مسلم لیگ ن کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کامیاب؟

April 12, 2018

پرویز شوکت

ملک میں غریب عوام کی مشکلات اور مسائل کے انبار ہیں۔ غربت عروج پر ہے غریب غربت کی لکیر سے بہت نیچے چلا گیا ہے اور ایک طبقہ امارت کے انتہا درجے پر پہنچ گیا ہے جن لوگوں نے ناجائز دولت کمائی ہوئی ہے ان پر مہنگائی کا ذرہ بھر اثر نہیں ہوتا۔ ایک طبقہ مڈل کلاس کا ہے جو بہت ہی مظلوم ہے جو اپنے بچوں کو دو وقت روٹی دینے سے قاصر ہے۔ موجودہ حکومت ایک طرف لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی دعویدار ہے مگر ابھی گرمی کا آغاز ہی ہوا ہے تو ملک کے بیشتر شہروں میں لوڈشیڈنگ کئی کئی گھنٹے جاری ہے اور حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کے برعکس واپڈا والوں کو ہدایت دیتی ہے کہ لوڈشیڈنگ رمضان میں نہ کی جائے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ نواز شریف دور میں بجلی کی پیداوار کے کچھ منصوبے ضرور ہوئے ہیں مگر بجلی کا شارٹ فال ابھی کم نہیں ہوا۔ انجینئر۔ ڈاکٹرز ایم ایس سی۔ ایم اے۔ ایم بی اے کی ڈگریاں لئے ہوئے نوجوان نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار کرپشن اور دیگر اہم کیسوں کی سماعت کے ساتھ ساتھ دن رات مختلف اداروں کے دورے کر کے عوام کی شکایات کا ازالہ کر کے انہیں ریلیف دے رہے ہیں جب حکمران عوامی مسائل پر توجہ نہیں دیں گے تو پھر عدلیہ کو تو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ چیف چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس طرز عمل پر حکمران جماعتوں سمیت بعض لوگوں کو اعتراض ہے مگر وہ اس کی پرواہ کئے بغیر عام لوگوں کے صحت و تعلیم اورانصاف کی فراہمی کے مسائل حل کرنے کی حتی المقدور کوششیں کر رہے ہیں بڑی تعداد میں عام لوگوں کو سپریم کورٹ سے ریلیف بھی ملا ہے جس میں کراچی سمیت ملک کے بعض علاقوں میں گندہ پانی پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے علاوہ سرکاری فیسوں کے واگذار کرانے ، کراچی میں سماجی اداروں کی زمینوں پر قبضہ کرکے شادی ہال بنانے والوں کے خلاف کارروائی شامل ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ چیف جسٹس چھٹی کے دنوں میں بھی عدالت لگا کر ملکی عوامی مفاد کے کیسز سن رہے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کو عوامی سطح پر زبردست پذیرائی مل رہی ہے عوام چاہتے ہیں یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیئے کوئی تو ہو جو ان کے دکھوں کا مداوا کر سکے۔ ملک کے سیاسی افق پر آئندہ چند ہفتے بہت اہم ہیں بہت سی اہم تبدیلیاں ہونے والی ہیں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نیب عدالت میں مقدمات حتمی مراحل میں ہیں اور نیب عدالت میاں نواز شریف مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے خود میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے دیگر لیڈران کوبھی یہی توقعات ہیں کہ میاں نواز شریف کو سزا ہو سکتی ہے میاں نواز شریف جب سے پانامہ کیس شروع ہوا ہے اعلیٰ عدلیہ ججوں اور فوج کے خلاف انتہائی سخت رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اوران کے معاونین کھلم کھلا عدلیہ پر تنقید کرتے اور اپنے خلاف فیصلوں کو سازش قرار دیتے ہیں سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کا کیس چلا کر انہیں سخت سزا دے کر مسلم لیگ ن کے دیگر وزرا کو خاموش کردیا ہے ابھی وفاقی وزرا دنیال عزیز اور طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کے کیسز زیر سماعت ہیں جبکہ لاہور ہائیکورٹ میں نواز شریف مریم نواز کی عدلیہ کے خلاف تقریر پر رٹ دائر ہو چکی ہے جسٹس مظاہر اکبرنقوی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل پا چکا ہے اگرچہ یہ بینچ دو مرتبہ ٹوٹ چکا ہے دو ججوں نے سماعت سے معذرت کر لی ہے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے تیسری مرتبہ بینچ تشکیل دیا ہے آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن والوں کے لئے مشکلات ہی مشکلات ہیں مسلم لیگ ن کے بڑی تعداد میں ارکان پارلیمنٹ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی میں جانا شروع ہو گئے ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں سابق وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان بھی اپنی پارٹی کو خیر باد کہہ جائیں گے ؟ اور ان کی اپنے مزید اراکین اسمبلی ساتھیوں سمیت پی ٹی آئی میں شمولیت کا قوی امکان ہے اس سلسلے میں جلد ہی عمران خان چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کریں گے اور چوہدری نثار علی پارٹی چھوڑنے کا اعلان ایک جلسے میں کر سکتے ہیں چند روز قبل مسلم لیگ ن کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے چوہدری نثار علی خان سے طویل ملاقات کی اور انہیں راضی کرنے کی کوشش کی مگر چوہدری نثار سینیٹر پرویز رشید اور میاں نواز شریف کے دیگر قریبی رفقا کے ان کے خلاف بیانات سے خاصے برہم تھے اگرچہ میاں شہباز شریف نے انہیں میاں نواز شریف سے ملاقات کرانے کی یقین دہانی کرائی مگر کافی دن گزرنے کے باوجود ایسا نہ ہو سکا ، میاں نواز شریف چوہدری نثار علی خان سے پانامہ کیس میں جے آئی ٹی بننے کے بعد سے ناراض ہیں۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ اگر نثار دلچسپی لیتے تو جے آئی ٹی بننے ہی نہ دیتے یا پسند کے لوگ رکھتے تاکہ انہیں کوئی ریلیف ملتا جبکہ چوہدری نثار علی خان کو شکوہ ہے کہ میاں نواز شریف نے انہیں فوج اور عدلیہ کے خلاف بیان دینے سے روکا تھا اگر وہ میری بات مان لیتے تو آج ان کا یہ حال نہ ہوتا بہر حال مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ دوسرے باقی لوگوں کی طرح جنوبی پنجاب سے بھی ن لیگ کے پرندوں نے اڑان بھرلی ہے لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا شیرازہ بھکیرنے کی کوششیں کامیاب ہورہی ہے ۔ بہر حال مسلم لیگ ن کی کئی اور وکٹیں بھی گرنے والی ہیں۔ نواز شریف حکومت میں مسلم لیگی ارکان مزے بھی لوٹتے رہے اور آج جب وہ مشکل میں ہیں انہیں میاں نواز شریف اور ان کی حکومت کی خامیاں بھی یاد آنے اور ستانے لگی ہیں۔ بہر حال ہماری سیاست کا یہ دستور ہے جب مسلم لیگ ق کی حکومت تھی تو یہی ارکان اسمبلی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے اور اس کا دم بھرتے تھے اور جونہی انہیں نظر آنے لگا کہ اب مسلم لیگ ق حکومت میں نہیں آسکتی یہ لوگ مسلم لیگ ن میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ ایسے لوگوں کا دھرم اقتدار ہے نظریات نہیں اب یہی لوگ مسلم لیگ ن چھوڑ کر تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی میں شامل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان جن لوگوں کو کرپٹ اور چور کہتے تھے انہیں لوگوں کو وہ اب تحریک انصاف میں لے رہے ہیں جس طرح عمران خان نے سینیٹ میں پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا اور ان کا ڈپٹی چیئرمین منتخب کرا دیا اسی طرح آئندہ انتخابات کے بعد بھی وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہونگے کیونکہ تنہا کوئی بھی پارٹی حکومت بنانے کے قابل نہیں ہو گی عمران خان صاحب نے کرپشن کے خلاف جو بیڑا اٹھایا تھا وہ مشکوک ہوتا جا رہا ہے خیبرپختونخوا میں ان کے کئی وزیر کرپشن میں ملوث رہے ہیں ۔ کیا مسلم لیگ ن کا کرپٹ ایم این اے اگر تحریک انصاف میں شامل ہو جاتا ہے تو ڈرائی کلینز ہو کر پاک صاف ہو جاتا ہے۔ بہرحال جب یہ لوگ دیکھیں گے کہ عمران خان اقتدار میں نہیں آرہے ہیں تو وہ تحریک انصاف کوبھی خدا حافظ کہہ دیں گے ایسے لوگوں کے لئے کوئی مشکل نہیں۔ نئے لوگ ٹکٹوں کا حصول بھی چاہتے ہیں آئندہ انتخابات کے لئے ہر حلقے میں ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی عمران خان صاحب کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