ن لیگ کو متحد رکھنا شہباز شریف کیلئے بڑا چیلنج

April 12, 2018

مقصود بٹ

وطن عزیز کی سیاسی صورتحال نہ صرف ’’کنفیوژن‘‘ کاشکار ہے بلکہ کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ سیاسی اور عدالتی تاریخ کے تناظر میں کئی خدشات ابھرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ جیسے ایک بار پھر’’نادیدہ قوتوں‘‘ کو منظر بدلنے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے؟ بلوچستان میں صوبائی حکومت کی تبدیلی سے لے کر سینیٹ کے انتخابات کے نتائج تک ایک حیران کن کیفیت ’’سیاسی موسم‘‘ کو گھیرے ہوئے ہے۔ ان حالات میں بیشتر سیاسی رہنمائوں کی طرف سے ’’متضاد فضا‘‘ پر مبنی باتیں سننے میں آرہی ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ ماضی کی سیاسی تاریخ کے ’’گمنام کرداروں‘‘ پر اگر غور کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ ایک بار پھر’’مقتدر حلقوں‘‘ کی اشیرباد سے نئے سیاسی کردار پیدا کئے جارہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس ملک کی ہمیشہ سے بدقسمتی رہی ہے کہ جمہوری قوتیں کئی بار طالع آزما ہاتھوں کی گرفت میں جکڑی گئی ہیں اور بیشتر دفعہ ان لوگوں کو عہدوں سے نوازا گیا ہے جن کا کبھی بھی کوئی قابل ذکر ماضی نہ رہا ہو۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو یا چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی صرف نئے چہروں کی صورت میں نمودار نہیں ہوئے بلکہ اس سے قبل بھی وزیر اعظم تک کے عہدوں پر معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے’’ دوہری شہریت‘‘ رکھنے والے شناخت سے محروم لوگوں کو بٹھایا گیا ہے۔ جمہوریت کی آواز بننے والے وہ سیاستدان جو کبھی ماضی میں خود’’طاقتور قوتوں‘‘ کی وجہ سے سیاست کے میدان میں آئے تھے وہ بھی ’’سیاسی پہلوان‘‘ بننے کے بعد اس بات پر شور مچاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ آخر کب تک یہ’’کھیل تماشا‘‘ جاری رہے گا اور کب تک اکثریت کو ’’روایاتی ہتھکنڈوں‘‘ سے اقلیت میں تبدیل کرنے کا عمل ہوتا رہے گا، حالانکہ وہ خود اچھی طرح سیاسی تاریخ سے بھی آشنائی رکھتے ہیں اور ان عدالتی فیصلوں سے بھی واقف ہیں جو مولوی تمیزالدین خان سے لے کر نصرت بھٹو کیس تک کے حوالہ سے تاریخ میں محفوظ ہیں۔ حکومتی پارٹی کی قیادت کے حوالہ سے کئی کہانیاں گردش کررہی ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی دختر مریم نواز ابھی تک تحریک عدل اور ووٹ کے تقدس کے’’بیانیے‘‘ پر قائم دکھائی دے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے اپنے نظریاتی ہونے کا اعلان کرکے پارٹی کے رہنمائوں اور اتحادیوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ پرکٹھن راستوں کے لئے خود کو تیار کئے بیٹھے ہیں۔ وہ آنے والے مرحلوں میں جہاں بھی ہوں گے وہاں سے اپنے موقف کے حوالہ سے عوام کو آگاہ کرتے رہیں گے۔ ان کی طرف سے ’’جارحانہ بیانیے‘‘ کے ساتھ ساتھ اداروں کے درمیان استحکام اور کوآرڈینیشن کے سلسلہ میں بھی احسن جذبات کا اظہار سامنے آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور چیف جسٹس پاکستان کے درمیان ہونے والی ملاقات کو اسی سلسلے میں پارٹی کے بعض لوگ کڑی قرار دے رہے ہیں جبکہ وزیر اعظم عباسی نے اپوزیشن کی کڑی تنقید کے باوجود اس بات کا واشگاف اعتراف کیا ہے کہ وہ پاکستان کے’’فریادی‘‘ ہیں اور اگر دوبارہ بھی ملکی مفاد میں ملاقات کی ضرورت محسوس کی گئی تو گریز نہیں کیا جائے گا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے بھی ’’بین الاداراتی مذاکرات‘‘ کے حوالہ سے زور دیا تھا کہ جب تک اداروں کے درمیان اعتماد اور اعتبار کی فضا کو قائم کرنے میں سیاستدان ، عدلیہ اور مقتدر ادارے ایک سوچ پر متفق نہ ہوں گے اس وقت تک قومی انتشار اور افراتفری ختم نہ ہوسکے گی۔ مسلم لیگ(ن) کے نئے بننے والے صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی اس معاملہ پر واشگاف انداز میں اعتراف کیا ہے کہ جب تک قومی ادارے یکسوئی کے مقام پر نہیں آئیں گے سنگین معاملات کے حل کے سلسلے میں تشنگی برقرار رہے گی۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں اس کا بار بار اعادہ کیا ہے کہ اداروں میں تنائو کو مفاہمت میں بدلنے کی ضرورت ہے اور عدلیہ فوج اور پارلیمان کو ایک’’نئے سوشل کنٹریکٹ‘‘ کے تحت کام کرنا ہوگا۔


