اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

April 10, 2018

مملکت خداداد پاکستان کے عالم وجود میں آنے کے وقت بانی پاکستان جناب قائداعظم محمد علی جناح نے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں قوم کو بتا دیا تھا کہ پاکستان کی رابطے کی زبان اردو ہوگی لیکن کسی نے کان نہیں دھرا اور وہی غلامانہ انداز اپنائے رکھا انگریزی ان کی دفتری، کاروبار کی زبان بنی رہی ابھی حالیہ دنوں میں چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے عدالت عظمیٰ سے بہت وضاحت سے یہ حکم جاری کیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اسے فوری طور پر نافذ کیا جائے ۔حکام وقت نے ایک کان سےسنا اور دوسرے سے نکال دیا۔ ملک میں شائع ہونے والے اخبارات کی تعداد تو تقریباََ ساڑھے تین ہزار ہے اس میں صرف 28 یا 30 انگریزی میں شائع ہوتے ہیں تقریباََ چالیس اخبارات سندھی اور دیگر علاقائی زبانوں میں شائع ہوتے ہیں ایک بڑی تعداد اردو میں شائع ہوتی ہے لیکن تمام متعلقہ ادارے جس میں مدیران و مالکان کی تنظیمیں اور اشتہاری ایجنسیوں کی تمام تر خط و کتاب انگریزی میں ہی ہو رہی ہے اس کے علاوہ برقی ذرائع ابلاغ میں تقریباََ ستر یا اسی چینلز ہیں جو کچھ علاقائی زبانوں میں ہیں انگریزی کا ایک بھی لفظ نہیں ہے باقی سب کے سب اردو زبان استعمال کر رہے ہیں لیکن ان کے اینکر اور دیگر پروگراموں کے ذمہ داران جو غالباً انگلش اسکولوں سے نکلے ہوئے ہیں اور انگریزی بولتے سنائی دیتے ہیں اردو غالباََ چھوت زدہ ہے جسے توڑ مروڑ کر بولنا فیشن بن گیا ہے اپنی قومی زبان کی بے توقیری کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔
کافی عرصہ ہوا کہ میں نے ٹیلی وژن دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ بیس روز ملک سے باہر رہنے کے بعد گھر پہنچا تو سوچا دیکھیں کیا خبریں ہیں لیکن ٹی وی کھولتے ہی جو جملے کانوںمیں پڑے اس نے طبیعت مکدر کردی ایسی زبان استعمال کی جا رہی تھی جو نہ اردو تھی نہ انگریزی تھی جانے کیا ملغوبہ بولی جا رہی تھی یہاں میں صرف ایک جملہ لکھوں گا ’’آئی نو تسی کی سمجھ رے ہو بابا جی میں تو سیدھا سادا بندہ ہوں بٹ یو ڈونٹ نو کے ہو ایم آئی۔‘‘ جانے یہ کون سی زبان ہے کم از کم میری ناقص عقل اسے اردو یا اردو معلی ماننے کو تیار نہیں گزشتہ دنوں جناب الطاف حسن قریشی جو یقیناََ بڑے دانشور اور موقر صاحب علم ہیں نے بھی یہی شکوہ اپنے کالم میں کیا ہے جانے کیوں مجھے اس لمحے معارف شاعر اہل قلم دانش ور ادیب جناب رئیس امروہوی یاد آگئے۔ لیاقت آباد میں حکمران وقت میر غلام رسول تالپور کے دور حکمرانی میں حکمرانوں نے درجن بھر سے زیادہ اردو بولنے والوں کو لقمہ اجل بنایا تھا تب جناب رئیس امروہوی نے رد عمل کے طور پر ایک طویل نظم سپرد قلم کی جس کا ایک مصرعہ ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ جسے اس روز موقر ترین اخبار روزنامہ جنگ نے اپنے صفحہ اول پر حاشیہ کے طور پر لگایا آج جی چاہتا ہے کہ اس نظم کو جناب رئیس امروہوی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے نذر قارئین کردوں۔
کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
کیوں نالۂ حسرت دل مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدۂ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لب محروم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کا غم مرگ سبک بھی ہے گراں بھی
ہے شامل ارباب عزا شاہ جہاں بھی
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی
یہ میت غم قلعہ مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اے تاج محل نقش بدیوار ہو غم سے
اے قلعۂ شاہی یہ الم پوچھ نہ ہم سے
اے ارض وطن فائدہ کیا شرح ستم سے
تحریک یہ مصر و عرب و روم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
سایہ تو ہوا اردو کے جنازے پہ ولی کا
ہوں میر تقی ساتھ تو ہمراہ ہوں سودا
دفنائیں اسے مصحفی و ناسخ و انشاء
یہ فال ہر اک دفتر منظوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
بد ذوقی احباب سے گو ذوق ہیں رنجور
اردوئے معلی کے نہ ماتم سے رہیں دور
تلقین سر قبر پڑھیں مومن مغفور
فریاد دل غالب مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ہیں مرثیہ خواں قوم میں اردو کے بہت کم
کہہ دو کہ انیس اس کا لکھیں مرثیہ غم
جنت سے دبیر آکے پڑھیں نوحہ ماتم
یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کردے
پہلے کوئی سر سید اعظم کو خبر دے
وہ مرد خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے
وہ روح جو موجود نہ معدوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کے جنازے کی یہ سچ دھج ہو نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی
آزاد و نذیر و شرر و شبلی و حالی
فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ڈوبے ہوئے اسرار خودی میں نہ نظر آئیں
اقبال بھی فردوس معلیٰ سے اتر آئیں
اردو کی یہ میت ہے یہ ماتم ہے ادھر آئیں
شکوہ نہ لب شاعر معصوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ہیں بس کہ بہت تنگ دل و تنگ نظر ہم
للہ بتا دیجیے اے قائد اعظم
اردو کو کہاں دفن کرے ملت پُرغم
جب روح حزیں اس تن مسموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اب فاش ہوئی سب پہ بد اقبالئ اردو
اردو میں نہ ہو شرح زبوں حالئ اردو
سندھی میں لکھو نوحۂ پامالی اردو
اور مدح نہ الفاظ نہ مفہوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
خطرہ ہے کہ جہاں کوئی ظلم نہ ڈھائیں
خدام وطن شان تغافل نہ دکھائیں
اس خاک سے یوں لاشۂ اردو کو اٹھائیں
جس طرح کہ بلبل قفس بوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
افسوس… افسوس ہم اپنی مادری یا قومی زبان کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں مجھے یاد ہے جب چواین لائی آئے تھے تو انہوں نے ساری گفتگو اپنی زبان میں کی جس کا ترجمہ کرنے کے لیے ترجمان موجود رہتا تھا آج اگر جنرل اسمبلی میں حکمران جاتے ہیں تو ان کی ہی زبان بولتے ہیں اپنی زبان بولنے میں شاید شرم آتی ہے اللہ ہمیں عقل سلیم دے اور ہماری ہمارے وطن وعزیز کی ہر طرح سے حفاظت فرمائے، آمین۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)