امریکا، چین تجارتی جنگ

April 04, 2018

ایک وقت تھا کہ اس پورے کرئہ ارض پر امریکی سلطنت کے رعب و دبدبے کا شہرئہ آفاق تھا پوری دنیا میں امریکا اور امریکیوں کی تری اور طرز زندگی کو جنت سماں سمجھا جاتا تھا ان کی عسکری و معاشی طاقت و برتری اور ان کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی مہارت نے انہیں خود سر بنادیا پھر کیا تھا ایک نیا سامراج آئی ایم ایف، عالمی بینک بعد ازاں واشنگٹن اتفاق میں طے ہونے منصوبے کو دنیا کو کیسے چلایا جائے اور اگر سوویت یونین کے خاتمے میں کامیاب ہوگئے تو آزاد تجارت اور عالمی تجارتی تنظیم اوعر دیگر مالیاتی اداروں کے ذریعے دنیا کو اپنی مرضی سے چلایا جائے گا اور اسے نیو ورلڈ آرڈر کیا جائے گا۔

’’ڈالر کی موت‘‘ کے امریکی دانشور او رمصنفین ایڈیسن وگن اور مائیکل جے پارنزر کتاب لکھ ڈالی اور اس میں انہوںنے جھوٹی سرمایہ داریت اور آئی پوڈ اکانومی کو مکمل طورپر بے نقاب کردیا ایک جگہ اپنی مذکورہ کتاب میں لکتھے ہیں ’’ماضی میں آنے والے معاشی بحرانوں کی بحالی میں سب سے اہم اور بنیادی کردار ہمیشہ صنعتی پیداواریت کا ہی رہا ہے اور معیشت کے استحکام یا عدم استحکام کو پرکھنے کا سب سے قابل اعتماد ذریعہ بھی صنعتی پیداواری ہوتا ہے نومبر 2001میں جب سے معیشت کی نام نہاد وسعت پذیری کا دعویٰ کیا جارہا تھا۔ تب سے صنعتی پیداوار کے عمل میںمکمل جمود طاری ہے جس کا اندازہ آپ اس امر سے لگاسکتے ہیں کہ مارچ 2001تک صنعتی سیکٹر میں40لاکھ ملازمتیںختم ہوچکی تھیں۔‘‘

ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ سرمایہ داری نظام اعداد و شمار میںہیرا پھیری ایسا دھندا ہے اور شعبدی بازی اور سٹہ بازی، کیسنو او رجوا ہے اس نصاب سے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ و وزیر املک سے بھاگے ہوئے شوکت عزیز اور دوسرے اشتہاری ملزم اسحاق ڈار ہیں اور ان دونوںکے استاد معلوم نہیںاس دنیا کے کس گوشے میں ہیں وہ سابق نگراں وزیراعظم معین قریشی ہیںجن کا پاکستانی پاسپورٹ ائیر پورٹ پر ہی بنا یہ ایک ایسی داستان ہے جس کا اگلا حصہ جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف سے جا ملتا ہے اور اس کے درمیان ان کے خواری نواز شریف ، الطاف حسین اور آصف علی زرداری رہے ہیں ان سب نے مل کر آج پاکستان قرضوں کے پھندے سے عوام کو لٹکادیا ہے۔

بات ہورہی تھی امریکا کی مذکورہ مختصراً واقعات کو اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ جب امریکا بدمست ہاتھی کی طرح اپنی سیاسی و معاشی چالیں چلتا رہا اور اب آکر اسے علم ہوا کہ وہ 800ارب ڈالر کا عالمی تجارت میں خسارے میںہے اس میں چین کے ساتھ تجارت میں500ارب ڈالر خسارہ ہے۔ (پاکستان کا تو ہر اشعاریہ خسارے میںہے) جس کی وجہ سے ٹرمپ نے مارچ کے آخری عشرے میںاپنے مشیروں کے ساتھ خصوصی بات چیت میںکہا کہ چین سے تجارت میںہمیں جو نقصان ہوا ہے اس کی وجہ سے 60ہزار فیکٹریاں بند ہوگئی ہیںاور 50لاکھ سے زائد ملازم ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

