غریب کا درد رکھنے والےوقار مصطفیٰ !.....

April 07, 2018

سماجی شخصیت بننے یا سوشل ورکر بننے کے لیے آپ کے پاس لاکھوں کڑوں کے وسائل ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آپ کا دل غریب اور لاچار لوگوں کے لیے دھڑکنا چاہیے۔

آپ کا دل ظالم کے مقابلے میں مظلوم کے لیے دھڑکنا چاہیے اور آپ کے اندر اپنی حیثیت میں رہتے ہوئے لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے ، وقار مصطفیٰ بھی ان ہی معروف سماجی شخصیات میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنی بساط کے مطابق غریب اور لاچار لوگوں کی مدد کی ، ظالم کے مقابلے میں ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیا۔

سفید پوش ضرورت مندوں کو تلاش کرکے ان کی مدد کی اور کسی کو احساس بھی نہ ہونے دیا اور اپنی ان ہی عادات کے سبب معاشرے میں ایک مقام حاصل کیا وقار مصطفیٰ نے کبھی اپنے نام اور شہرت کے لیے فلاحی کام نہیں کئے بلکہ ان کا مقصد غریب اور لاچار لوگوں کی مدد ہی تھا۔

کراچی یونیورسٹی میں ملازمت کرتے ہوئے انھوں نے قرب و جوار کے غریب و لاچار لوگوں کی مدد کی اور علاقے کے غریب لوگوں کی دعائیں سمیٹیں ، اولادیں اپنے پیروں پر کھڑی ہوئیں تو خود ریٹائر ہوچکے تھے جس کے بعد اپنی پنشن غریب اور لاچار افراد کی مدد کے لیے وقف کردی ۔

درمیانی عمر میں ہی دل کا بائی پاس آپریشن ہوا ، لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری،عمر کے آخری حصے میں شوگر کے مرض نے بھی آگھیرا لیکن پھر بھی گھر بیٹھنے سے گریز کیا ، ایک مرتبہ پھر عمر کے آخری حصے میں ایک بار پھر دل کا آپریشن ہوا جو کامیاب رہا تاہم چند دن بعد ہی انھیں گردے میں درد کی شکایت ہوئی۔

درد کی شکایت پر فوری طور پر اسپتال کا رخ کیا لیکن راستے میں مذہبی جماعت کی جانب سے دھرنا جاری تھا وقار مصطفیٰ کی طبیعت مزید خراب ہوتی جارہی تھی جس کے بعد انھوں نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کردیا ، وقت تیزی سے گزر رہا تھا لیکن مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کا دھرنا مریض کو جگہ دینے کو تیار نہیں تھا ان کو اسپتال لے جانے والوں نے ہر طرح کے واسطے دیئے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور وقار مصطفیٰ جب اسپتال پہنچے تو زندگی ان سے روٹھ چکی تھی۔

وہ جہان فانی سے کوچ کرچکے تھے ،وقار مصطفیٰ کی آج دوسری برسی ہے ان کے چاہنے والے آج بھی انھیں یاد کرتے ہیں دعا ہے کہ اللہ تعالی وقار مصطفیٰ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، قارئین سے بھی دعا کی درخواست ہے ۔