ایک کرسی کی کہانی

March 27, 2018

آپ کو ایک حیرت انگیز کرسی کی کہانی سنانے کے لئے میںکہیں نہیں جارہا۔ اس لئے میںیہ نہیں کہتا کہ میں آپ کو آج ایک کہانی سنانے جارہا ہوں۔ میںدیکھ رہا ہوںکہ آپ میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس لئے آپ کو کہانی سنانے کے لئے میںکہیں نہیںجارہا ۔ آپ اس ہال میں موجود ہیں۔ میںبھی اس ہال میںموجود ہوں۔ مہمان خصوصی بھی اسی ہال میں موجود ہیں اور ہم سب سے اچھے حال میں ہیں۔ وہ ایک خصوصی کرسی پر برا جمان ہیں۔ مہمان خصوصی ہمیشہ خصوصی کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ وہ عام کرسی پر نہیںبیٹھتے۔ عام کرسی پر آپ بیٹھتے ہیں، آپ کے بچے بیٹھتے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ایک کرسی کی کہانی سنانے کے لئے میںکہیں نہیں جارہا ۔آپ یہیں موجود ہیں۔ میں بھی یہیںموجود ہوں۔ میں آج آپ کو ایک حیرت انگیز کرسی کی کہانی سناتا ہوں۔
اس کہانی کو آپ کہانی مت سمجھیں ۔ ویسے کہتے ہیںکہ کہانی سنی یا پڑھی جاتی ہے۔ مگر آج کی کہانی میری دیکھی بھالی کہانی ہے۔ یہ کہانی میں نے کسی کی زبانی نہیں سنی ہے۔ یہ کہانی میں نے پڑھی بھی نہیں ہے۔ یہ کہانی میںنے دیکھی ہے۔ اور جو کچھ میں نے دیکھا تھا وہ آپ کے گوش گزار کررہا ہوں۔ اس کہانی کو میں نے بچپن میںدیکھا تھا۔ اس کہانی کو میںنے لڑکپن میںدیکھا تھا۔ اس کہانی کو میںنے جوانی میں دیکھا تھا۔ اس کہانی کو میں نے ادھیڑ عمر میںدیکھا تھا۔ اس کہانی کو میں نے بڑھاپے میں دیکھا تھا۔ اور اب بوڑھا کھوسٹ ہوجانے کے بعد میں وہی کہانی دیکھ رہا ہوں۔
قصہ کچھ اس طرح ہے کہ ہم کراچی میں برنس گارڈن کے قریب ایک فلیٹ میںرہتے تھے۔ پڑوس کے ہم بچے کھیل کود کرنے کیلئے ہر شام برنس گارڈن کا رخ کرتے تھے۔ اور خوب بھاگ دوڑ کرتے تھے۔ برنس گارڈن کے بیچوںبیچ گنبد والی ایک بے انتہا خوبصورت عمارت ہوا کرتی تھی۔ پتھر سے بنی ہوئی وہ عمارت آج بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ تب وہ عمارت ہمیںبڑی پراسرار لگتی تھی۔ اس کے قریب جاتے ہوئے عجیب قسم کا خوف محسوس ہوتا تھا۔ اس عمارت کی الماریوںمیں مورتیاںٹوٹے پھوٹے برتن، پرانے سکے، جانوروں کے ڈھانچے اور اسی نوعیت کے بے شمار نوادرات بڑے سلیقے سے سجائے ہوئے ہوتے تھے۔ اس عمارت کو کچھ لوگ بت خانہ اور کچھ لوگ بھوت خانہ کہتے تھے۔ اصل میں وہ کراچی کا میوزیم Museum تھا۔ اب اس عمارت میں سپریم کورٹ کے مقدمے چلتے ہیں۔
بت خانہ یا بھوت خانہ کے عقب میں پیپل کے گھنے درخت لگے ہوتے تھے۔ پندرہ روزہ سردیوں کی چھٹیوں میںکراچی کے تمام اسکول بند ہوجاتے تھے۔ کلفٹن، کیماڑی، گاندھی گارڈن، جوکہ Zooبھی تھا، جہانگیر پارک، فرئیر ہال گارڈن، برنس گارڈن اور دیگر تفریح گاہوںمیںچہل پہل بڑھ جاتی تھی۔ انہی دنوںمیںبرنس گارڈن میںبت خانہ یا بھوت خانہ کے قریب ایک لحیم شحیم شخص بچوںکو کرتب اور جادوئی کھیل دکھانے آتا تھا۔ باریش، سر کے بال شانوں تک بڑھے ہوئے، آنکھوںپر لوہے کے باریک فریم والی عینک اور اوور کوٹ پہننے ہوئے بوڑھے کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون تھا کہاں سے آتا تھا، اور سردیوںکی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد وہ کہاںچلا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ واپس جانے سے پہلے اس نے ہم بچوںسے وعدہ کیا تھا کہ اگلی سردیوں کی چھٹیوں میںوہ ہمیں ایک ایسی کرسی دکھائے گا جس کرسی نے دنیا کو دیوانہ بنادیا ہے۔ دنیا بھر کے لوگ اس کرسی پر بیٹھنے کے لئے کچھ بھی کرگزرنے کو تیار رہتےہیں۔