چنانچہ ٹرمپ نے اعلان کردیا کہ وہ آزاد تجارت کو خیر آباد کہتا ہے اور عالمی تجارتی تنظیم کے بارے میں کہا کہ اس تنظیم نے امریکا کو برباد کردیا ہے حالانکہ واشنگٹن اتفاق میں یہ طے کردیا تھا کہ دنیا کو آزاد تجارت اور عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں کے تحت چلایا جائے گا جس میں اولین ضابطے یہ تشریح کرتے یہں کہ تمام دنیا کو اپنی اپنی سرحدین (اوپن) کھولنی ہوںگی اور ٹیرف کسٹم ڈیوٹیز وغیر کو صفر تک لانا ہوگا تاکہ عالمی تجارت کو آزادنہ فضا میسر ہو اسے انہوںنے گلوبلائزیشن کا نام بھی دیا۔

اور ایسے ضابطے عالمی تجارتی تنظیم کے ذریعے نافذ کئے کہ لاطینی امریکا میںاحتجاج شروع ہوا اور انہوںنے آزاد تجارت کو قحط زدہ قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ پاکستان جیسا ملک جو قرضوں پر چل رہا ہے اسے کہا گیا کہ زر تلافی ختم کرو اور حکومتوںنے آہستہ آہستہ ختم بھی کی زر تلافی کیا ہے مثلاً اورنج ٹرین پنجاب میںچلائی گئی یہ دو سو ارب ڈالر قرضوں پر بنائی گئی اس کا کرایہ توڑ تک 90روپے ہے لیکن 30روپے رکھا تاکہ عام آدمی سفر کرسکے لیکن 60روپے زر تلافی رکھی گئی اور قرضوں پر بنی شے اگر منافع نہ دے تو قرض کیسے واپس ہوگا یہ اس قدر احمقانہ منصوبہ ہے جس کی ضارب اثرات پوری معیشت پر پڑے اب کسی کو کچھ پتا نہیںکہ قرضوںکی واپسی کیسی ہوگی اور سود کیسے ویا جائے گا۔

امریکا کے نقش قدم پر چلنے والے اب دیکھ لیںکہ امریکا نے جو عالمی تجارتی تنظیم کا گڑھا تیسری دنیا کے لیے کھودا تھا اب خود اس میں گر رہا ہے مثال کے طورپر امریکا کو یہ علم نہیں تھا کہ وہ ترقی پذیر ملکوںکو قرضوںمیںجکڑ لیں گے ان کے قدرتی وسائل ہڑپ کرلیں گے اور پھر مارگریٹ تھیچر نے 1980میں آزاد منڈی کو بھی متعارف کروا دیا جس میں یہ طے ہوا کہ تمام قومی بجٹ خسارے میں بنائے جائیں تاکہ بجٹ کا حجم وسیعے ہو خساروں کو قرصوں اور ٹیکسوں سے پورا کرکے معیشت وسیع کیا جائے ترقی یافتہ ملکوں کو ابتدا میں لوٹ مار میں بہت فائدہ ہوا۔

چین بھی عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں کی دستاویز پر دستخط کرچکا تھا امریکا کو علم نہیں تھا کہ امریکا سستی ترین اشیا اور مصنوعات بنا کر آہستہ آہستہ امریکی منڈیوںپر چھا رہا ہے دوسری جانب حیرت انگیز طورپر چین فولاد کی پیداوار میں اس قدر ترقی کرگیا کہ دنیا 50فیصد فولاد چین میں پیدا ہونا شروع ہوگیا۔

چین نے ٹیکسٹائل اور دیگر شعبوں میںبھی سستے اور میعاری اشیا بناکر امریکا کی منڈیوں میںبھیجنا شروع کردیا۔ عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں کے تحت سرحد کھلی رکھی پڑ رہی تھیںیا پھر عالمی تجارتی تنظیم کو ختم کرکے کوئی تماشا امریکا کرتا نہ کرسکا اس لیے کہ امریکا کا صارف ہو یا کسی اور ملک وہ معاشی حب الوطنی سے سرشار نہیں ہوتا اسے جہاںسے سستی اور بہتر شے ملے گی خریدے گا۔

