سینیٹ انتخابات کی ساکھ متاثر نظر آتی ہے ،سوال بھی اٹھیں گے ، رحیم یوسفزئی

April 20, 2018

کراچی (ٹی وی رپورٹ) مارننگ شو ”جیو پاکستان “ کا آغاز عمران خان کے ایک اچھے اقدام سے کیا گیا جس میں انہوں نے اپنے پارٹی کے 20 لوگوں کے ووٹ بیچنے کی پاداش میں نام ظاہر کرتے ہوئے ان کو شوکاز جاری کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے ۔ دونوں میزبانوں عبداللہ سلطان اور ہما امیر شاہ نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سینٹ میں ووٹ بیچنے والوں کے نام سامنے لے کر آگئے ہیں جو یقینی طور پر ایک قابل تعریف اقدام ہے اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی سیاست میں قابل تقلید مثال ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے تو بیجا نہ ہوگا ۔ کے پی کے کے 60میں سے 20 ارکان ایسے سامنے آئے جنہوں نے اپنے ووٹ بیچے اور ایسے لوگ سینٹ میں کامیاب ہوئے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ اس پر گفتگو کرتے ہوئےسینئرتجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہسینٹ انتخابات کی ساکھ متاثر نظر آتی ہے اور اس پر یقینی طور پر سوال بھی اٹھیں گے عمران خان کا یہ فیصلہ جمہوریت کے لئے اچھی خبر ہے اس سے سیاسی جماعتیں کمزور نہیں ہوں گی بلکہ مضبوط ہوں گی ، احتساب ہونا چاہئے ہر کسی کا احتساب ہونا چاہئے چاہے وہ کسی بھی عہدے پر ہو ۔کراچی میں بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ پر رپورٹ پیش کی گئی ، پنجاب میں نیب کی کارروائیوں پر بھی جیو پاکستان میں گفتگو کی گئی اور بتایا گیا کہ خواجہ سعد رفیق سمیت کئی بڑے زیر تفتیش ہیں ،پاکستان فلم انڈسٹری کے لیجنڈری اداکار محمد علی کے یوم پیدائش پر اور گلوکار بشیر احمد کو ان کی چوتھی برسی پر جیو پاکستان کی جانب سے ٹریبیوٹ پیش کیا گیا جبکہ کامیڈی کنگ عمر شریف کو ان کی 62ویں سالگرہ پر جیو پاکستان کی جانب سے ٹریبیوٹ پیش کیا گیا۔رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ الیکشن قریب ہیں ایسے میں یہ مثال یقینی طور پر ووٹرز کو متاثر کرے گی ۔ ہوسکتا ہے کہ پارٹی کو معمولی سا نقصان بھی ہو لیکن فائدہ کے چانسز زیادہ ہیں کیونکہ عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ انہیں کس کو الیکشن میں منتخب کرنا ہے ان کو جو ووٹ بیچ رہے ہیں یا ان کو جو ووٹ بیچنے والوں کو نکال رہے ہیں ۔ اس سوال کہ سینیٹ انتخابات میں ووٹ کی خریدو وفروخت ثابت ہوگئی ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا اس سے سینٹ انتخابات سوالیہ نشان نہیں بن جاتے جس کے جواب میں رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا اگر چاروں صوبوں میں یہ ہوا ہے تو پھر سینٹ انتخابات کی ساکھ متاثر نظر آتی ہے اور اس پر یقینی طور پر سوال بھی اٹھیں گے لہٰذا اس مسئلے پر حکومت اور اداروں کو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور کیا یہ ممکن ہے کہ پورے سینٹ انتخابات کو ختم کرکے پھر سے کروائیں شاید یہ ممکن نہ ہوگا لیکن یہ کرسکتے ہیں کہ جن پارٹیوں کی سیٹیں کم تھیں اور ان کے سینٹر منتخب ہوئے تو اس کے خلاف کوئی کارروائی اگر ممکن ہے تو ہونی چاہئے ۔واشنگ مشین جسے بجلی کی ضرورت نہیں ، افریقہ کے شہر بونڈی میں بجلی عدم فراہمی پر کپڑے کیسے دھوئے جائیں اس کا حل نکال لیا گیا ہے اور ایسی واشنگ مشین ایجاد کرلی گئی ہے جو بغیر بجلی کے کپڑے دھوتی ہے اور آپ کی منزل بھی طے ہوجاتی ہے ۔ جی ہاں سائیکل کے ذریعے آپ پیچھے کے ٹائر پر ایک ڈرم رکھ کر کس طرح کپڑے دھوسکتے ہیں اس کی وڈیو بھی جیو پاکستان کے ناظرین سے شیئر کی گئی ۔پاکستان فلم انڈسٹری کے لیجنڈری اداکار محمد علی کے یوم پیدائش پر جیو پاکستان کی جانب سے ٹریبیوٹ پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ شہنشاہ جذبات 19 اپریل 1931ء کو بھارت کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے ، ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے کیریئر کا آغاز کیا ، 1962 میں فلم چراغ جلتا رہا میں بطور ولن کاسٹ ہوئے ۔ 1963 ء میں شرارت میں پہلی بار ہیرو کا کردار ملا ، 1966ء میں اداکارہ زیبا سے ”تم ملے پیار ملا “ کے سیٹ پر شادی کرلی ۔ 277فلموں میں کام کیا ، اردو کی 248 فلمیں شامل ہیں ۔ 10نگار ایوارڈاپنے نام کئے ، 1984ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس ملا ، مہدی حسن کی آواز میں 115 گانے پکچرائز ہوئے ۔2006ء میں لاہور میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے ۔کراچی میں بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ پر بھی ہما امیر شاہ اور عبداللہ سلطان نے بات کی اور بتایا گیا کہ نیپرا کی جانب سے کے الیکٹرک کو اس کا ذمہ دار تسلیم کیا گیا ہے جبکہ سندھ حکومت سب دیکھ رہی ہے لیکن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے جبکہ میئر کراچی سوئن سدرن پر اس کا ملبہ ڈال رہے ہیں بات یہ ہے کہ ذمہ دار کوئی بھی ہو ، شہریوں کو تو لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگتنا پڑرہا ہے ۔کراچی ضلع وسطی کے چیئرمین ریحان ہاشمی نے اس حوالے سے جیو پاکستان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی عوام کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کیا جارہا ہے ، بجلی چوری ہورہی ہے لیکن اس کا بل اس صارف کے گلے میں ڈال دیا جاتھا ہے جو اپنا بل پابندی سے ادا کررہا ہے ۔ بجلی کا میٹر خراب ہو تو تھرڈ پارٹی ٹیسٹنگ ہونا چاہئے لیکن کے الیکٹرک اس کی بجائے خود ہی اس میٹر کو نکالتا ہے اپنی ہی لیبارٹری میں چیک کرتا ہے اور 99 فیصد کیسز ایسے ہیں جس میں ذمہ دار بھی صارف کو ہی قرار دیدیا جاتا ہے کراچی کے عوام کی گردن بہت پتلی ہے اور اسی سے سب لوگ کمانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کے الیکٹرک اپنے منافع کو بچانے کے لئے سوئی سدرن کا پیسہ ادا نہیں کررہا ہے اور اس کا خمیازہ کراچی کے شہریوں کو بھگتنا پڑرہا ہے اس کا حل اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک اجارہ داروں کو ختم نہیں کیا جائے گا ۔