اس پراسرار شخص کا نام بڑا عجیب اور انوکھا تھا۔ وہ کہتا تھا، میرا نام تارک الدنیا ہے۔ تم بچے مجھے تارک کہہ سکتے ہو۔ اور ہم بچے احتراماً اسے استاد تارک کہا کرتے تھے (طارق نہیں)۔ اگلا برس ہم نے بڑے تجسس میںگزارا اور بے چینی سے استاد تارک کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔ خدا خدا کرتے سردی آئی۔ ہمیں سردی کی چھٹیاں ملیں۔ اسکول بند ہوگئے۔ کراچی کی تفریح گاہوںکی رونقیں بڑھ گئیں۔ ایسے میں ایک روز ہمیں استاد تارک برنس گارڈن میںدکھائی دئیے۔ استاد تارک نے کندھے پر ایک لکڑی سے بنی ہوئی معمولی کرسی اٹھا رکھی تھی۔ا ستاد تارک نے کندھے سے کرسی اتار کر پیپل کے درخت کے نیچے رکھ دی۔ کرسی دیکھ کر ہم بچے بہت مایوس ہوئے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ کرسی سونے چاندی سے بنی ہوئی ہوگئی اور اس میںہیرے جواہر لگے ہوئے ہوںگے۔ مگر وہ بڑی ہی بد نما کرسی تھی۔ لگتا تھا استاد تارک کسی کباڑ خانہ سے کرسی اٹھا کر لایا تھا۔
استا د تارک نے کرسی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: ایک مرتبہ ایک گونگا اس کرسی پر بیٹھا تھا۔ کرسی پر بیٹھتے ہی گونگا فر فر بولنے لگا تھا۔
بچوں نے کوئی دلچسپی نہیںدکھائی۔ استاد تارک نے کہا: ایک مرتبہ ایک پاگل اس کرسی پر بیٹھا تھا۔ کرسی پر بیٹھتے ہی وہ عقلمند بن گیا تھا۔
بچوںنے دوسری طرف دیکھا۔ استاد تارک نے کہا: ایک مرتبہ ایک نابینا اس کرسی پر بیٹھا تھا۔ کرسی پر بیٹھتے ہی وہ سات سمندر پار دیکھنے لگا تھا۔
ایک بچے نے پوچھا:کیا کبھی کوئی بہرا اس کرسی پر بیٹھا تھا؟
استاد تارک نے کہا:ہاںوہ بیٹھا تھا۔ مگر بہرے کا بہرا ہی رہا۔
بچوں کو تعجب ہوا۔ سب کے منہ سے نکلا : اوہ۔
استاد تارک نے کہا: اس کرسی کی ایک بات بڑی عجیب ہے۔ اس پر بیٹھنے والا ہر شخص بہرا بن جاتا ہے۔ وہ کسی کی نہیںسنتا۔ صرف اپنی سنتا ہے۔
بات بچوںکے سر سے گزر گئی۔ا ستاد تارک نے کہا: ایک مرتبہ ایک منصف اسی کرسی پر بیٹھا تھا۔ وہ پھر کبھی انصاف نہ کرسکا۔
بچوںکے منہ حیرت سے کھلے کے کھلےرہ گئے۔ استاد تارک نے کہا: ایک مرتبہ ایک ڈاکو اس کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ کرسی پر بیٹھتے ہی وہ منصف بن گیا ۔ سب سے پہلے اس نے اپنے آپ کو تمام الزامات سے بری کردیا تھا۔
ایک بچے نے پوچھا:کبھی کوئی کواا س کرسی پر بیٹھا تھا؟
’’ہاں ، بیٹھا تھا۔‘‘ استاد تارک نے کہا۔ ’’کرسی پر بیٹھنے کے بعد کوا ہنس کی چال چلنے لگا تھا۔ ایک مرتبہ ایک گیڈر اس کرسی پر بیٹھا تھا اور وہ خود کو ببر شیر سمجھنے لگا تھا۔
سب سے چھوٹے بچے نے پوچھا: کیا یہ طلسماتی کرسی ہے؟
’’نہیں۔ یہ طلسماتی کرسی نہیںہے۔‘‘ استاد تارک نے کہا: یہ اقتدار کی کرسی ہے۔
یہ سنتے ہی بچے کرسی پر ٹوٹ پڑے۔ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگئے۔ کرسی پر قبضہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کو لہو لہان کردیا۔ اس بات کو ستر برس گزر گئے ہیں۔ بچے بڑے نہیں ہوئے۔ اقتدار کی کرسی پر قبضہ کرنے کے لئے وہ ایک دوسرے کو لہو لہان کرنے سے باز نہیں آئے۔