سر رہ گزر

April 14, 2018

بعض لوگ؟
آرمی چیف نے کہا ہے:کچھ لوگ باہر اور اندر سے ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں فاٹا میں امن قائم ہوا بعض لوگوں نے تحریک شروع کر دی، دہشت گرد باہر پھینک دیئے، پاکستان کے دشمن کبھی کامیاب نہیں ہوں گے، باہر سے تو پاکستان کے دشمن سمجھ میں آتے مگر یہ بعض اندر کے لوگ کون ہیں جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، یہ اشارہ تو نہایت بلیغ ہے سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہئے اور ایسے لوگوں کو جو اندر سے پاکستان کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے کیونکہ اسے پاکستان کے سپہ سالار نے واضح لفظوں میں رقم کر دیا ہے اندرون ملک بعض ملک دشمن لوگ باز آ جائیں، یہ الفاظ آرمی چیف کے ہیں اور وہ اور کچھ نہیں چاہتے سوائے ملکی سالمیت کے، اس لئے ان کے راستے میں اگر ’’بعض لوگ‘‘ روڑے اٹکائیں گے تو منفی کر دیئے جائیں گے کہ ایسا کرنا ناگزیر ہے، افواج پاکستان نے بیشمار قربانیاں دے کر باہر والوں کو تو یہاں سے باہر پھینک دیا ہے، اندر والے مہم جو طالع آزما کا پتہ صاف کرنا کونسا مشکل ہے، اگر آرمی چیف نے اندر کے کچھ لوگوں سے ملکی سالمیت کو خطرہ محسوس کیا ہے تو ایک تشویشناک امر ہے جس کا نوٹس پاک فوج کے شانہ بشانہ پوری قوم انتہائی انداز میں لے گی، کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں، اس وقت وطن عزیز طرح طرح کے خطرات سے دوچار ہے، اور یہ خطرے دوچار نہیں بیشمار ہیں، کچھ ہمارے پیدا کردہ اور کچھ باہر والوں نے اندر والوں سے مل کر پیدا کررکھے ہیں، اس لئے سپہ سالار پاکستان کی بات کو سنجیدگی سے سمجھنے اور اس کا مداوا کرنے کی ضرورت ہے، بھارت کو تو یقین آ گیا ہے کہ وہ پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا کوششبتیہری کی ہے، اب وہ ہمارے اندر ایسے عناصر ڈھونڈ رہا ہے اور وہ اسے مل بھی گئے ہیں جو باہر کے دشمنوں کے لئے راہ ہموار کریں، اس لئے ہر محب وطن پاکستانی فوج کے ساتھ کھڑا ہے وہ بے دریغ اندر کے بعض ملک دشمن مہم چلانے والوں کا بھی صفایا کر دیں انہیں بھی اپنے باہر کے دوستوں کے ڈھیر پر پھینک دیں۔
٭٭٭٭
ایکشن خبریں
پاکستان میڈیا اگرچہ ذمہ دار ہے، لیکن اس کے باوجود اب تو بھول چوک کی بھی گنجائش نہیں، ضروری نہیں کہ ہر خبر جو نہایت خبرناک خبر ہو اسے عام بھی کیا جائے، آج کے منظر میں جن خبروں کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ان سے گریز کیا جائے، جیسے انسان کے دل میں کہنے کو تو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن وہ دل کو ایڈیٹر نہ بنائے اور ہر بات ایڈٹ کئے بغیر کہہ دے تو پھر ملک بھر میں دھڑکنیں تیز ہوں گی، بلڈ پریشر ہائی ہو گا اور نقصان اس ملک کا ہو گا جسے ہم نے اپنے لئے دارالامان بنایا، اور جس کے لئے آغاز سے لے کر اب تک خون کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، بعض چینلز پر کچھ ایسے اینکرز اس طرح دھڑلے سے خطرناک باتیں اچھالتے ہیں جن کے پس پردہ چہرے اس طرح بھی بے نقاب ہو چکے ہیں کہ انہوں نے سمجھا شاید کیمرے بند ہیں، ایسے