوسرے یورپی ممالک افغانستان اور دہشت گردی کے معاملے پر امریکا کے ہم نوا ہیں۔

پھر نیٹو فورسز بھی یورپی و امریکی افواج پر مشتمل ہیں اور ہم بڑے فخر کے ساتھ افغانستان میں ان کی شکست کی داستانیں سُناتے ہیں۔ ایسے میں یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ یورپ، امریکا کی بہ جائے ہمارے مٔوقف کی حمایت کرے گا۔ ایف اے ٹی ایف میں ہمیں بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی قرارداد امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے پیش کی تھی اور مارچ کے دوسرے عشرے میں نوجوان فرانسیسی صدر، ایمانوئیل میکروں نے، جنہیں ’’یورپ کی امید‘‘ کہا جا رہا ہے، بھارت کا دورہ کیا اور اس دورے میں بھارت اور فرانس کے درمیان دفاعی معاہدے سمیت 17ارب ڈالرز کے دیگر معاہدے ہوئے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یورپ ہمارے خلاف ہے اور اگر پاکستان، یورپ کے ساتھ تعلقات میں معیشت کو ترجیح دیتا ہے، تو پھر اس کا تعاون حاصل کرنا مشکل نہ ہو گا۔ گرچہ بھارت اور یورپ دہشت گردی کے معاملے پر یکساں مٔوقف رکھتے ہیں اور بھارت سے تعلقات یورپ کی ضرورت بن چُکے ہیں، لیکن پاکستان کو بھی اپنے لیے راہ نکالنا ہو گی۔

جنوب مشرقی ایشیا بھی پاکستان کے لیے ایک اہم خطّہ ہے۔ یہاں واقع بنگلا دیش، انڈونیشیا اور ملائیشیا آبادی کے اعتبار سے اسلامی دُنیا کے بڑے ممالک ہیں۔ مٔوخر الذّکر دونوں ممالک سے پاکستان کے اچّھے تعلقات ہیں، جب کہ بنگلا دیش سے، جو کبھی ہمارا مشرقی بازو تھا، ہمارے تعلقات خاصے خراب ہیں، جس کا جواز ہم یہ دیتے ہیں کہ وہ بھارت کے زیرِ اثر ہے، لیکن اگر نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر معاشی تعلقات کو فروغ دیا جائے، تو پاکستان اور بنگلادیش کے مابین بھی بہتر روابط قائم ہو سکتے ہیں۔

تاہم، سری لنکا، جنوبی و شمالی کوریا، جاپان، سنگاپور، تھائی لینڈ، فلپائن، آسٹریلیا اور کینیڈا سے ہمارے بہتر اقتصادی تعلقات قائم ہیں۔ اس خطّے میں ویت نام ایک اُبھرتی ہوئی معیشت ہے اور جاپان اور جنوبی کوریا نےپاکستان کے ساتھ وسیع پیمانے پر اقتصادی تعاون کیا ہے اور ان ممالک سے پاکستان کا کوئی تنازع بھی نہیں۔ بحرِ ہند کی اہم گُزر گاہیں اور بندر گاہیں مشرقی ایشیا میں واقع ہیں اور امریکا، چین اور جاپان اس کی روایتی بڑی طاقتیں ہیں، جب کہ بھارت بھی یہاں بڑی تیزی سے پیش رفت کر رہا ہے اور گوادر کی بندر گاہ کو بھی اسی تناظر میں اہمیت دی جا رہی ہے۔

بہ ظاہر اس خطّے میں جنوبی و شمالی کوریا کے تنازعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، لیکن بنیادی طور پر امریکا ،جاپان اور چین کے درمیان کشمکش جاری ہے۔ اب جاپان ایک فوجی قوّت کے طور پر سامنے آ رہا ہے، جب کہ چین دُنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت بن چُکا ہے اور یہ خطّہ اقتصادی طور پر یورپ سے زیادہ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ایشین ٹائیگرز یہیں واقع ہیں اور معاشی ترقّی کا خواہش مند کوئی بھی مُلک اس خطّے کو نظر انداز نہیں کر سکتا، لیکن پاکستانی حُکّام اپنے مُلک کے بکھیڑوں میں پھنس جانے کی وجہ سے ان ایشیائی ممالک سے بھی استفادہ نہ کر سکے۔