اسی دوران امریکا میں آمدنیوںمیںبہت فرق سامنے ٓاگیا۔ ٹیکس چور بھی زیادہ ہوگئے ان کے لیے آف شور کمپنیاں امریکا ہی نے بنوائیں جب پسینہ امریکیوں کا گلاب تھا۔ ان کمپنیوںمیں دنیا بھر کے ٹیکس چور اور ہوس کے ماروں نے اپنی دولتیںاکھٹی کرکے دنیا بھر کے ملکوں میں سرمایہ کاری کی۔ ہوس کے ماروں نے امریکا میںبنکوںسے قرضے لے کر مکانات خریدنے شروع کئے یہ ایک طویل داستان ہے اور 2007-08میں عالمی مالیاتی بحران لپک کر آگیا یورپ اور امریکا اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران میںپھنس گیا اور پھر عوام کے ٹیکسوں کے ڈالروںسے بنکوںکو نجات دلائی سب سے بڑا پیکج 700ارب ڈالر کا تھا۔

ابھی تک یورو زون اور امریکا اس بحران سے نہیں نکل سکا اور اب تو 800ارب ڈالر کا عالمی تجارت میں خسارے کا شکار ہوگیا۔ اور خود ٹرمپ نے چین اور عالمی تجارتی تنظیم کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور امپورٹ پر بھاری ڈیوٹیز نافذ کردیں جو عالمی تجارتی تنظیم کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ حالانکہ امریکا، یورپین یونین اور جاپان اپنے کسانوں کو 370ارب ڈالر کی زر تلافی فراہم کرتےہیں عالمی تجارتی تنظیم نے دوحا کانفرنس میں ان ممالک کو کہا کہ وہ 2013تک مذکورہ زر تلافی کو ختم کریں2011میں انہوںنے وعدہپ کیا لیکن 2013میںانکاری ہوئے پھر ہندوستان، چین اور برازیل جی ؟؟؟؟

(ممالک) کا ایک گروپ بنایا تاکہ بڑے ممالک کو عالمی تجارتی تنظیم کے ضابوطں کا تابع بنایا جائے لیکن اس کے بعد عالمی تجارتی تنظیم کی کوئی کانفرنس نہ ہوئی علاوہ ازیں کسی بھی سامراجی ایمپائر کے انحطاط پذیر ہونے کی واضح نشانیوںمٰں سے ایک اہم نشانی اس کا اپنی حدود سے تجاوز کرنا ہے یعنی اپنی جغرافیائی، سیاسی، معاشی اور عسکری حدود سے ایسا تجاوز کرنا کہ اس ریاست کے حکام کا ان پر مکمل حکومتی کنٹرول و تلسط باقی نہ رہے (جیسے افغانستان سے نکلنا امریکا کے لیے دشوار ہے) اس حوالے سے معروف مصنف اور اسکالر فریڈلم لیڈے لکھتے ہیں کہ ’’سیاسی اور اہم مقاصد اور اہداف اور معاشی و مالیاتی حقائق کے مابین عدم توازن بھی ایک طرحسے اپنی حدود سے تجاوز کرنا ہی ہوتا ہے۔‘‘ رومن ایمپائر اور برطانیہ عظمیٰکی مثال ہمارے سامنے ہے کہ ان کے ارباب اختیار نے بھی اسی نوع کے تجاوزات کا ارتکاب کیا تھا جن کے نتیجے مکمل تباہی ان کا مقدر بن گئی اس بارے میں اب امریکا کو بھی سوچنا ہوگا؟‘‘ اب دیکھئے کہ دو سال پہلے دنیا کے زیرک دانشور فلسفی اور معیشت دان کارل مارکس نے آزاد تجارت کے بارے میں کیا کہا تھا۔