صحافی، صحافیوں میں اکا دکا موجود ہیں، جو شاید ان کی قبیل سے تعلق ہی نہیں رکھتے، یہ کٹی پتنگیں کبھی اس آنگن کبھی اس آنگن میں گرتی ہیں، ہم بلا کم و کاست کہہ سکتے ہیں کہ ایک سب سے بڑا میڈیا ہائوس نہایت محتاط انداز میں خبر دیتا ہے اور خلفشار پیدا کرنے والی خبروں سے گریز کرتا ہے، ایک ٹرینڈ تجزیوں میں مزاحیہ تجزیوں کا چل نکلا ہے، یہ ملکی سیاست کی ہتک ہے، تجزیہ ایک سنجیدہ صنف نشریات ہے اسے تجزیہ ہی رہنے دیا جائے، اور خبروں میں سنسنی پیدا کرنے کا تکلف پورے خبرنامے کو ایکشن سے بھرپور فلم بنا دیتا ہے، اگر کوئی شخص کسی کے قلوں کے موقع پر اچانک قہقہے لگانا شروع کر دے اور کسی کی شادی میں ماتم شروع کر دے تو کیا یہ مناسب ہو گا؟ اس لئے موقع محل دیکھ کر خبر کا انداز متعین کرنا چاہئے، اب سارے تو عمران خان بننے کی کوشش نہ کریں، سیاست، شرافت ہے اور سیاسی خبریں باخبر رکھنے کا وسیلہ، اسے بے محل ہنسانے رلانے کا ٹول نہیں بنانا چاہئے، ایک چینل جو اوچھے پن سے گریزاں ہے اسے کیبل پر بند کر دیا گیا ہے، یہ کونسا نشریاتی انصاف ہے، الیکٹرانک میڈیا پر جو صحافت بکھیری جا رہی ہے، اس سے چمن بکھر نہ جائے، اس لئے میڈیا محتاط رہے۔
٭٭٭٭
اُردو ہنوز منت پذیر شانہ ہے
ہم بھی کیا قوم ہیں، کہ قومی زبان اُردو کو مقتدر نہ بنا سکے اُردو ادب کو اور اس سے مخلص ادیبوں، شاعروں، انشاء پردازوں، کالم نگاروں کی کیا قدر و قیمت پہچانیں گے ہم گئے لوگوں کی کیا بات کریں گے، جو ہمارے درمیان موجود ہیں ان کو جانتے ہیں نہ مانتے ہیں، پوری قوم نیم سیاستدانوں کی ہفوات میں کھوئی ہوئی ہے، اور وہی اقبال کا شکوہ ہمیں بھی کہ
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
اگرچہ انہوں نے یہ پنجابی مسلمان بارے کہا تھا لیکن آج یہ چاروں صوبوں پر منطبق ہوتا ہے، اردو شعر و ادب کی کشت اب بھی آباد ہے، اور اس میں ایسے پودے اُگ رہے ہیں جو پہلوں کے کھیت میں موجود نہ تھے، ان کے پھل پھول یکسر جداگانہ اور خوشبو دلبرانہ ہے، نئے شاعروں ادیبوں میں ایسے جوہر قابل موجود ہیں کہ سائر سدرہ کو شکار کرتے ہیں، ان میں جواں سال زن و مرد شامل ہیں، مگر ہم جو عمر رسیدگی اور سفید بالوں سے شباب ادب کشید کرنے کے عادی ہیں اس تازہ رگ تاک سے مئے دوشینہ سے ایک قطرہ بھی کشید نہ کر سکے اگر حوصلہ افزائی کرتے تو یہ ہمیں وہ کچھ دیتے جو ہمارے اسٹاک میں موجود ہی نہیں شعر و ادب کے لوگ آبگینے ہوتے ہیں، چند پرانے، کہنہ مشق استاذان فن بھی موجود ہیں مگر ہم جانتے ہوئے بھی انہیں نہیں جانتے، ہم یہاں کئی نام لے سکتے ہیں، مگر چاہتے ہیں کہ انہیں متلاشیان اُردو ادب کھوج نکالیں کیونکہ قدر تب آتی ہے گہرے کی جب بار بار اس قلزم میں غوطہ زنی کی جائے، ہماری خواہش ہے کہ کوئی آنگن کوئی آستان ایسا ہو جہاں بڑی عمر کے بڑے اور چھوٹی عمر کے بڑے یکجا ہوں اور کچھ نہیں تو آپس میں یہ تو کہہ سکیں
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو کہے کہ ہائے گل میں کہوں کہ ہائے دل
ایسا کوئی چنبہ کوئی تو بنائے یا ہم سے رابطہ ہی کرے، انتظار رہے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)