ماضی میں مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک سے پاکستان کے تعلقات خوش گوار رہے اور یہ تسلسل جمہوری و فوجی ادوارِ حکومت دونوں ہی میں قائم رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج سب سے زیادہ پاکستانی تارکینِ وطن اسی خطّے میں موجود ہیں، لیکن اب ہمارے بعض نادان سیاست دانوں اور نام نہاد ماہرین نے ان ممالک کو پاکستان کے اندرونی تنازعات میں گھسیٹنا شروع کر دیا ہے۔

پھر مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے ہمارے سیاسی، فوجی اور معاشی مفادات بھی جُڑے ہوئے ہیں اور وہاں رُونما ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات بھی ہم پر پڑتے ہیں، چاہے یہ ایران کا انقلاب ہو یا عرب اسپرنگ ،شام کی خانہ جنگی ہو یا سعودی عرب، ایران کشمکش۔ تاہم، ماضی میں اسلام آباد نے توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی اور پاکستانی میڈیا نے بھی احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا، مگر گزشتہ چند برس سے کچھ جذباتی تجزیہ کاراور ماہرین ان تعلقات کو دائو پر لگانے کے درپے نظر آتے ہیں اور اس کے اثرات بھی نظر آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایف اے ٹی ایف میں سعودی عرب نے پاکستان کی حمایت سے احتراز کیا۔

اگر ہمارے ماہرین ٹاک شوز میں بیٹھ کر کسی مُلک میں بادشاہت یا آمریّت پر اس طرح تنقید کریں کہ جیسے وہ وہاں انقلاب لانا چاہتے ہیں، تو اس رویّے کے منفی نتائج تو بُھگتنا ہی پڑیں گے۔ ایک جانب پاکستانی نوجوان، جو مُلک کی آبادی کا 60فی صد ہیں، خلیجی ممالک، امریکا اور یورپ جانے کے لیے بے چین اور منزلِ مُراد تک پہنچنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ اپنانے اور سمندر میں ڈوبنے تک کو تیار ہیں اور دوسری طرف ہمارے ماہرین انہی ممالک کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں۔ ماہرین کو تجزیہ پیش کرتے ہوئے اپنی معاشی ضروریات اور محدود وسائل کا ادراک کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔

اپنے تصوّرات کو معروضی حقائق کا لبادہ پہنانا غیر مناسب ہے۔ پھر ہمیں اُمورِ خارجہ میں سائنسی انداز اور حقیقت پسندانہ رویّہ اپنانا ہو گا، ورنہ بین الاقوامی فورمز پر اپنی شکست کا رونا رونا ترک کر دیں۔ ہمیں مشرقِ وسطیٰ سے متعلق ایک مربوط پالیسی تشکیل دینی چاہیے اور اپنے مفادات کے پیشِ نظر ہی ترجیحات ترتیب دینی چاہئیں۔ اب ہمیں ثالثی کے چکر سے نکلنا ہو گا۔

اصولوں کی حد تک تو غیر جانب داری اچّھی بات ہے، لیکن زمینی حقائق کے مطابق عملی اقدامات بھی ضروری ہیں۔ جہاں معاہدے ناگزیر ہوں، وہاں یہ عمل میں لائے جائیں اور جہاں مزاحمت کی ضرورت ہو، وہاں اسٹینڈ لیا جائے۔ اب ہمیں اس بات کا ادراک ہو جانا چاہیے کہ امریکا فی الوقت اس خطّے سے کہیں نہیں جا رہا اور رُوس پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ چین تجارت کے میدان میں آگے ہے اور بھارت بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ نیز، جوہری معاہدے پر امریکا اور یورپی ممالک کے نکتۂ نظر میں فرق اور اس کے علاقائی سیاست پر اثرات اور اس پر اسرائیل کے ردِ عمل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہی ہمیں اپنے مفادات حاصل کرنا ہوں گے۔

ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ ’’انڈیا سینٹرک‘‘ رہی ہے اور ہم نے ہمیشہ بھارت کو اپنی ناکامیوں کا ذمّے دار ٹھہرایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت سے ہمارے کئی دیرینہ تنازعات ہیں، جن میں مسئلہ کشمیر، آبی تنازع اور بلوچستان سمیت مُلک کے دوسرے حصّوں میں دہشت گردی شامل ہیں اور ان تمام تنازعات نے مل کر نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان، بلکہ دشمنی کی کیفیت کو جنم دیا اور اب دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے ہر بیان اور اقدام کو اسی زاویے سے پرکھنا معمول بن چُکا ہے اور جب دونوں ممالک کے درمیان تنائو بڑھ جاتا ہے، تو ایک دوسرے کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی بھی سامنے آتی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے عوام بھی تنائو کا شکار رہتے ہیں۔

اب اگر علاقائی و عالمی تناظر میں دیکھا جائے، تو دونوں ممالک کی اس دُشمنی نے ہر طاقت وَر مُلک کو جنوبی ایشیا اور افغانستان میں اپنے اثرات بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔ یہ طاقت وَر ممالک اپنے اثرات بڑھانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرتے ہیں اور اس حقیقت سے دونوں ممالک کے عوام بھی آگاہ ہیں، لیکن وہ اپنی اپنی قیادت کے سامنے بے بس ہیں کہ جو شاید نفرت کا باعث بننے والے تنازعات حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی۔

پھر دونوں جانب نفرت کے جذبات اس نہج پر پہنچ چُکے ہیں کہ نیک نیّتی کے ساتھ روابط قائم کرنے کی تجویز دینے والے پر اس قدر سنگین الزامات عاید کیے جاتے ہیں کہ وہ آیندہ ایسی کوئی تجویز دینے ہی سے توبہ کر لیتا ہے، مگر عجیب بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے تعلقات بحال کرنے کی خواہش بھی ظاہر کرتی ہے ۔ حال ہی فرانس، جرمنی دوستی کا جَشن منایا گیا۔

ماضی میں ایک دوسرے کے ازلی دشمن آج یورپی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھ رہے ہیں اور انہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کبھی ان میں دشمنی تھی ہی نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے لیے ایک دوسرے کے قریب آنا ایک بڑا چیلنج ہے اور ان دونوں ممالک کے عوام کو ایسی لیڈر شپ کو آگے لانا ہو گا کہ جو یہ کارنامہ انجام دے سکے۔

چند ماہ بعد پاکستان میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور جلد ہی سیاسی جماعتوں کے منشور بھی سامنے آ جائیں گے۔ انتخابی منشور میں اقتصادی پالیسی کو فیصلہ کُن حیثیت حاصل ہو گی، کیوں کہ مسلسل پس ماندگی کا شکار رہنے کے باعث پاکستانی عوام بپھرے ہوئے ہیں اور اب نہیں صرف سبز با غ دِکھا کر نہیں بہلایا جا سکتا۔

پاکستانی عوام سوشل میڈیا کی بہ دولت پوری دُنیا سے جُڑ چُکے ہیں اور اب حکومت میں آکر اپنے وعدے پورے نہ کرنے والی سیاسی جماعتوں کو سخت احتجاج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب انہیں سیاسی جوڑ توڑ سے نکل کر اقتصادی ماہرین پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دینا اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔

پھر پاکستانی عوام کے لیے آئے روز مختلف عالمی فورمز پر اپنے مُلک کی رسوائی بھی ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہے اور سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں ایسے نکات شامل کرنا ہوں گے، جن کے نتیجے میں پاکستان کے دوست ممالک کی تعداد میں اضافہ ہو، اقوامِ عالم میں سر زمینِ پاک ، سبز ہلالی پرچم اور گرین پاسپورٹ کی حُرمت بحال ہو اور پاکستانی باشندے بیرونِ مُلک سَر اُٹھاکر چل سکیں۔