’’اگر آزاد تجارت کے حامی یہ نہیںسمجھ سکتے کہ کس طرحایک قوم کی قیمت پر دوسری قوم امیر ہوسکتی ہے تو ہمیں حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ لوگ یہ سمجھنے سے بھی انکار کرتے ہیں کہ ایک ہی ملک میںایک طبقہ دوسرے طبقے کی قیمت پر کسی طرحامیر ہوجاتا ہے۔‘‘

مذکورہ تناظر میں ٹرمپ نے 50ارب ڈالر کی جو ڈیوتیز چینی مال پر نافذ کی ہیں چین نے اس کے جواب میںکہا ہے۔ ’’ہم تجارتی جنگ سے خائف نہیں ہیںچین کے امپورٹ پر ٹرمپ نے جو ڈیوٹیز لگائی ہین ہم بھی 3ارب ڈالر کی رد عمل کے طورپر ڈیوٹیز امریکی مال پر نافذ کررہے ہیں۔‘‘ چین نے ہٹ لسٹ تشکیل دی ہے جس پر 25فیصد ڈیوٹیز نافذ کی جائیں گی۔ ان تازہ پھل، سور کا گوشت اور شراب قابل ذکر ہیں تجارتی جنگ میںخرابی کرنے والی سب سے غلیظ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے دانشی اثاثوں کی چوری کا الزام بھی لگایادیا۔

اس تجارتی جنگ کے بعد ڈائو جونز کا انڈسٹریل اوسط 700پوائنٹس سے گر گیا۔ امریکا کے کنزیومر اور بعض صنعت کاروںسے بھی ٹرمپ کی پالیسیوںپر کڑی نقطہ چینی کی ہے۔ جس ؟؟؟؟ ٹرمپ نے 50ارب ڈالر کی ڈیوٹیز کی دستاویز پر دستخط کئے اس نے یہ بھی کہا ابھی اور بھی دیواریں کھڑی کی جائیں گے۔ ادھر جینیوا میںعالمی تجارتی تنظیم کے سربراہ نے قبضہ کیا ہے۔ ’’بین الاقوامی تجارت میںاگر دیواریں کھڑی کی گئیں تو گلوبل اکانومی شدید خطرے سے دوچار ہوجائے گی۔‘‘

دنیا کساد بازاری سے ریکوری کی طرف جدوجہد کررہی ہے ایسے موقع پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو پھر سرمایہ داری کا یہ آخری بحران ہوگا اپنے بیان میںعالمی تجارتی تنظیم کے سربراہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے تمام ممبران نے کہا کہ موجودہ تنائو کو ہم ختم کریںگے۔ لیکن عالمی تجارتی تنظیم کے سربراہ نے کہا ہے کہ تجارتی جنگ کوئی بھی فاتح نہیںہوگا بلکہ اس سے نچلے درجے کے ضابطے اور تنظیم سامنے آجائے گی جو دنیا کی ترقی کو خزاں رسیدہ بنادی گی حالانکہ ترقی سوائے دو ملکوں کے جمود کا شکار ہے ایک چین ہے جس کی ایکسپورٹ 200ارب ڈالرسے فاضل ہے اور دوسرا ملک جرمنی ہے جس کی ایکسپورٹ 300ارب ڈالر سے فاضل ہے اور امریکہ 800ارب ڈالر کے خسارے مٰں ہے اس لیے ٹرمپ کی حالت ناگفتہ ہورہی ہے۔

ادھر فرانس میںبھی احتجاج شروع ہوگئے ہیں لوگ معاشی اصلاحات کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں سڑکوںپر ہیں۔ بیشتر شہروںمیںبھی زبردست احتجاج کیا ہے ریلوے کے ہزاروںمزدور اور دیگر ورکز سڑکوں پر ہیں اصل میںسوشلسٹ پارٹیوں نے کوئی متبادل نہیں دیا اور دنیا کو اس کو متبادل معاشی نظام کی ضرورت ہے۔