صوبائی دارالحکومت میں بھی سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے آٹھ حکومتی ارکان اسمبلی نے ’’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ ‘‘ قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے استعفے دے دیئے ہیں جس سے مسلم لیگ (ن) کو ایک جھٹکا لگا ہے، تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب نے جنوبی پنجاب کے دس اضلاع کے ارکان اسمبلی سے ملاقات کرکے وہاں پر ہونے والے ترقیاتی منصوبوں اور ان کے مطالبہ پر تحفظات کو دور کرنے یقین دہانی کرائی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں آزاد منتخب ہونے کے بعد حکومتی جماعت میں شامل ہونے والے’’موسمی سیاستدان‘‘ سینیٹ کے انتخابات کے بعد مفادات کی سیاست کی خاطر پارٹی بدلنے کے موڈ میں ہیں اور ’’طاقتور حلقوں ‘‘ کے اشاروں کے منتظر ہیں۔مذکورہ ارکان اسمبلی کے الیکشن سے قبل وفاداریاں تبدیل کرنے کا معاملہ کئی گوشوں کی’’ نشاندہی‘‘ کررہا ہے؟۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان اس بات پر ریس لگی ہوئی ہے کہ کون حکومت سازی کے معاملات طے کرنے میں’’ سبقت ‘‘لیتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے جوابی حکمت عملی کے طور پر میاں حمزہ شہباز شریف اور پارٹی کے دیگر عہدیداروں کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ تحفظات رکھنے والے پارٹی کے ناراض ارکان کو ہر حال میں راضی کریں۔ میاں شہباز شریف ایک طرف اداروں کے درمیان مفاہمت پر زور دے رہے ہیں اور دوسری طرف یہ واضح کررہے ہیں کہ آصف زرداری اور عمران نیازی دونوں ایک ہیں اور صرف ’’ظاہری دکھاوے‘‘ میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے ہیں حالانکہ سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر ان کے عملی مظاہرے نے ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی بھی وقت مسلم لیگ(ن) اور شریف برادران کی دشمنی میں ایک پلیٹ فارم پر دیگر پارٹیوں سے مل کر اتحاد قائم کرسکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے تو عمران خان کے بار بار کے الزامات کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔ ان کا واضح موقف ہے کہ عمران نیازی نے جھوٹ بولنے پر عالمی ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صوبے میں ترقیاتی منصوبوں ،فلاحی اور خدمت خلق کے کاموں سے لے کر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں انقلابی تبدیلیوں کے ’’بیانیے‘‘ سے وہ انتخابات میں اترنا چاہتے ہیں۔ پارٹی کی بحرانی صورتحال کے تناظر میں وہ پارٹی کے اتحاد پر بھی زور دے رہے ہیں اور پارٹی کے اندر ایک دوسرے سے اختلاف کرنے والوں کو بھی خبردار کررہے ہیں کہ ان کا آپس میں نفاق پارٹی کو نقصان دے سکتا ہے۔ سیاسی صورتحال پرنظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کے دو مختلف ’’بیانیوں‘‘ کے درمیان پارٹی کو عوامی مقبولیت کی سطح پر رکھنا ہی ان حالات میں میاں شہباز شریف کے لئے ایک چیلنج ہے۔ آنے والے حالات میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر وہ کیسے مقابلہ کرتے ہیں کیونکہ اس سے بڑا اور کوئی ان کے لئے امتحان نہ ہے۔